کسی کو غلط فہمی کا شکار نہیںہونا چاہیے، تبدیلی آچکی ہے۔ اس تبدیلی کی جھلک کو سماجی واقعات، فیشن شوز، ٹیلی ویژن پر مباحثے کے پروگراموں ، خریداری کے جدید مراکز، ہوٹلوں، پارکوں ، سکولوں اور کالجوں کے علاوہ سڑکوں پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ زندگی کی ہر جہت میں پھیلتا ہوا تبدیلی کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ بعض اوقات ہم اسے محسوس بھی نہیں کرتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے ۔ اگر ہم شہروں کے مضافاتی علاقوں کو دیکھیں تو چھوٹے شہربہت پھیل چکے ہیں اور نئی آبادیوں میں تعمیر ہونے والے گھر بہت وسیع ہیں۔ لوگوںکے پاس اب پرانی وضع کی جیپیں نہیں بلکہ جدید ترین کاریں ہیں۔ زیادہ ترشہروں کی سڑکیں ترقی یافتہ ممالک کی سڑکوںکی ہم پلّہ ہیں۔ پاکستان سے سبکدوش ہونے والے کسی بھی سفارت کار کو دکھ ہوتا ہے کہ وہ اتنے ’’امیر ملک ‘‘ کو چھوڑ کر جارہا ہے۔ جب آپ اس پر حیرت کا اظہار کریں تو وہ کہے گا۔ ’’میںنے اس ملک کے طول و عرض میں سفر کرکے دیکھا ہے ، یہاں کی زراعت کا شعبہ بہت مضبوط ہے اور لوگ محنتی ہیں‘‘۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہمارے ہاں کمی کس بات کی ہے ؟ کیا ہم جنگل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ایک درخت پر نظر مرکوز کیے ہوئے ہیں؟یقینا ایسا ہی ہے اور وہ واحد درخت، جو ہماری توجہ کا مرکز ہے ، اُس کا نام سیاست ہے‘ اور یہ درخت بدعنوانی کی آکاش بیل میں لپٹا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم قومی زندگی کے بہت سے پہلوئوں، حقائق اور معاملات سے اس لیے صرف ِ نظر کر جاتے ہیں کہ میڈیا اسے غیر معمولی حد تک توجہ کا مرکز بنائے ہوئے ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے رات دن منفی تاثرات کیوں اُبھارے جاتے ہیں؟ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ اس کو حکمرانوں کی بدعنوانی نے کنگال کر دیا ہے؟ میڈیا ہمیشہ یہاں ہونے والے بم دھماکوں ، ڈرون حملوں ، ٹارگٹ کلنگ اور لوڈ شیڈنگ ہی کی منظر کشی کیوں کرتا ہے؟ درست ہے کہ یہ ہماری زندگی کے حقائق ہیں اور ان سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں، لیکن کیا ہم اس ڈرائونے سپنے سے جاگ کر کچھ اور معاملات کی طرف نہیں دیکھ سکتے؟ اس سے پہلے کہ مجھ پر ضرورت سے زیادہ خوش فہم ہونے کا الزام عائد کیا جائے ، میں2013ء کی ’’ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ ‘‘کا حوالہ دیتی ہوں۔ جس کے مطابق پاکستان میں 2007ء/2006ء میں کیے جانے والے سروے کے مطابق غربت کی شرح 53.4 فیصد تھی۔ تاہم آج پاکستان میں یہ شرح بیس درجے اُوپر آرہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انتہائی غریب افراد، جو زندگی کی بنیادی سہولیات خوراک، تعلیم اور صحت سے محروم ہیں ، کی تعداد میں نمایاں کمی ہورہی ہے۔ ایک اور بات،سائنسی بنیادوں پر کیے جانے والے یہ اعداد و شمار برپاہونے والی تبدیلی کو بھانپنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اگر ان اعدادو شمار پر نظر ڈالی جائے تو اُوباما کے سیاسی حریف مٹ رومنی کے مطابق سینتالیس فیصد امریکی غربت زدہ زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن اگر آپ امریکی معاشرے میں رہتے ہوں تو آپ کو اس غربت کی جھلک نہیںملے گی۔ یہی صورت ِ حال پاکستان میںبھی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیںہے کہ یہ شماریاتی تجزیے ناقابل ِ اعتبار ہوتے ہیں، تاہم یہ تبدیلی کے پیمانوںکو نہیں بھانپ سکتے۔ اس وقت پاکستان میں امیر اور غریب کا فرق نہیں بڑھنا چاہیے‘ جیسا کہ امریکہ میں بڑھ چکا ہے۔ انتخابات کے موقع پر عمران خان نے نعرہ لگایا تھا ’’تبدیلی کے لیے ووٹ دیں‘‘۔ اُن کے مطابق تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان بدعنوانی سے پاک ہو۔ سترہ سال تک سیاست میں خاموش کردار بنے رہنے کے بعد (انتخابی نتائج سے قطع ِ نظر) آج عمران نے تبدیلی کے نعرے کو زبان ِ زدِ عام کر دیا ہے۔ پاکستانی سیاسی افق پر بہت سے بدعنوان رہنمااُبھر کر سامنے آتے ہیں، تاہم وہ لوٹ مارکرنے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں، یا پھر کچھ عرصہ غائب رہنے کے بعد مزید لوٹنے کے لیے لوٹ آتے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں صرف پاکستان کے سیاست دان ہی الزامات کی زد میں نہیں‘ دیگر اداروں کے اعلیٰ عہدیدارن میں سے بھی اکثر کا دامن صاف نہیںہے۔ جب تک ریاست ایسے معاملات کی روک تھام نہیں کرتی، جہاں عہدے سے فائدہ اٹھا کر مفاد حاصل کیا جائے، بدعنوانی کی روک تھام نہیںہو سکتی۔ کچھ دن پہلے راولپنڈی میںایک کارسروس اسٹیشن پر گاڑی کی سروس کے لیے رکے۔جب چائے لائی گئی تو اسٹیشن کے مالک نے اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ہمارا باورچی تنویرہے اور یہ گجر خان تحصیل میں پی ٹی آئی کا سینئر نائب صدر بھی ہے۔‘‘جب چائے کے برتن لگا دیے گئے تو اسٹیشن کے مالک نے اُسے بیٹھنے کا کہا۔ اُس نے ہمیں بتایا ’’میںنے عمران خان کی تحریک میں اس لیے شمولیت کا فیصلہ کیا ہے کہ عمران خان نے نوجوانوںکو امیداور تبدیلی کا پیغام دیا ہے۔میرے جیسے نوجوان بدعنوان مافیا کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ‘‘ ان باتوں کا مطلب ہے کہ تبدیلی آچکی ہے۔ یہ جذبہ اور سوچ کسی ایک آدھ انتخاب تک ہی محدود نہیںرہے گی۔یہ کالم انتخابات کے اگلے دن شائع ہو گا جب بہت سے نتائج آچکے ہوں گے، تاہم میں صرف انتخابی نتائج کو ہی تبدیلی نہیں سمجھتی ۔ اگر ایک معمولی باورچی کے جذبات یہ ہیں تو پھر سمجھ لیںکہ یہ وہ پاکستان نہیں ہے جو چند ماہ پہلے تھا۔ تنویر صرف میٹرک ہے لیکن اُس کے بیانات قومی پریس کی زینت بنے ہیں۔ اُس نے بتایا کہ وہ کام کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے، چاہے بظاہر یہ کتنا ہی حقیر کیوںنہ ہو۔ جب چین اور جاپان نے ترقی کی تھی تو وہاں بھی جوانوں میں ایسا ہی جذبہ تھا۔ اس کے علاوہ پاکستانی معاشرے میں فروغ پانے والی جمہوری قدریں بھی قابلِ تحسین ہیں۔ جب ہم سروس اسٹیشن پر بیٹھے تھے تو وہاں مختلف پارٹیوں کی ’’نمائندگی ‘‘ موجود تھی۔ تنویر پی ٹی آئی کی نمائندگی کررہا تھا جبکہ جنرل منیجر کی سیاسی وابستگی پی ایم ایل (ن) کے ساتھ تھی۔ اُس کا کہنا تھا کہ سابق وزیر ِ اعلیٰ پنجاب نے پنڈی کے لوگوںکے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ میں جب حال ہی میں کراچی گئی تو سابق ناظم مصطفی کمال کے دور میںکیے گئے کاموںنے مجھے حیران کر دیا۔ اُس نوجوان ناظم نے واقعی شہر کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ بہرحال جب عمران خان یہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف نے کچھ نہیںکیا تو وہ کچھ زیادتی کر جاتے ہیں ۔ بہرحال ہمارے ہاں جمہوری عمل فروغ پارہا ہے؛ چنانچہ توقع کی جانی چاہیے کہ ہمارے سیاست دان سیاسی پختگی بھی حاصل کر لیں گے۔ حالیہ دنوں اسلام آباد میںہونے والے ایک ادبی میلے میں نوجوانوں اور معمر افراد ، جو بہرحال اتنے بوڑھے نہیں تھے، نے بڑے ذوق سے مختلف موضوعات پر مقررین کو سنا۔ ضیا محی الدین، جو تقریباً اسی سال کے ہیں، نے جب کچھ اقتباسات پڑھ کر سنائے تو ہال میں مکمل خاموشی تھی جبکہ گاہے بگاہے پر جوش سامعین زبردست تالیاں بجا کر اُن کو اچھے جملوں پر داد دیتے تھے۔ اسی طرح چالیس سالہ کمیلا شمسی نے اپنے سفر کے احوال کو ایک ناول کا روپ دیا ہے۔ اس پر بہت سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے سوالات پوچھے۔ ان دو دنوںکے دوران مجھے ایسا لگا کہ جب کسی قوم کی ترجیح سیاست سے زیادہ ادب ہو جائے،سمجھ لیں اُس میں تبدیلی آچکی ہے۔ یہ سیاسی پیمانوں سے ہٹ کر بپاہونے والی تبدیلی کی وہ لہر ہے جو جاری ہے ، یہ ناگریز ہے اور یہ آج کے ہمارے معاشرے کا سب سے غالب عنصر ہے۔ دنیا میں کوئی فیصلہ بھی سطح نتائج کو دیکھ کر نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کے مضمرات اور مستقبل کے امکانات کو بھی مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں سیاست دان ، کاروباری افراد اور عام انسان ایک تبدیلی کے عمل سے گزررہے ہیں‘ حتیٰ کہ وہ بھی جو اس کا انکار کرتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved