جتنا مرضی ظلم کر لیں‘ہم سرخرو ہوں گے: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''جتنا مرضی ظلم کر لیں‘ہم سرخرو ہوں گے‘‘ کیونکہ ہم سزایابی کو بھی سرخرو ہونا ہی کہتے ہیں اور یہ جو ہم پر دھڑا دھڑ مقدمات بنائے جا رہے ہیں‘ یہ ساری ہماری سرخروئی ہی کی تیاریاں ہو رہی ہیں‘ جبکہ برخورداران حسین اور حسن نواز پہلے ہی مستقل طور پر سرخرو ہو کر بیرون ملک مقیم ہیں‘ جنہیں نہ واپس لایا جا سکتا ہے اور نہ ہی پیسے وغیرہ واپس لئے جا سکتے ہیں‘ جبکہ میرے علاوہ مریم نواز‘ شہباز شریف بھی مکمل طور پر سرخرو ہونے کی تیاریوں میں ہیں‘ جبکہ مجھے مزید سرخرو کرنے کیلئے حکومت نے میری بریت کیخلاف عدالت میں اپیل بھی دائر کر رکھی ہے۔ آپ اگلے میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کو چلتا کرنے کیلئے تیار ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہم حکومت کو چلتا کرنے کیلئے تیار ہیں‘‘ اگرچہ حکومت چلتا ہونے کیلئے تیار نظر نہیں آتی؛ حالانکہ ہماری تیاری کے پیش نظر وضعداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے بھی تیار ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن وہ کسی اور کام کیلئے تیار نظر آتی ہے‘ جو کافی ناگوار صورتحال بھی ہو سکتی ہے اور اگر میرا نہیں تو برخوردار بلاول ہی کے جذبات کا کچھ خیال کر لیتی ‘جو حکومت کو چلتا کرنے کیلئے مجھ سے بھی زیادہ تیار بیٹھے ہیں اور امید ہے کہ اندر ہونے سے پہلے پہلے وہ یہ کام کر گزریں گے؛ اگرچہ حکومت پہلے ہی مناسب رفتار سے چل رہی ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
مولانا کے دھرنے کا علم نہیں‘ میں تو اندر بیٹھا ہوں: سراج دُرانی
سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے کہا ہے کہ ''مولانا کے دھرنے کا علم نہیں‘ میں تو اندر بیٹھا ہوں‘‘ بلکہ میرا سارا ٹبر ہی اب تک اندر ہو چکا ہوتا‘ اگر وہ عقلمندی سے کام لے کر باہر نہ کھسک گئے ہوتے‘ اس لئے اب تو حکومت سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ:ع
اب اُنہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
اور ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنے زیادہ ملک بنائے ہی اس لئے ہیں کہ ان میں سے کسی میں بوقت ضرورت جایا جا سکے؛اگرچہ یہاں بھی کوئی مسئلہ نہیں ‘کیونکہ میں جتنا اندر ہوں ‘اس سے زیادہ باہر ہوں ‘ کیونکہ حراست میں ہونے کے باوجود سپیکری بھی کر رہا ہوں۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
ایک دوست نے گزشتہ روزاپنے کالم میں اکبر الہٰ آبادی کا یہ شعر (مصرع کہہ کر) درج کیا ہے : ؎
سنا ہے اہلِ غیرت سے یہی
جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا
اس کا پہلا مصرع صحیح درج نہیں ہوا ہے ‘جس سے یہ شعرخارج از وزن ہو گیا ہے۔ دوسرے مصرع سے لگتا ہے کہ یہ رباعی کا مصرع ہے‘ جو غالباً اس طرح سے ہے: ع
اہلِ غیرت سے یہ سُنا ہے ہم نے
ایک اور صاحب نے بقول خود کلیم عاجز کا شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے
لگے ہے جیسے محبت کرے ہے
مصرع بے وزن ہو گیا ہے‘ اصل مصرعہ اس طرح سے تھا:ع
لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے
انہی صاحب نے عدیم ہاشمی کا یہ مشہور شعر اس طرح درج کیا ہے: ؎
بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اُڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے
جو شجر پہ بیٹھے ہوئے کی بجائے شجر میں بیٹھے ہوئے ہے۔
اور اب انجم قریشی کے مجموعۂ کلام ''دوجا پاسا‘‘ میں سے یہ نظم:
بارھیں برسیں
بارھیں برسیں کٹھن گیا
تے کھٹ کے لیاندے ہاسے
خوشیاں دے ڈھول وجدے
پئے وجدے چارے پاسے
بارھیں برسیں کٹھن گیا
تے کھٹ کے لیاندیاں ہاواں
ویڑھے چھنکاندی پھراں
میں چوڑے والیاں باہنواں
بارھیں برسیں کٹھن گیا
تے کھٹ کے لیاندے ماہیے
خصماں نوں کھان لوکیں
گج وج کے بھنگڑے پائیے
بارھیں برسیں کٹھن گیا
تے کھٹ کے لیاندا وچھوڑا
لیکھاں تے زور ساڈا
نہ بہتا نہ تھوڑا
بارھیں برسیں کٹھن گیا
تے کھٹ کے لیاندے سیاپے
لمیاں نیندراں ہنڈا
جد تک جیوندے نیں ماپے
بارھیں برسیں کٹھن گیا
تے کھٹ کے لیاندا چانن
چنگیاں دے پُت جیون
جیون تے جوانیاں مانن
آج کا مقطع
حصارِ اہلِ زباں میں گھِرا ہوا ہے‘ ظفرؔ
اور ان کے بیچ میں یہ بے زبان آخری ہے