پچھلے دنوں مجھے کچھ امیدواروں کے سلیکشن بورڈ میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ ان میں سے کچھ امیدوار پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی تھے۔ میرے لیے یہ تجربہ دو حوالوں سے خوش گوار نہیں تھا۔ ان دونوں حوالوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ایک تو یہ کہ امیدواروں کو عام معلومات کا ادراک نہیں تھا مثلاً جب ایک امیدوار، جو پاکستان سٹڈیز میں لیکچرر کا امیدوار تھا، سے یہ پوچھا گیا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کون ہیں تو اس نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔ میرے لیے یہ بات اس لیے بھی حیران کن تھی کہ ان دنوں کشمیر کا مسئلہ، ملکی اور غیر ملکی سطح پر میڈیا میں نمایاں ہے۔ میری حیرت کی دوسری وجہ تھی کہ جب کئی پی ایچ ڈی ڈاکٹرز سے یہ پوچھا گیا کہ پچھلے ایک برس میں انہوں نے نصاب کے علاوہ کوئی کتاب پڑھی ہے؟ تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں مطالعے کی عادت کس حد تک زوال پذیر ہے۔
اے لیول کا امتحان پاس کر کے یونیورسٹی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے کئی طلبا کا کہنا تھا کہ ان پر پڑھائی کا دبائو اتنا شدید ہوتا ہے کہ کسی غیر نصابی کتاب کی باری ہی نہیں آتی‘ ان کے اساتذہ اور والدین کا ان سے ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اچھے گریڈز لیں۔ ان کے خیال میں غیر نصابی کتب کا مطالعہ بچوں کا اپنے اصل ہدف (یعنی اچھے گریڈز کا حصول) سے ہٹا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں طلبا سکولوں اور پھر ٹیوشن سینٹرز میں صرف درسی کتاب تک محدود رہتے ہیں۔
سکول کی پڑھائی کے درمیان جو وقت ملتا ہے‘ اس دوران طلبا کے پاس کتب بینی سے بڑھ کر دوسری پُرکشش سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ طلبا کا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا میں فیس بک، انسٹا گرام یا ٹویٹر پر گزرتا ہے۔ گھروں اور سکولوں میں موبائل فون کا استعمال Addiction کی حد تک بڑھ گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں فارغ وقت میں طلبا کانوں میں ایئر فون (Earphone) لگائے نظر آتے ہیں یا ان کا فارغ وقت کیفے ٹیریاز میں گزرتا ہے۔ لائبریریوں میں طلبا کی ایک قلیل تعداد نظر آتی ہے۔ اسی طرح محلے کی لائبریریاں بھی دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گئیں۔ راولپنڈی میں امریکن سینٹر اور برٹش کونسل کی لائبریریاں ہوتی تھیں‘ جن میں کتابوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی تھی اور سردیوں اور گرمیوں میںکولنگ (Cooling) اور ہیٹنگ (Heating) کا معقول انتظام تھا۔ مجھے یاد ہے‘ ان دنوں میں گورڈن کالج سے ایم اے انگلش کر رہا تھا اور برٹش کونسل اور امریکن سینٹر کی لائبریریوں کا باقاعدہ ممبر تھا۔ ان لائبریریوں نے امتحان کی تیاری میں میری بہت مدد کی تھی۔ کتاب سے دوری دراصل علم سے دوری ہے‘ جس کی محرومی عمر بھر ساتھ رہتی ہے۔ ایک بار مجھے ایک یونیورسٹی کے سلیکشن بورڈ میں انگریزی کے اساتذہ کے انتخاب کے لیے بلایا گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ امیدوار اپنے نصاب کے کتابوں سے ہٹ کر کوئی سی تین کتابوں کے نام نہ بتا سکے۔ کچھ امیدوارں نے تو اپنے نصاب میں شامل ناول بھی نہیں پڑھے تھے۔ انہوں نے گائیڈز کی مدد سے نصاب میں شامل ناولوں کے خلاصے (Summaries) پڑھ کر امتحان پاس کر لیا تھا۔ کچھ امیدواروں کا کہنا تھا کہ وہ چونکہ پڑھنے کے ساتھ نوکری بھی کر رہے تھے‘ اس لیے ان کے پاس اصل کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں تھا۔ آخر مطالعہ کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟ کتب بینی کے کیا فوائد ہیں؟ غیر نصابی کتب پڑھنے کا ایک مقصد تو ذہنی آسودگی ہے لیکن کتب بینی کا بڑا مقصد علم کا حصول ہے۔ یوں کتاب کے مطالعے سے مختلف موضوعات کے بارے میں مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق وہ طلبا جو سکول کی نصابی کتب کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتابوں کا مطالعہ بھی کرتے ہیں‘ ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔
میں سوچتا ہوں‘ دیکھتے ہی دیکھتے لائبریریاں کہاں کھو گئیں؟ کبھی تو ہر گلی محلے میں چھوٹی چھوٹی لائبریریاں ہوتی تھیں جہاں سے لوگ کرائے پر لے کر کتابیں پڑھتے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ لوگوں نے کتاب پڑھنا چھوڑ دیا؟ کیا یہ زندگی کی تیز رفتاری ہے جس نے کتب بینی کے مواقع کم کر دیئے ہیں؟ کیا زندگی میں ٹی وی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہمیں کتابوں سے دور کر دیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک (Oracy based) معاشرہ ہے جہاں بولنے کا رواج زیادہ ہے۔ اس کے برعکس مغرب کا معاشرہ (Literacy based) ہے جہاں بولنے سے زیادہ پڑھنے کا رواج ہے۔ پاکستان میں لوگوں کے مطالعے کی عادت پچھلی تین چار دہائیوں سے رو بہ زوال ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ناقص نظام تعلیم ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سکول کی لائبریریوں میں طلباء کی دلچسپی کی کتابیں ہوا کرتی تھیں اور طلباء میں مطالعے کا شوق پیدا کرنے میں اساتذہ اہم کردار ادا کرتے تھے‘ لیکن اب اساتذہ کی اکثریت مطالعے سے دور ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ اساتذہ تبھی اپنے طلباء میں کتب بینی کا شوق پیدا کر سکتے ہیں اگر وہ خود بھی مطالعے کے عادی ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کتاب بینی کا کلچر سکول کے ابتدائی درجوں سے متعارف کرایا جاتا ہے۔ سکول میںکتب بینی (Book Reading) پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ہر طالب علم کے لیے ایک Reading Log رکھی جاتی ہے اور اس میں ان کتابوں کا اندراج ہوتا ہے جو والدین یا اساتذہ بچے کو پڑھ کر سناتے یا بچے خود پڑھتے ہیں۔ یہ وہ مضبوط بنیاد ہے جو بچوں کو تعلیمی سفر کے ابتدا ہی میں فراہم کر دی جاتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے کتب بینی کے عادی بنیں تو اساتذہ کو سکولوں میں اس کا اہتمام کرنا ہو گا کہ طلباء کو وہ ماحول فراہم کیا جائے جس میں کتاب سے محبت پیدا ہو۔ اگر ایک بار وہ کتاب کی محبت کے حصار میں داخل ہو گئے تو یہ محبت ساری عمر ان کے ساتھ رہے گی۔ سکول سے بھی پہلے بچے کا خاندان بچے میں مطالعے کی خواہش بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک ایسا گھر جہاں بچے شروع سے کتابیں دیکھیں، اپنے ماں باپ کو کتابیں پڑھتے دیکھیں‘ ان کی کتاب سے محبت کا آغاز اوائل عمری سے ہو جاتا ہے۔ خاندان کے بعد سکول ایک ایسی جگہ ہے جہاں اساتذہ طلباء میں کتابوں سے محبت اور کتب بینی کا شوق پیدا کر سکتے ہیں۔ سکول کی ابتدائی کلاسیں بہت اہم ہوتی ہیں جس میں اساتذہ کتاب سے محبت پیدا کر سکتے ہیں۔ ابتدائی درجے کی کتابوں میں رنگین تصویریں، کتاب کا بڑا سائز، بڑا فونٹ اور دلچسپ ٹیکسٹ بچوں کے لیے کشش کا باعث ہوتا ہے۔ اسی طرح ابتدا میں کتاب کے صفحات کم سے کم ہونے چاہئیں تاکہ بچے انہیں جلدی ختم کر لیں۔ یوں ایک کتاب ختم کرنے کے بعد دوسری کتاب کی طلب بڑھتی ہے۔ ہر کلاس میں ایک چھوٹی سی لائبریری بنائی جا سکتی ہے۔ اس پر زیادہ خرچ نہیں آتا۔ صرف ایک ریک سے کام چل سکتا ہے۔ ہر بچے کے لیے ایک Reading log ہونا چاہیے جس میں اس کی پڑھی ہوئی کتابوںکا ریکارڈ ہو۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹیچر بچوں کو سٹیکرز دے سکتے ہیں۔ یہی بچے جب بڑے ہوں گے تو کتب بینی کی عادت ان کے ساتھ ساتھ ہو گی۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ریڈنگ کلب اور بک ٹاک جیسے پروگرام شروع کیے جا سکتے ہیں تاکہ ہمارے طلبا تازہ ترین کتابوں کے بارے میں باخبر رہیں۔ 21 ویں صدی ایک بے رحم مقابلے کی صدی ہے‘ جس میں محض اوسط درجے کی قابلیت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ابتدائی درجوں سے ہی طلباء میں کتب بینی کی عادت پیدا کی جائے۔ مطالعے کی یہ عادت ان پر علوم اور تجربات کے دروازے کھولتی ہے۔ ان میں تخلیقیت (Creativity)، تفکر (Reflection) اور Critical Thinking کے اوصاف پیدا کرتی ہے۔ یہی وہ اوصاف ہیں جو 21ویں صدی میں کامیابی میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔