تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-10-2019

لیموں نچوڑنے سے بنے گی نہ کوئی بات

نریندر مودی کے مزاج اور دماغ کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ دنیا لاکھ سمجھاتی رہے کہ غیر منطقی سوچ کا نتیجہ غیر منطقی ہوا کرتا ہے‘ مگر وہ کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں۔ وہ غریب کے گھر میں پیدا ہوئے‘ محنت کی اور ترقی بھی خوب کی۔ ترقی اب اور کیا ہوگی‘ وزیر اعظم تو بن چکے۔ ہاں‘ اِس بات کا دُکھ ہے کہ افلاس زدہ گھر میں پیدا ہونے کے باعث اُن کے ذہن میں جو افلاس پیدا ہوا وہ اب تک گیا نہیں اور سچ تو یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ نریندر مودی کے ذہن کا افلاس بڑھتا ہی جارہا ہے۔خود کو علاقے کا اصلی تے وڈا چودھری ثابت کرنے کیلئے بھارت زمانے بھر کی اوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش‘ نیپال‘ بھوٹان اور مالدیپ کو دبوچ کر بھارتی قیادت یہ سمجھ بیٹھی کہ اب پورا خطہ باپ کی جاگیر ہوگیا۔ ایسا کیسے ہوسکتا تھا؟ جس طرح کباب میں کبھی کبھی ہڈی آجایا کرتی ہے‘ بالکل اُسی طرح پاکستان اور سری لنکا بھی بھارتی عزائم کے کباب میں ہڈی بن کر ابھرے۔
سری لنکا سے تو بھارت کو خیر کچھ زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ مگر ہاں! پاکستان کو نظر انداز کرنا‘ اُس کیلئے وہی نتائج پیدا کرسکتا ہے ‘جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے والے کبوتر کیلئے پیدا ہوا کرتے ہیں۔ علاقے میں چودھراہٹ قائم کرنے کیلئے محض معاشی برتری کافی نہیں۔ ''نرم قوت‘‘ کے ساتھ ''سخت قوت‘‘ یعنی عسکری اعتبار سے برتری بھی لازم و ناگزیر ہے۔ اس معاملے میں مہا راج اب تک پھسڈّی ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان کو سبق سکھانے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اُنہوں نے بالا کوٹ کو نشانہ بناکر علاقائی و عالمی سطح پر اپنی دھاک بٹھانا چاہی تو پاکستان کی ذرا سی جوابی کارروائی نے اُن کی فضائیہ کے کپڑے اتار دیئے! پاکستانی کارروائی میں دو طیاروں کے مار گرائے جانے اور ونگ کمانڈر ابھینندن وردھمان کی گرفتاری نے دنیا کو بتادیا کہ عسکری بنیاد پر خطے کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کیے جانے والے بھارتی دعوے وہ تِل ہیں جن میں تیل برائے نام بھی نہیں۔ جو کچھ 27 فروری 2019ء کو ہوا‘ اُس سے کچھ مدت قبل بھارتی فضائیہ کے اُس وقت کے سربراہ بریندر سنگھ دھنووا نے دو تین تقریبات میں فضائیہ کے گرتے ہوئے معیار کا رونا رویا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ لڑاکا طیاروں کے پائلٹس‘ جنہیں ہر طرح کی صورتِ حال کیلئے الرٹ رہنا پڑتا ہے‘ اس قدر غیر ذمہ دار ہیں کہ رات گئے تک پارٹیاں اٹینڈ کرتے ہیںاور صبح کی میٹنگ کیلئے آتے ہیں تو خاصی نامعقول حد تک غنودگی اور نشے میں ہوتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیشتر پائلٹس سمارٹ فونز کے عادی ہوچکے ہیں اور پیشہ ورانہ صلاحیت بڑھانے یا برقرار رکھنے پر اُن کی توجہ خاطر خواہ حد تک نہیں اور اِس مجموعی کیفیت کا نتیجہ بھی دنیا نے کچھ دن بعد دیکھ لیا۔ صرف ایک صبح کی کارروائی میں پاکستان نے بھارتی فضائیہ کے بخیے یوں اُدھیڑے کہ اُس کے لیے بغلیں جھانکنے کے سوا آپشن نہ رہا۔ 
تب سے اب تک کوشش کی جارہی ہے کہ فضائیہ کو کسی نہ کسی طور اپ گریڈ کیا جائے۔ جدید ترین طیاروں کا حصول بھارت کی بنیادی ضرورت ہے۔ جدید ترین میزائلز سے طیاروں کو لیس کرنے کا عمل جاری ہے۔ اس کے باوجود معاملات درست نہیں ہو پارہے۔ معمول کی مشقوں کے دوران طیارے گرتے رہتے ہیں۔ بہت سے پائلٹس بھی جان سے جاچکے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے۔ جب تک انسانی وسائل کو اپ گریڈ کرنے پر توجہ مرکوز نہیں کی جائے گی‘ تب تک بات بنے گی نہیں۔ 1960ء کی دہائی کی کامیاب فلم ''الزام‘‘ کیلئے محمد رفیع نے خاصا سُریلا گیت گایا تھا جس کا مکھڑا تھا ؎ 
دیوانہ کہہ کے آج مجھے پھر پکاریے 
حاضر ہوں‘ کوئی تیرِ نظر دل پہ ماریے 
اِسی گیت کے انترے کا شعر ہے ؎ 
زلفیں سنوارنے سے بنے گی نہ کوئی بات 
اُٹھیے‘ کسی غریب کی قسمت سنواریے 
نریندر مودی اور اُن کی ٹیم کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ یہ سب لوگ زلفیں سنوارنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے ہاتھوں دو طیاروں کی تباہی اور ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری کا بدلہ تو لیا نہ جاسکا‘ تان ٹوٹی نہتے کشمیریوں پر۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق کشمیریوں پر عرصۂ حیات تنگ کرکے سمجھ رہے ہیں‘ بہت بڑا تیر مار لیا اور اس پر بھارتی وزارتِ خارجہ کا فرمانِ شاہی ہے کہ کوئی ملک کشمیر کی صورتِ حال پر تبصرے کی زحمت گوارا نہ کرے‘ یہ بھارت کا خالص اندرونی معاملہ ہے! کشمیریوں کو لیموں کی طرح نچوڑ دیا گیا ہے اور اب فرانس سے جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل رافیل طیارے خریدے گئے ہیں تو پوجا پاٹھ کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ طیارے کو تلک بھی لگایا گیا‘ اچھے شگون کیلئے لیموں بھی رکھے گئے۔ برصغیر کے ہندوؤں کی اکثریت اچھے شگون کیلئے گھر کے دروازے کی چوکھٹ پر لیموں اور ہری مرچ باندھتی ہے۔ یہ انتظام گھر کی حفاظت کیلئے ہوا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رافیل طیارے کی سلامتی یقینی بنانے کیلئے لیموں رکھے گئے اور پوجا پاٹھ کا اہتمام کیا گیا‘ جن طیاروں کو ملک کی حفاظت کرنی ہے ‘اُن کی سلامتی کیلئے یہ سب کچھ؟ رافیل طیاروں کو بچانا ہے تو لیموں رکھنے اور نچوڑنے سے کچھ نہ ہوگا‘ افرادی قوت کا معیار بلند کرنے پر توجہ دی جائے ‘یعنی پائلٹس کو انسانیت سکھائی جائے۔ محض لیموں باندھنے یا تلک لگاکر پوجا پاٹھ کرنے سے طیارے محفوظ نہیں رہیں گے۔ رافیل طیاروں کو وصول کرتے وقت کی جانے والی پوجا اور ''وِدھیوں‘‘ (رسوم) کا دنیا بھر میں تمسخر اڑایا جارہا ہے۔ تبصروں میں کہا گیا ہے کہ جو طیارے ملک کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے لائے جارہے ہیں ‘اُن کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے لیموں کا استعمال؟ تو پھر سرحدوں پر لیموں کے پودے ہی لگادیئے جائیں! ؎ 
حماقت پر حماقت ہو جو سرزد 
تمسخر کیوں نہ پھر دُنیا اُڑائے! 
نریندر مودی اور اُن کی ٹیم کو سمجھنا ہوگا کہ ملک کا دفاع محض پوجا پاٹھ اور چند رسوم کے ادا کیے جانے سے ممکن نہیں۔ اِس کے لیے بندے تیار کرنا پڑتے ہیں۔ رات دیر گئے تک پارٹیوں میں بدمست رہنے والوں سے ملک کا تحفظ یقینی بنانے کی توقع رکھنا سادہ لوحی سے کہیں بڑھ کر محض جہالت ہے! اس حوالے سے ائیر مارشل (ر) بریندر سنگھ دھنووا کی گواہی کافی سمجھی جانی چاہیے۔ حقیقی معرکہ آرائی میں پاکستان کے ہاتھوں ذلت سے دوچار ہونے پر مودی سرکار نے جس بھونڈے انداز سے سارا غصہ نہتے کشمیریوں پر اتارا ہے اُس سے بھارت کا بھلا تو خیر کیا ہوگا‘ بھارت کے دشمنوں کی تعداد البتہ بڑھ جائے گی۔ جن کشمیریوں کو لیموں کی طرح نچوڑ دیا گیا ہے وہ کسی نہ کسی طور حالات کے بحال ہونے پر یہ سب کچھ بھول جائیں گے کیا؟ ایک طرف پاکستان سے جنگ کی تیاریاں جاری ہیں اور دوسری طرف اپنی ہی سرزمین پر دشمنوں کی تعداد بڑھانے کی کوشش!
بھارتی قیادت تضادات کی دلدل سے کب باہر نکلے گی؟ کوئی بھی نیا سبق سیکھنے سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ بھارتی قیادت 27 فروری کو پاکستانی جانبازوں کی طرف سے سکھایا جانے والا سبق یاد رکھے۔ فرق ہتھیاروں سے نہیں‘ ہتھیار چلانے والوں کی صلاحیت‘ مہارت اور جذبے سے پیدا ہوتا ہے اور‘ اگر معاملہ پاکستان کا ہو تو سب سے پہلے جذبے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved