اس جمعہ کی دوپہر جب امن کے نوبیل انعام کا اعلان ہوا اور ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد کو اس کا حق دار قرار دیا گیا تو میرے ذہن میں اسی ہفتے کراچی میں چوٹی کے کاروباریوں کے ساتھ عشائیہ کے دوران ہونے والی گفتگو گھوم گئی۔ ابی احمد کو نوبیل انعام تو اریٹیریا کے ساتھ برسوں پرانی دشمنی کے خاتمے کی کوششوں پر ملا لیکن ایتھوپیا افریقی ممالک میں معاشی کامیابی کی ایک نئی داستان رقم کرنے کے حوالے سے زیادہ اہم ہے۔ کراچی کے سینکڑوں کاروباری ایتھوپیا منتقل ہو چکے ہیں اور کاروباری کامیابیوں کے ساتھ اس افریقی ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
کاروباری برادری کے عشائیہ میں شرکت کے بعد ملکی معیشت کی زبوں حالی کا زیادہ شدت کے ساتھ اندازہ ہوا۔ ان کاروباری حضرات نے ملکی معیشت اور کاروبار کے بارے میں کئی باتیں کیں۔ اس میں سب سے اہم بات ٹیکسوں کے متعلق تھی۔ کاروباری افراد ٹیکس دینے سے بالکل انکار نہیں کرتے لیکن ٹیکسوں کی شرح اور وصولی کے پیچیدہ طریقہ کار نے انہیں کاروبار کی بجائے نیب اور ایف بی آر کے معاملات میں الجھا رکھا ہے۔
ٹیکسوں کے بارے میں اس حکومت کا نظریہ کاروباری افراد اور معاشی نظریات سے بالکل ہٹ کر ہے۔ حکومت ٹیکس وصولی کو ہی معاشی ترقی کا پیمانہ تصور کر رہی ہے۔ آئے روز بتایا جا رہا ہے کہ گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد کتنی بڑھی ہے۔ ملک کا معاشی نظام چلانے والے یہ بات سمجھ نہیں پا رہے کہ اصل بنیاد کاروبار ہے۔ کاروبار ہو گا تو ٹیکس بھی وصول ہوں گے۔
ایک اور بات جو تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے حامی بہت شدت کے ساتھ جتانے کی کوشش کرتے ہیں، اس حکومت کی مدت یا عمر ہے۔ حکومتی عہدے داروں اور پارٹی رہنماؤں کا اصرار ہے کہ چودہ ماہ میں کوئی معجزہ رونما نہیں ہو سکتا۔ کاروباری افراد کا سوال یہ ہے کہ معجزوں کی توقع ہم نہیں کرتے لیکن حکومت کی پالیسیاں معاشی ترقی میں مدد دینے کی بجائے کاروبار میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔
ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد کو حکومت میں آئے بیس ماہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی کوئی معجزہ نہیں دکھایا لیکن ٹھوس معاشی پالیسی ترتیب دے دی ہے اور سیاسی حالات کو بھی سدھارنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ایتھوپیا پچھلے پندرہ سال سے تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک ہے‘ جس کی شرح ترقی دس فیصد رہی ہے لیکن سارا کاروبار حکومت کی نگرانی میں ہو رہا تھا۔ ابی احمد نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نجکاری کا اعلان کیا۔ حکومت کی ملکیتی شوگر ملیں، ریلوے اور انڈسٹریل پارک نجی شعبے کو دیئے جائیں گے۔ ایتھوپیا کے سب سے بڑے چار کاروبار ایتھوپیا ایئرلائن، ٹیلی کام، الیکٹرک پاور کارپوریشن، شپنگ اینڈ لاجسٹکس اور انڈسٹریل پارکس کی جزوی نجکاری کی جائے گی۔ ساٹھ ملین لینڈ لائن اور موبائل فون کنکشن والے ملک میں ٹیلی کام سیکٹر میں مزید دو نئے لائسنس دیئے جائیں گے۔
سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے کے لیے ایتھوپیا میں چین کی طرز پر انڈسٹریل پارکس بنائے گئے ہیں۔ پانچ انڈسٹریل پارکس حکومتی ملکیت ہیں جبکہ دو نجی شعبے میں ہیں۔ وزیر اعظم ابی احمد دو ہزار پچیس تک تیس انڈسٹریل پارکس بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ملازمتوں کے مواقع بڑھائے جائیں اور ملکی پیداوار پانچ فیصد سے بڑھا کر بائیس فیصد تک لائی جائے۔ کئی بڑے کاروباری برانڈز پہلے ہی ایتھوپیا پہنچ چکے ہیں۔ ابی احمد علی کی پالیسیوں نے نتائج دینا شروع کر دیئے ہیں۔ ورلڈ بینک نے ڈائریکٹ بجٹ سپورٹ کے لیے ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر دیئے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات کا ایک تعمیراتی گروپ ایتھوپیا میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کو ہے۔ یہ سرمایہ کاری چار ہزار گھروں کی تعمیر میں کی جائے گی۔ نجکاری کا عمل تیز ہوتے ہی مزید بیرونی سرمایہ کاری ایتھوپیا کا رخ کرے گی۔
ابی احمد نے کاروبار کی بہتری کے لیے سیاسی استحکام پر بھی توجہ دی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے ہی مہینے میں ہزاروں سیاسی قیدی رہا کئے۔ اریٹیریا کے ساتھ دشمنی ختم کرنے کے علاوہ دیگر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات میں مزید بہتری پر توجہ دی۔ ملک کو تمام افریقی شہریوں کے لیے ویزا فری بنا دیا۔ یہ تو تھی ایتھوپیا کی کہانی، جس کے بارے میں ہمارے ہاں عام تصور قحط اور بھوک کا ہے۔
کاروباری افراد معاشی ترقی کے حوالے سے بنگلہ دیش اور نائیجیریا کی مثال بھی دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اقتصادی ترقی کی شرح نمو 7.8 فیصد ہے۔ ہمارے ہاں شرح نمو 5.7 فیصد سے کم ہو کر 3.3 فیصد پر آ چکی ہے اور خدشہ ہے کہ مالی سال کے اختتام پر جی ڈی پی گروتھ ریٹ 2.2 تک گر سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کے زر مبادلہ کے ذخائر 32 بلین ڈالر کو چھو رہے ہیں جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور کپاس بڑی فصل تصور کی جاتی ہے اس کے باوجود بنگلہ دیش نے ٹیکسٹائل انڈسٹری اور برآمدات کے میدان میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
پاکستان میں ہر وقت کرپشن کا رونا رو کر اور ستر سال کی بربادیوں کی داستان سنا سنا کر اپنی کارکردگی چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت کم از کم ٹھوس معاشی پالیسی تو سامنے لائے۔ پچھلے سال ستمبر میں بنگلہ دیشی میڈیا کو بیان دیتے ہوئے حسینہ واجد نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش دو طرفہ تعلقات میں تلخی کے باوجود پاکستان کی مدد کرنے پر تیار ہے۔ اگر پاکستان ہم سے مدد کی درخواست کرے گا تو ہم اپنے تجربات کے حوالے سے پاکستانی عوام کی فلاح اور دو طرفہ تعلقات میں بہتری لانے کے مقاصد کی خاطر، ان کی بھرپور مدد کریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کے متعلق حسینہ واجد نے کہا تھا کہ عمران خان کھلاڑی ہیں اور انہوں نے کئی چھکے مارے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ گیم آف پاور میں کتنے چھکے ماریں گے‘ انہوں نے بڑی جدوجہد کے بعد اقتدار حاصل کیا ہے۔
اسی ہفتے ورلڈ اکنامک فورم نے عالمی مسابقتی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان کی معیشت جنوبی ایشیا میں دیگر ممالک کے مقابلے میں تنزلی کا شکار رہی ہے جبکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان ایک سال کے دوران مزید تین درجے نیچے چلا گیا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی جاری کردہ عالمی مسابقتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس فہرست میں خطے کے دیگر ممالک میں بھارت 68ویں، سری لنکا 84ویں، بنگلہ دیش 105ویں، نیپال 108ویں جبکہ پاکستان دنیا بھر میں مجموعی طور پر 110ویں نمبر پر رہا۔ رپورٹ کے مطابق اداروں کی کارکردگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں 107ویں نمبر پر رہا ہے۔
رپورٹ میں دلچسپ انکشاف یہ کیا گیا ہے کہ ملک میں ایک سال کے دوران کرپشن کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ اس وقت پاکستان دنیا کے 175 ممالک کی فہرست میں کرپشن کے اعتبار سے 117ویں نمبر پر ہے۔ عالمی مسابقتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے دوران انفراسٹرکچر کی صورت حال مزید خراب ہوئی ہے جبکہ اس اہم معاملے پر پاکستان دنیا بھر میں 105ویں نمبر پر ہے۔ اس شعبے میں سب سے زیادہ کمی ملک میں ریلوے نیٹ ورک کی کثافت میں بتائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ ترقی آذربائیجان نے کی ہے اور ایک سال کے دوران وہ عالمی مسابقت میں 11 درجے اوپر آیا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی اس رپورٹ کو درست مان لیا جائے تو کرپشن ختم کر کے ملکی معیشت بہتر بنانے کے دعووں کے ساتھ حکومت بنانے والی پارٹی اپنے پہلی ترجیح میں بھی ناکام دکھائی دی۔ بیرون ملک پڑے اربوں روپے واپس لا کر معیشت بہتر بنانے کا خواب دکھانے والے اب خود چھپتے پھر رہے ہیں۔ ایک وزیر الیکشن سے پہلے دو سو ارب ڈالر واپس لا کر سو ارب ڈالر عالمی معاشی اداروں کے منہ پر مارنے کا دعویٰ کرتے تھے، اب پتہ چلا کہ بیرون ملک ڈالروں کا تخمینہ افسانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
معاشی دعوے اور اندازے غلط ثابت ہو چکے، وزیر اعظم عمران خان دسیوں بار ''رائٹ مین فار دا رائٹ جاب‘‘ کا منتر سناتے رہے، اگر اب بھی اس پر عمل کر لیں تو بہت کچھ بہتر ہو جائے گا۔ کراچی سے ایتھوپیا منتقل ہونے والے کاروباری اسی صورت سرمایہ واپس لائیں گے جب پاکستان بھی ایتھوپیا جیسی ٹیکس اصلاحات کر کے بزنس فرینڈلی ملک بن جائے گا۔