تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     13-10-2019

کشمیر کی تحریک کو متحرک رکھنا

پاکستان پہلا اور دوسرا رائونڈ جیت چکا ‘ لیکن چند ایک رائونڈ جیتنا اورمیچ میں کامیابی حاصل کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ یقینا پاکستان نے یواین جی اے سے پہلے اور اس دوران ہونے والے دو نوں رائونڈز میں زبردست لڑائی لڑی۔ انڈیا دفاعی قدموں پر تھا‘ لیکن ٹس سے مس نہ ہوا۔ دکھائی یہی دیتا ہے کہ انڈیا کا کشمیر پر فوری طور پرنرم پڑنے یا پابندیاں اٹھانے کا امکان معدوم ہے ۔ اس وقت وہ دو باتوں کا انتظار کررہے ہیں؛پہلی یہ کہ دنیا اس موضوع سے اکتا کر آگے بڑھ جائے اور دوسری یہ کہ پاکستان کے پاس آپشنز ختم ہوجائیں۔ کشمیر کی جنگ میں اصل چیلنج یہی ہے ۔کسی بھی بھاری بھرکم جارح قوت کے خلاف تحریک اعصاب کی جنگ ہوتی ہے ۔ 
کشمیر ایشو ایک غیر معمولی چیلنج ہے ۔ اس کی ایک قانونی ‘ ایک اخلاقی اور ایک سیاسی جہت ہے ‘ لیکن اس کا سب سے چونکا دینے والا پہلو یہ ہے کہ اس کی کشمیر کے اندر اور عالمی سطح پر کوئی سرپرستی نہیں۔ انڈیا کے اندر اسے ایک پریشان کن موضوع سمجھا جاتا ہے ۔ کشمیری قیادت کو''معمولی سا مسئلہ‘ قرار دے کر نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ انتخابات کے وقت کچھ سیاسی رہنما ئوں کی دلجوئی کی جاتی ہے‘ تاکہ کشمیر پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا جاسکے ۔ عالمی سطح پر کشمیر پر کبھی کبھاریادہانی کرائی جاتی ہے کہ ا قوام ِ متحدہ کی قرار دادوں پر عمل نہیں ہورہا؛ چنانچہ کشمیر میں قیادت کے فقدان نے مودی کو اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا موقع دیا۔ اب وہ حیران ہے کہ پاکستان اس پر اتنا شور کیوں مچارہا ہے ؟
قیادت کیخلا نے کشمیریوں پر ظلم اور اب کشمیر پر جبری قبضے کی راہ ہموار کی ۔ آٹھ ملین کشمیریوں کو عملی طور پر قید کردیا۔ اس پر وزیراعظم عمران خان کی بے پناہ سعی نے ناصرف مودی ‘ بلکہ خود کشمیریوں کو بھی حیران کردیا ہے۔ اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی بے پناہ سفارتی سرگرمیوں کا اکھاڑا بن گئی ۔ دیکھا جانے لگا کہ کشمیر پر عالمی توجہ حاصل کرنے کی مسابقت کون جیتے گا۔ بھارتی اور پاکستانی وزرائے اعظم کی دوتقاریر نے تمام کہانی بیان کردی۔ مودی نے عومی معاملات پر بات کرتے ہوئے جان بوجھ کر کشمیر کے موضوع سے اغماض برتا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے یہ تاثردیا کہ وہ اس پر پریشان کن دفاعی پوزیشن میں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے گویا شیر کی کچھار میں گھس کر اُسے للکارا۔ حقائق اور قانونی نکات پر مشتمل معرکتہ الارا ء تقریر نے بھارتیوں کو بے چینی سے پہلو بدلنے پر مجبور کردیا۔ اُن کی بچگانہ حرکات سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ کسی بھی عالمی فورم پر کشمیر کا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہے ۔ 
عالمی اہمیت کے حامل یہ فورمز نظراندازکردہ معاملات پر آواز بلند کرنے کا موقعہ فراہم کرتے ہیں‘ لیکن اس کے لیے حقیقی اور پرعزم قیادت کی ضرورت ہے‘ جو مہینوں‘ بلکہ برسوں تک اپنے موقف کو اجاگر کرتے رہے۔ استقامت‘ سنگین حصاروں کو توڑ سکتی ہے ۔ مقامی قیادت نے فقید المثال جرأت کا مظاہر کرتے ہوئے مودی جیسے جارح کے سامنے مزاحمت پر کمر باندھ لی۔ دنیا میں جنگی تنائو کا شکار اس حصے میں ایک پیہم تحریک چلانا کم وبیش ناممکن دکھائی دیتا ہے ۔ فی الحال کشمیر کے مسلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جاچکا ۔ ا س سے پہلے پاکستان میں کبھی کشمیر کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا؛ کشمیر پر اسلامی دنیا نے بھی کبھی معانی خیزموقف اختیار نہیں کیا تھا؛امریکا جیسی عالمی طاقت نے کبھی کشمیر پر اس قدر گفتگو نہیں کی تھی اور نہ ہی کسی امریکی صدر نے اس مسلے کے حل کے لیے کبھی ثالثی کی پیش کش کی تھی ۔ 
اس وقت پاکستان کو دو چیلنجز کا سامنا ہے ۔ پہلا‘ کشمیر پر عالمی دبائو برقرار رکھنا اور دوسرا‘ صورتحال کو اس نہج تک نہ جانے دینا‘ جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ جائے ‘ جیسا کہ گزشتہ فروری میں خطرہ پیدا ہوچلا تھا۔ پہلے ایشو کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ انڈیا پاکستان کی نسبت سات گنا بڑی مارکیٹ ہے ‘ اسے کاروبار کے لیے ایک محفوظ اورپیہم ترقی کرتا ہوا ملک سمجھا جاتا ہے ۔ بھارت کو حاصل اس واضح بالا دستی کے تدارک کیلئے پاکستان کو مندرجہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے :۔ 
1۔ ذاتی دلچسپی کا حامل بیانیہ تشکیل دینا: جیسا کہ ہم کاروبار میں کہتے ہیں کہ گاہک آپ کی اُسی مصنوعات یا تصور کو خریدتاہے ‘جب وہ اس میں اپنا فائدہ دیکھتا ہے ؛ چنانچہ ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر میں امریکا کے لیے کیا دلچسپی ہے؟ امارات کیلئے اس میں کیا ہے ؟ وغیرہ‘ اس کے بعد ہمیں ایک قدم آگے بڑھ کر اس مسئلے میں اُن کی ایسی ضرورت پیدا کرنی ہے کہ مودی پر دبائو ڈالنے میں ان کی اپنی دلچسپی بھی ہو۔ امریکا کو افغان طالبان سے مذاکرات میں دلچسپی ہے ۔ صدر ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ موقوف کردیا ہے ‘ لیکن اُنہیں اپنی انتخابی مہم کیلئے ان کا آغاز کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ پاکستان کو مذکرات کا سہولت کار بننے اور انہیں شروع کرانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔ اس کے لیے امریکی ہدایت کی ضرورت نہیں‘ اس کا اپنا مفاد بھی اسی میں ہے ۔ اسی طرح امریکا کے لیے ایران ایک درد ِ سر ہے ۔ پاکستان کے لیے ایران‘ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان تلخی کم کرانا ‘ او ر ان کے درمیان ابلاغ کی سہولت فراہم کرنا آسان کام نہیں‘ لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کی کوشش کے جواب میں امریکا کشمیر میں کم از کم کرفیو اٹھانے میں مدد کرسکتا ہے ۔ 
2۔ تصوارت کی مربوط مارکیٹنگ: یواین جی اے کی سائیڈ لائن پر ہونے والی ملاقاتوں میں ترجیحی بنیادوں پر معاملات کوسامنے رکھنا ضروری ہے ۔ اس ضمن میں سب سے اہم ترجیح پاکستان‘ ترکی اور ملائیشیا کے سہ فریقی الائنس کو دی جانی چاہیے ۔ بی بی سی طرز کا ایک ٹی وی چینل شروع کرنے کی بات کی گئی۔ اس چینل کے ذریعے تزویراتی ابلاغ کے منصوبے کے تحت اسلام کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈے کے توڑ اور دنیا کو اسلام کی حقیقی روح سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ خطے کی اہم اور ممکنہ مارکیٹس کی طرف رسائی کے لیے بھی پیش قدمی کی جائے ۔ 
3۔ اہم فو ر مز کو ا ستعمال کرتے ہوئے دبائو برقرار رکھیں: یہ ایک مفید حکمت ِعملی ہے ۔ خاص مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حالات کو اجاگرکرنا اور دبائوبڑھانا ایک اہم سرگرمی ہے ۔ وزارت ِخارجہ کے پاس عالمی مواقع کا ایک کیلنڈر ہوگا۔ اس کے مطابق ‘ملک میں آنے والے غیر ملکی وفود کو آگاہی دی جاسکتی ہے ۔ ان پلیٹ فورمز سے کشمیر پر پیہم بات کی جانی چاہیے ۔ ان کے ذریعے اس ایشو کو عالمی سطح پر زندہ اور متحرک رکھا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے SAFTA کا انعقادپاکستان میںکشمیر میں کرفیوکو اجاگر کرنے کے لیے ستائیس اکتوبر کو بطور ِ احتجاج ''کشمیر بلیک ڈے ‘‘ منایا جائے ۔ اس موقع پر کشمیر میں ہونے والے ظلم و جبر کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرائی جائے ۔ یواین آبزور گروپ کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی عالمی تنظیموں کو آزاد کشمیر میں مدعو کیا جائے ‘تاکہ وہ یہاں سے صورتحال کا جائزہ لیں اور ایسا کرتے ہوئے بھارت پر دبائو بڑھائیں۔ 
کشمیر کو اس محاصرے اور جبر سے آزاد کرانے کی جدوجہد طویل اور صبر آزما ہے۔دنیا پرانی خبروں سے اکتاجاتی ہے۔ مودی کا گیم پلان یہی ہے۔ وہ انتظارمیں ہیں کہ عالمی سامعین کی توجہ بٹ جائے ‘ دبائو کم ہوجائے اور وہ اپنی فتح کا اعلان کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تحریکوں کا خمیر وطن سے نہیں اٹھتا‘ اُنہیں قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے ‘ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی تحریکوں کی کوئی ڈیڈلائن نہیں ہوتی۔ مقصد کے حصول کے لیے انہیں جاری رکھنا ہوتا ہے ۔
شطرنج کے کھیل کی طرح ممکن ہے کہ ہر چال کامیاب نہ ہواورناکامی کی بھاری قیمت چکانی پڑے‘ لیکن چال ضرور چلنی ہے‘ کیونکہ اس کے بغیر ادا کی جانے والی قیمت ناقابل ِ برداشت حد تک بھاری ہوگی۔ یہ قیمت آٹھ ملین کشمیریوں کے تحفظ‘ بلکہ اُن کی جان ومال کی صورت ادا کرنی پڑسکتی ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved