تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     15-10-2019

مولانا کی سیاست

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پوری قوم اور میڈیا کی نظریں مولانا کے آزادی مارچ پر لگی ہوئی ہیں۔ہمیں مولانا‘ ان کے رفقا ‘اتحادیوں اور بلا شبہ ان کے حریفوں یعنی حکومت کا بولا ہوا ایک ایک لفظ یاد ہے۔مقاصد جو بھی ہوں‘ مگر ایک میل کا مارچ کئے بغیر مولانا صاحب اپنے سیاسی مقاصد حاصل کر چکے ہیں‘ یعنی وہ جاری سیاسی ڈرامے کے ہیرو بن چکے ہیں۔ سچی با ت یہ ہے کہ گزشتہ پندرہ سال کے دوران مولانا کو کبھی اتنی سیاسی اہمیت نہیں ملی تھی‘یقینا 2002ء کے بعدسے تو بالکل ہی نہیں ‘جب ان کا مذہبی سیاسی جماعتوں کااتحاد متحدہ مجلس عمل مرکز میں حکومت بنانے کے قریب پہنچ گیا تھا ‘مگر مشرف دور میں پھر مولاناصاحب صرف اپوزیشن لیڈر بننے پر ہی اکتفا کر گئے۔
اس کے باوجود حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ مولانا کی بات سنے تاکہ انہیں اسلام آباد میں مذہبی دھرنا دینے سے روکا جا سکے ۔مگر یہ جائزہ لینے سے پیشتر کہ حکومت مولانا کو مطمئن کرنے کے لئے کیا کچھ کر سکتی ہے یا کیا نہیں کر سکتی ‘ہم مولانا کے متوقع مارچ اور 2014ء میں عمران خان کے دھرنے کے بعض دلچسپ اور مشترکہ پہلوئوں سے بات شروع کرتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ 2014ء میں پی ٹی آئی کے مارچ کو بھی آزادی مارچ کا نام دیا گیا تھا‘ جو بالکل وہی نام ہے جو مولانا نے اپنے مارچ کا نام رکھنے کافیصلہ کیا ہے۔2014ء میں پی ٹی آئی نے بھی اپنا مارچ نواز شریف کی حکومت قائم ہونے کے پورے 435دن بعد شروع کیا تھا ۔پر اسرار طور پر مولانا کا مارچ بھی عمران خان کی حکومت قائم ہونے کے ٹھیک 435دن بعد ہی شروع ہو رہا ہے۔پی ٹی آئی کے آزادی مارچ کا بظاہر ہدف انتخابی دھاندلی تھا ‘جس میں چار انتخابی حلقوں میں دوبارہ گنتی اور اس کے بعد قبل از وقت الیکشن کا مطالبہ تھا۔مولا نا کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ ان کا مارچ انتخابی دھاندلی کے خلاف ہے‘ جس کے نتیجے میں بقول ان کے ایک ''سلیکٹڈ ‘‘ حکومت وجود میں آئی تھی۔
2014ء میں پی ٹی آئی نے بھی اس وقت دھرنا دینے کااعلان کیا تھا جب تک کہ حکومت یا نواز شریف مستعفی نہیں ہو جاتے۔مولانا نے بھی پی ٹی آئی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور کہتے ہیں کہ ان کی جماعت اور کارکن حکومت کے استعفیٰ دینے تک اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔2014ء میں پی ٹی آئی کا دھرنا بھی عمران خان کے کنٹینر کے ارد گرد گھومتا تھا۔مولانا کے کارکنوںکا بھی یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے بھی مولانا کے لئے ایسا ہی ایک کنٹینر تیار کر کے کسی محفوظ جگہ کھڑا کررکھا ہے‘ جس میں مولانا اسلام آباد دھرنے کے دوران قیام کریں گے۔ اگر کوئی یہ نہیں جانتا تو یہ نتیجہ اخذ کرنا بہت آسان ہوگا کہ مولانا صاحب عمران خان کی نقل کر رہے ہیں‘ مگر مجھے اس بات کا یقین نہیں ہے کہ مولانا صاحب میرے اس تجزیے سے اتفاق کریں گے۔ 
لفظوں کے ہیر پھیر سے قطع نظر مولانا کا آئندہ مارچ اور دھرنا ایک سنجیدہ ایشو ہے اور اس امر کا متقاضی ہے کہ صاحب الرائے لوگ ہی اس کا کوئی ایساحل نکالیںجس سے ہمارے جمہوری نظام کو کوئی خطرہ بھی درپیش نہ ہو۔خاص طور پر حکومت اور اس کی سینئر سیاسی قیادت اس تعطل سے بچنے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھے۔اس ضمن میں حکومت کے پاس چار بڑے آپشن ہیں:
اول : حکومت اس متوقع آزادی مارچ اور دھرنے سے بچنے کے لئے مولانا کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کر سکتی ہے ۔پہلے قدم کے طور پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کو مولانا کی تضحیک کا سلسلہ روکنا ہوگا اور ان کے یا ان کے حامیوںکے خلاف توہین آمیز ٹوئٹس بند کرنا ہوں گے۔ایک دوسرے کا تمسخر اڑانے کے بجائے اب مصالحت کو فروغ دینے کا وقت ہے ۔مولانا صاحب کو مطمئن کرنے کے لئے پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت اور خصوصاًعمران خان کو چاہئے کہ ذاتی عناد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خودان کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کریں۔خاص طور پر شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین سمیت پی ٹی آئی کی سنجیدہ سیاسی قیادت کو غیر مشروط طورپر مولانا کے پاس جاکر انہیں یہ مارچ منسوخ کرنے پر قائل کرنا چاہئے۔یقینا مولانا صاحب اس کے عوض کچھ تقاضا کریں گے۔فیصلہ سازی میں کچھ حصہ مانگیںگے۔اگر پی ٹی آئی کی قیادت مولاناکو حکومت کی برطرفی کے مطالبے سے دستبردار کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے توبھی مولانا کو کچھ نہ کچھ دینا ضرور پڑے گا۔یہ مولانا جانتے ہیں کہ وہ کیا مانگتے ہیں‘کیونکہ لمحہ موجود تک گزشتہ تین عشروں کے سیاسی کیر یئر کے دوران دیکھا گیا ہے کہ مولانا صاحب ہمیشہ کچھ نہ کچھ لے دے کر راضی ہوجاتے ہیں۔شاید وہ اب بھی ایسی ہی تجاویز کے منتظر ہوں؟اہم بات یہ ہے کہ پچھلے چند دنوں سے لگ رہا ہے کہ عمران خان نے اپنی جماعت کی قیادت کو ہدایت جاری کی ہے کہ مولانا کے ساتھ کوئی سلسلہ جنبانی شروع کیا جائے۔ہمیں امید کرنی چاہئے کہ یہ اہم ذمہ داری کم از کم مولانا کا تمسخر اڑانے والوںکو نہیں سونپی گئی ہوگی۔
دوم : حکومت مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی مولانا اور ان کے اہم کارکنوں کو گرفتار کر سکتی ہے۔ یہ ایک خوفناک آپشن ہوگا۔اس سے نہ صرف یہ کہ حالت مزید ابتری کی طرف جائیں گے بلکہ مولاناکے حامی مزید پر جوش ہو جائیںگے؛ چنانچہ سیاسی اور سکیورٹی چیلنجز کئی گنا بڑھ جائیں گے۔شاید یہ حکومت کو دستیاب بدترین آپشن ہوگا‘ جس کے نتیجے میں ایک وسیع تر تحریک جنم لے گی اس وقت ہمارا ملک جس کا متحمل نہیںہو سکتا۔
سوم : حکومت مولانا اور ان کے حامیوں کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کے لئے رکاوٹیں کھڑی کرکے سڑکیںبلاک کر سکتی ہے ۔یہ بھی ایک خطرناک آپشن ہے ۔ اس طرح نہ تو مولانا کو اسلام آباد آنے سے روکا جا سکتا ہے‘ کیونکہ اس طرح ان کے حامیوں اور قانون نافذ کرنے والے اد اروں کے درمیان محاذ آرائی بڑھے گی جو کسی اشتعال کے بغیر ہمیںخونریزی کی طرف لے جائے گی۔پولیس اور مظاہرین کے درمیان لڑائی قتل و غارت گری کی طرف لے جائے گی اور پی ٹی آئی کا نامۂ اعمال سیاہ ہو جائے گا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں پاکستان کا کوئی بھی ذی شعور انسان سڑکوںپر خون ریزی کا ایسا منظر دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتا۔
چہارم : حکومت مولانا اور ان کے حامیوںکو بلا رکاوٹ اسلام آباد آنے کی اجازت دے دیتی ہے اور امید رکھتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ خود ہی منتشر ہو جائیں گے۔اس امر کا انحصار مولانا کے پیمانۂ استقلال پر ہے کہ وہ کتنا عرصہ کنٹینر پر گزار سکتے ہیں یا کیا وہ اپنے حامیوں کو نتائج کی برآمدگی تک وہاں جمع رکھ سکتے ہیں۔بہر حال مولاناصاحب اتنے سادہ ذوق اور کفایت شعار طرز زندگی کے عادی نہیں ہیں۔گزشتہ دس برس منسٹرز انکلیو میں گزارنے والے مولاناپورے ایک سال سے وہاں سے بے دخل ہیں۔اور اپنی سابقہ شان و شوکت کے دوبارہ حصول کے لئے ہر طرح سے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔شاید ان کے پاس اس دھرنے کو طویل عرصے تک جاری رکھنے کا حوصلہ نہ ہو۔شاید وہ ایسا کر لیں۔تاہم انہیں بزور ِبازو روکنے کے مقابلے میں انہیں اسلا م آباد آنے کی اجازت دینا کہیں بہتر آپشن ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا ہی عمران خان اور ان کی حکومت کے لئے ایک قابلِ ستائش حکمت عملی ہے۔ہماری سرحدوں پر جاری مخاصمانہ حرکات کی وجہ سے اس وقت داخلی امن کاجوا کھیلنا کسی طور مناسب فیصلہ نہ ہوگا۔ یہ وقت ملک کے سیاسی استحکا م کو چیلنج کرنے کا بھی نہیں ہے۔مولانا کے ساتھ مذاکرات کرنے میںجو بھی انا یا رکاوٹ حائل ہے ‘عمران خان صاحب کو اسے دور ہٹانا چاہئے۔انہیں بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اپنی حکومت کی بقا کے لئے نہیں ‘ بلکہ اس امر کو یقینی بنانے کے لئے کہ ہماری ریاست کا جہاز پرسکون پانیوں اور روشن مستقبل کی طرف رواں دواں رہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved