ایک طویل عرصے تک بحرانوں کے گرداب میں رہنے کے بعد ہم ان کے عادی ہو چکے ہیں۔ ابھی تک ان سے نکل نہیں پائے ہیں۔ افسوس، ہم نے ان سے نجات کیلئے اجتماعی طور پر بھرپور اور منظم کوشش ہی نہیں کی۔ سب سیاسی جماعتیں، اور اکثر قائدین بحرانوں کی ہی پیداوار ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بہت فخر سے برملا کہا کرتے تھے ''میں بحران کی پیداوار ہوں، اور بحرانوں کو سمجھتا ہوں‘‘۔ اُن کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ تاریک گلیوں سے ملک کو روشنی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ اُنہوں نے اس کیلئے کتنی سعی کی، اور کس حد تک مقصد میں سرخرو ہوئے، یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ بحران ایوب خان حکومت نے خود سے پیدا نہیں کیا تھا۔ سماجی حرکیات، ناہموار ترقی، ارتکازِ زر اور اقتدار کی مرکزیت کے ساتھ آمرانہ مزاج قومی امنگوں سے ہم آہنگ نہ تھے۔ بھٹو نے سیاسی بحران کو مزید پھیلایا، طوالت دی اور اس نہج تک پہنچا دیا جہاں حالات اُن کے بس میں نہ رہے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی ہوئی، جو نہیں ہونی چاہیے تھی۔ چونکہ اس وقت یہ موضوع نہیں، بس یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں کہ ایک بحران سے دوسرے بحران جنم لیتے ہیں۔ سیاستدان اور افسران، بہت سے لوگوں نے بحرانوں سے فائدہ اٹھایا۔ خود غرضی اور موقعہ پرستی کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا۔
وطنِ عزیز میں سیاست صرف سیاست دانوں کا ہی کام نہیں، مختلف ادوار میں ادارے بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ کبھی براہِ راست، کبھی سیاسی طاقت کیلئے اپنے بازو پیش کیے۔ ریاستی اور قومی اداروں کو ذاتی اقتدار اور طاقت کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا۔ ہمارے چاروں آمروں کا بیانیہ، رنگ ڈھنگ، نظریات اور منصوبہ بندی بنیادی طور پر سیاسی ہی تھی۔ سیاست بازی اور موقعہ پرستی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہاں تک کہ مغربی جمہوریت میں بھی سیاسی ترجیحات انہی کے تابع رہتی ہیں۔ سیاست میں کون سا اصول کس وقت کارآمد ہوگا، اس کا انحصار سیاسی حرکیات پر ہے۔ چونکہ حتمی مقصد اقتدار اور طاقت کا حصول ہوتا ہے، لہٰذا آگے بڑھنے کیلئے پانسہ پلٹنا، رائے تبدیل کرنا، گروہ بندی، جماعت یا نظریات کے انتخاب پر پیہم نظرثانی سیاسی مفادات سے مطابقت رکھتی ہے۔ اگر ادارے اور سیاسی روایات مضبوط اور مستحکم ہوں تو موقعہ پرستی نہ صرف قابو میں رہتی ہے بلکہ اس سے بحران بھی پیدا نہیں ہوتے۔ اس وقت برطانیہ اور امریکہ کی سیاست میں کیا کچھ نہیں ہورہا۔ برطانیہ میں ابہام کی فضا گہری ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ بریگزٹ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا مگر کہیں بھی کوئی بحران دکھائی نہیں دیتا۔
بحران اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب ساری قوم سیاسی دلدل میں پھنس جائے، اور نکلنے کا راستہ نظر نہ آئے۔ ہمارے حکمران طبقات کا سیاسی مفاد بحران پیدا کرنے، اور انہیں جاری رکھنے میں ہے۔ اگر معمول کی سیاست آئین، قانون اور پارلیمان کے تابع رہے تو حزبِ اختلاف میں جماعتیں اور رہنما خبروں کی سرخیوں میں کم آتے ہیں' لیکن عوام کی نظروں میں اور ٹیلی وژن کی سکرین پر رہنا ان کی عادت بن چکی ہے۔ سیاسی مخالفین کے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس کے جائز اور قانونی ہونے پر سوال اٹھا کر بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قومی مفاد میں ایک دوسرے سے تعاون کی روایت کمزور ہے۔ پاکستان کے مسائل کی نوعیت، خاص طور پر معیشت کا سالانہ تین سو ارب روپے خسارے میں جانا، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کی متقاضی ہے۔ حکومت چاہتی تھی کہ نقصان کا باعث بننے والی سرکاری سرپرستی میں چلنے والی کمپنیوں کو نجی تحویل میں دے دیا جائے، لیکن اپوزیشن کے شور شرابے کے خوف سے پسپائی اختیار کر لی۔ ماضی میں موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں نے بھی یہی رویہ اختیار کیا تھا۔ یہ ہے موقعہ پرستی اور اس کا نقصان۔ قومی اور عوامی مفاد اس سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں۔
بحران کا مقصد حکومت کے سیاسی اور قانونی جواز پر سوال اٹھانا ہے۔ اگر مخالف انتخابی کامیابی حاصل کرلے تو بھی اسے مشکوک بنادیا جائے تاکہ اُس کے اقتدار کی اخلاقی اور سیاسی بنیاد کمزور رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی ایک بھی الیکشن کو سب جماعتوں تو کجا، مرکزی دھارے کی بڑی قومی جماعتوں نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ دھاندلی کا الزام تواتر سے لگتا ہے۔ اس سے نہ صرف انتخابی ادارے، بلکہ جمہوریت اور سیاست کو بھی برا نام ملا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ الیکشن کمیشن کو غیر جانبدار اور مضبوط کیا جاتا، اور جمہوریت اور جمہوری اداروں کو زیادہ فعال اور موثر بنایا جاتا، مگر ہر برسرِاقتدار جماعت نے انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ اس نوعیت کے ذاتی اور گروہی مفادات قومی مفادات سے متصادم رہتے ہیں۔
تحریکِ انصاف نے بھی اقتدار تک رسائی کا وہی راستہ اختیار کیا جس پر کسی زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو چلے تھے۔ حالات اور سیاسی طاقت اگرچہ مختلف، مگر حکمتِ عملی یکساں۔ سب مخالف جماعتوں کے خلاف محاذ، عوام کو مسلسل تحریک، دلفریب بیانیہ، قابلِ اعتماد قیادت۔ دونوں نے مخالفین کی تضحیک کی، نااہلی اور ملکی مفاد کا سودا کرنے، اور عوام سے غداری کے نعرے لگائے۔ میرے نزدیک عمران خان نے عوامی مقبولیت کا سبق بھٹو صاحب کی سیاسی کتاب سے لیا ہے۔ وہ پاکستانی عوام کے سیاسی مزاج کو سمجھ چکے ہیں۔ اسی مزاج کو اُنھوں نے عوامی جلسوں سے لے کر پارلیمان تک میں اپنائے رکھا ہے۔ بھٹو صاحب نے تو شلوار قمیض کو عوامی لباس کا درجہ ایسا دیا کہ اشرافیہ تک نے اپنا لیا۔ عمران خان نے ایک قدم اور آگے بڑھا کر اس میں پشاوری چپل بھی شامل کرلی۔ اب وہ عوامی لباس پہن کر عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ اگرچہ علامتی سیاست بامعنی اقدامات کا متبادل نہیں، مگر یہ عوام کے ساتھ جڑنے اور ثقافت کے حوالے سے جگہ بنانے کا عالمگیر سیاسی نسخہ ہے۔ خاں صاحب اقتدار میں تو پہنچ گئے، لیکن اب اُن کا سامنا اُسی نوعیت کی حزبِ اختلاف کی سیاست سے ہے‘ جیسی اُنھوں نے خود کی تھی۔
ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب کوئی بڑا سیاسی بحران پیدا کر پائیں گے یا نہیں‘ لیکن کہا جا رہا ہے کہ وہ اسلام آباد پر ہر سمت سے یلغار کریں گے۔ جھتے تیار ہو چکے ہیں۔ نئی بات البتہ اس میں کوئی نہیں۔ عدلیہ کی بحالی کے لیے نواز شریف کے ''لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ‘‘ نے فضا گرمائی تو آصف علی زرداری کو ججوں کو بحال کرنا پڑا۔ ایک بار پھر محاذ گرم ہورہا ہے، مبارزت کا غلغلہ ہے۔ مولانا کا بیانیہ زیادہ تر وہی ہے جو دیگر سیاسی جماعتوں کا، مگر وہ مطالبات میں مذہب کا تڑکا بھی لگانا چاہتے ہیں۔ اس وقت اسلام تو خطرے میں نہیں، لیکن جن مسائل کو وہ اپنے مطالبات کے ذریعے ہوا دے رہے ہیں، وہ پہلے سے پسی ہوئی اقلیتوں کو خطرے میں ضرور ڈال دیں گے۔ یہ نہ تو نظریات کی لڑائی ہے، نہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی‘ تو پھر تحریکِ انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان ایک عرصہ سے جاری سیاسی تنائواور ذاتی حملوں کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
یہاں دو وجوہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ دونوں رہنما ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرتے رہے ہیں۔ عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کی شخصیت اور سیاست کو ہمیشہ بدعنوانی کی علامت کے طور پر پیش کیا۔ اُنہیں نامناسب ناموں سے پکارا۔ خیر بھٹو صاحب بھی ایئرمارشل اصغر خان مرحوم، اور ایئر مارشل نورخان مرحوم کو عوامی جلسوں میں کچھ مخصوص ناموں سے پکارتے تو لوگ جوش سے دیوانے ہوجاتے تھے۔ مولانا صاحب اگر برداشت رکھتے ہیں تو جواب دینے کی صلاحیت بھی اُن کے پاس ہے۔ جمعیت ملک کی مضبوط ترین مذہبی جماعت ہے۔ پورے ملک میں اس کے حامیوں کی تعداد متاثر کن ہے؛ چنانچہ تیار ہوجائیں۔ مولانا صاحب کے مقاصد بھی وہی ہیں جو ماضی میں بحران پیدا کرنے والوں کے تھے۔ فی الحال تجزیہ یہی ہے کہ بھرپور عوامی تائید، دیگر جماعتوں کی مکمل حمایت، بیانیے کی پذیرائی اور کچھ ریاستی اداروں کا کردار لانگ مارچ سے نتائج لینے کے لیے ضروری ہوگا۔ کیا مولانا کے توشہ خانے میں یہ تمام اثاثے موجود ہیں؟ کیا وہ دبائو برداشت کرجائیں گے؟