تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     14-10-2019

امریکہ طالبان امن مذاکرات اور پاکستان

اس مہینے کے شروع میں امریکہ اور طالبان کے وفود کی اسلام آباد میں موجودگی ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اس سے افغانستان میں امن و استحکام کے حوالے سے پاکستان، امریکہ اور طالبان کے سیاسی رویوں میں ایک نئے رجحان کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے امریکہ اور طالبان کے مابین ان مذاکرات کی بحالی کے ضمن میں بات چیت کی جنہیں صدر ٹرمپ نے دوحہ میں ہونے والے نویں رائونڈ کے بعد معطل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اسلام آباد مذاکرات بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کی محتاط خواہش کا اظہار ہے۔ میزبان پاکستان نے اس ملاقات کا بندوبست کیا کیونکہ اس کی قیادت اس بات کی قائل ہو چکی تھی کہ امریکہ طالبان مذاکرات سے ہی افغانستان میں امن و استحکام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
یہ واقعات میں واضح تبدیلی تھی کیونکہ 2017-18ء تک امریکہ مسلسل پاکستان پر الزام عائد کر رہا تھا کہ وہ ان افغان طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے جنہوں نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کا قتل عام کیا تھا۔ ایک امریکی صدر سمیت امریکہ کے سرکاری ذرائع پاکستان پر یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ دوستی کے نام پر دُہرا کھیل کھیل رہا ہے اور باقاعدگی سے افغان طالبان کی سپورٹ کر رہا ہے۔ وہ اکثر کوئٹہ میں مقیم افغان طالبان شوریٰ کی بات کرتے تھے اور مطالبہ کرتے تھے کہ وہ اس کی قیادت کو ملک سے بے دخل کرے۔ 2018ء میں صدر ٹرمپ نے پاکستان کو ملنے والی تمام فوجی اور معاشی امداد یہ کہہ کر معطل کر دی تھی کہ پاکستان افغان طالبان کو اکموڈیٹ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
پاکستان کی افغان پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ نے کوشش کی کہ وہ افغان حکومت اور بھارت کے سفارتی حلقوں کی مدد سے طالبان کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کرے۔ امریکہ یہ بھی چاہتا تھا کہ اس کے افغانستان سے انخلاء کے بعد بھارت وہاں اپنے کچھ فوجی بھی تعینات کرے۔ یہ تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔ درایں اثناء امریکہ نے محسوس کیا کہ پاکستان نے افغان طالبان کو چین اور روس کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے میں سہولت فراہم کی ہے؛ چنانچہ امریکہ نے بھی پاکستان کی طرف مراجعت کی اور اس سے امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات شروع کرانے کیلئے تعاون کی درخواست کی۔اس سے افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی میں بڑی تبدیلی کی عکاسی ہوئی۔ اٹھارہ برس تک افغانستان میں فوجی ایکشن کے بعد امریکہ کو احساس ہوا کہ وہ طالبان کو ختم نہیں کر سکتا۔ اس کا یہ ادراک ویت نام تجربے سے ملتا جلتا تھا۔ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے مکمل یا جزوی انخلا سے آئندہ صدارتی الیکشن میں ان کی پوزیشن مستحکم ہو جائے گی۔ دوحہ میں نو رائونڈز کے نتیجے میں امریکہ اور طالبان افغانستان سے امریکی انخلا کے حوالے سے ایک مفاہمت کے قریب تر پہنچ گئے تھے؛ تاہم ستمبر میں صدر ٹرمپ نے بات چیت کا یہ سلسلہ معطل کر دیا۔
اسلام آباد کا تازہ ترین اقدام اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ امریکہ مذاکرات کا سلسلہ اس طرح بحال کرنا چاہتا ہے جس سے صدر ٹرمپ کے لئے کوئی پریشانی کا سامان نہ پیدا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر صدرٹرمپ امریکی انخلاء کو آئندہ الیکشن میں ایک مثبت پوائنٹ کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں تو امریکہ کو معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لئے مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا۔ اس معاہدے کے بغیر یک طرفہ انخلاء سے سنگین مسائل پیدا ہوں گے؛ تاہم یوکرین افیئر کی وجہ سے صدر ٹرمپ کے مواخذے کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے روز افزوں دبائو کی بدولت امریکہ طالبان مذاکرات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ افغان طالبان کے حوالے سے پاکستان کی ہمدردی پر مبنی پالیسی اب عملی پالیسی میں بدل چکی ہے یعنی پاکستانی سرزمین پر تمام گروپوں کی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جائے گا۔ اس پالیسی کے ڈانڈے جون 2014ء سے جا ملتے ہیں جب پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں ایک فوجی آپریشن لانچ کیا تھا‘ جس کا مقصد افغان طالبان اور ان سے وابستہ افراد کو وہاں سے بے دخل کرنا تھا۔ اس سکیورٹی آپریشن کی رفتار تیز تر ہو گئی اور دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر طالبان کے حملے کے بعد اس کا دائرہ کار دیگر قبائلی علاقوں تک پھیلا دیا گیا۔
2003ء سے قبائلی علاقوں خصوصاً 2009-10ء میں جنوبی وزیرستان میں اور 2014ء کے بعد کئے جانے والے سکیورٹی آپریشنز کی بدولت پاک فوج کے نوجوان افسروں اور جوانوں پر طالبان اور ان کے حامیوں کی بربریت مکمل طور پر آشکار ہو گئی۔ اس تلخ تجربے نے انہیں دہشت گردوں اور تشدد پسند گروپوں کے خلاف کر دیا۔ زیادہ تر پاکستانی طالبان مارے گئے یا سرحد پار کر کے افغانستان میں اپنے ان ہم خیالوں سے جا ملے جو 2009ء میں سوات آپریشن کے بعد سے وہاں مقیم تھے۔ افغان طالبان نے پاکستانی طالبان کو سپورٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا‘ جس کے نتیجے میں پاکستان کے لئے افغان طالبان کے ساتھ تال میل جاری رکھنا مشکل تر ہوتا گیا؛ تاہم بعض افغان طالبان رہنمائوں اور ان کے جنگجوئوں نے سرحد کے آر پار اپنی آمد و رفت جاری رکھی‘ جس کی وجہ سے پاکستان کو انہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے کا موقع مل گیا۔ ان میں سے بعض پاکستانی سکیورٹی فورسز کی حراست میں تھے‘ جنہیں مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لئے آزاد کر دیا گیا۔
مذاکرات کیلئے پاکستان کے مثبت کردار سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ پاکستان افغان مسئلے کا ایک سیاسی حل چاہتا ہے؛ تاہم پاکستان کا افغان طالبان کے رہنمائوں پر اتنا زیادہ اثر و رسوخ نہیں ہے کہ وہ انہیں امریکہ کے ساتھ کسی سیاسی حل پر مجبور کر سکے۔ اس کا زیادہ تر انحصارامن کی ان شرائط پر ہے جو وہ باہمی مشاورت کے ساتھ وضع کریں گے۔ اس طرح کا کوئی معاہدہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا عمل شروع کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے بعد ہی کابل حکومت اور افغان طالبان میں مذاکرات کے لئے فضا سازگار ہو سکتی ہے۔ کابل حکومت اور افغان طالبان کو افغانستان میں مستقبل کے کسی بھی سیاسی بندوبست میں ایک دوسرے کیلئے گنجائش پیدا کرنا ہو گی۔ طالبان سے یہ امید نہیں ہے کہ وہ کابل کے موجودہ آئینی اور سیاسی بندوبست کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ افغان طالبان افغانستان کے موجودہ سیاسی اور آئینی بندوبست میں کافی ترامیم اور تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں۔ اگر کابل حکومت طالبان کیلئے کسی لچکدار رویے کا مظاہرہ نہیں کرتی تو امریکی افواج کی عدم موجودگی میں افغانستان ایک داخلی شورش اور بد امنی کا شکار رہے گا اور کابل حکومت کے لئے افغان سیاسی نظام کو چلانا مشکل ہو جائے گا اور افغان طالبان امریکی افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان کے لئے درد سر بنے رہیں گے۔ اگر وہاں داخلی انتشار جاری رہتا ہے تو افغان طالبان پاکستان کے مذہبی حلقوں خصوصاً اپنے ہم خیال فرقے کے مدارس سے سپورٹ مانگیں گے۔ اس طرح افغانستان کی داخلی شورش کے پاکستان تک پھیلنے کا خدشہ ہے۔
پاکستان کو چاہئے کہ وہ افغانستان کو صرف ایک ہمسایہ ملک کے طور پر ہی ڈیل کرے‘ کابل کی کسی بھی حکومت کے ساتھ اشتراک عمل پر تیار رہے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ افغان طالبان افغانستان میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے سماجی روابط کو فروغ نہ دے سکیں۔ پاکستان کو اپنے کارڈز بڑی احتیاط کے ساتھ کھیلنا ہوں گے کیونکہ اسے مسئلہ کشمیر کے تناظر میں پہلے ہی بھارت کی طرف سے شدید مخاصمت کا سامنا ہے۔پاکستان افغانستان میں اپنے لئے جذبہ خیر سگالی کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے وہ اقتصادی انٹر ایکشن خصوصاً دو طرفہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے ساتھ ساتھ افغان شہریوںکو کاروباری اور طبی سہولتوں اور اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کیلئے پاکستان آنے جانے کی سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ افغانستان کا داخلی امن و استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اس مقصد کے لئے پاکستان کو چاہئے کہ وہ روس اور چین سمیت افغانستان کے قریب ترین ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی تعاون کرے۔ وہ بھی افغانستان کے داخلی استحکام اور امن و امان میں اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved