آنحضورﷺ کو اللہ نے ہجرت کا حکم دیا تو آپؐ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ ان کے گھر سے باہر نکلے اور غارِثور تک پیدل جانے کا فیصلہ فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ آپؐ کے ساتھ چل پڑے‘ لیکن کبھی آپؐ کے آگے ہوجاتے اور کبھی پیچھے آجاتے۔ نبی اکرمﷺ نے اس کی وجہ پوچھی تو عرض کیا: یا رسول اللہ‘ کیا بتاؤں ‘ دل کی عجیب کیفیت ہے ‘ خیال آتا ہے کہ اگر پیچھے سے کوئی خطرہ درپیش ہو تو میں آپؐ کی ڈھال بنوں ‘پھر سوچتا ہوں کہ سامنے سے کوئی دشمن آجائے تو میں سینہ سپر ہو کر اس کا مقابلہ کروں اور آپ کی حفاظت کروں۔ آنحضورﷺ نے اپنے جاں نثار‘ یارِ غار اور افضل البشر بعد الانبیاء صدیقِ اکبرؓ کے اس جذبے کی تعریف فرمائی اور ساتھ ہی تسلی دی کہ ابوبکر کوئی فکر نہ کرو‘ اللہ ہمارا نگہبان ہے۔
اس موقع پر نبی اکرمﷺ مکہ سے باہر نکلے تو آپ کے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ صحاحِ ستہ میں بیان کردہ روایات کے مطابق‘ اس بلد حرام کی شان میں کئی بار آپ نے اپنے قلبی جذبات کا اظہار فرمایا: ''عبداللہ بن عدیؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مکہ میں حزورہ (ایک ٹیلے) پر کھڑے تھے اور مکہ سے مخاطب ہو کر فرما رہے تھے: خدا کی قسم! تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر جگہ ہے‘ اور اللہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے‘ اور اگر مجھے یہاںسے نکلنے اور ہجرت کرنے پر مجبور نہ کیا گیا ہوتا‘ تو میں ہر گز تجھے چھوڑ کے نہ جاتا۔(جامع ترمذی‘ سنن ابی داؤد)۔ ''حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تو کس قدر پاکیزہ اور دل پسند شہر ہے‘ اور تو مجھے کتنا محبوب ہے‘ اور اگر میری قوم نے مجھے یہاں سے نکالا نہ ہوتا تومیں تجھے چھوڑ کے کسی اور جگہ نہ بستا...(جامع ترمذی)
صاحب السیرۃ الحلبیہ نے ہجرت کا باب رقم کرتے ہوئے مستدرک للحاکم سے آنحضورﷺ کی ایک حدیث نقل کی ہے۔ وہ بھی آنحضورﷺ کی مکہ معظمہ سے محبت کی شاہد ہے۔ حدیث کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے: ''اے اللہ بلاشبہ تو جانتا ہے کہ دشمنوں نے مجھے اس شہر سے نکال دیا ہے ‘جو تمام بلادِ عالم سے مجھے محبوب تر ہے‘ پس اے میرے مالک! تو مجھے اس شہر میں لے چل جو تجھے تمام شہروں سے محبوب تر ہو۔‘‘(السیرۃ الحلبیۃ‘ ج۲‘ دارالکتب العلمیہ بیروت‘ بحوالہ مستدرک للحاکم‘ ص۴۰)
بعض علما و فقہا اور محدثین و مؤرخین نے ان احادیث کی روشنی میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ مکہ افضل ہے یا مدینہ؟ ہمارے نزدیک اس بحث کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں ہی افضل‘ طیب اور پاکیزہ ہیں۔ مکہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حرم قرار دیا تھا اور مدینہ کو حضور نبی اکرمﷺنے حرم ہونے کا شرف بخشا۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺنے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ معظمہ کو حرم کا درجہ دیا۔ میں مدینہ منورہ کے حرم ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں جانب کے دروں کے درمیان سارا رقبہ حرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں خونریزی نہ کی جائے‘ کسی کے خلاف ہتھیار نہ اٹھایا جائے۔ درختوں کے پتے بھی جانوروں کے چارے کے سوا بلاوجہ نہ جھاڑے جائیں (صحیح مسلم)؛ البتہ حضور ﷺ کی واضح حدیث کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مکہ میں اللہ کا گھر ہونے اور مرکز حج ہونے کی وجہ سے یہ تمام بلاد سے افضل و اعلیٰ ہے۔ مسجد الحرام میں ایک نماز کا ثواب آنحضورﷺ کی حدیث مبارکہ کے مطابق‘ ایک لاکھ نمازوں کے برابر یا اس سے افضل ہے۔ آنحضورﷺ کی مسجدمیں نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر یا اس سے افضل ہے۔ (مسند احمد)۔
اوپر جو حدیث مستدرک کے حوالے سے لکھی گئی ہے‘ اس سے مراد یہ ہے کہ مکہ تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے محرم و محبوب ہے ہی ‘ اب جس شہر کو تو میرا مسکن بنائے ‘ اے میرے رب! اسے بھی اپنا محبوب بنا لے؛ چنانچہ مدینہ اہلِ ایمان کے دلوں کی تسکین کا ذریعہ ہے‘ جہاں اللہ کے نبی نے اپنا دائمی ٹھکانہ بنایا۔ محبوب جس جگہ بھی ہو وہ اس کی بدولت محبوب ہوجاتی ہے۔ اللہ کے حبیبؐ نے جب یثرب میں مستقل سکونت اختیار فرمائی تو یہ اللہ کو بھی محبوب ہوگیا۔ آپ نے اپنے انصار صحابہؓ کے ایک سوال کے جواب میں کہ اگر آپ مکہ فتح کرلیں گے تو ہمیں چھوڑ کر اپنے آبائی شہر چلے جائیں گے؟ فرمایا: ''اے انصار تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں‘ میرا جینا اور مرنا تمھارے ساتھ ہے۔‘‘ آنحضورﷺ نے اپنے اس قول کے مطابق مدینہ ہی کو مستقل مسکن بنالیا‘ زندگی میں بھی اور وصال کے بعد بھی!
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت صحیح بخاری و مسلم میں نقل ہوئی ہے‘ جس کے مطابق آنحضورﷺنے فرمایا کہ مسجد نبوی میں میرے حجرے اور میرے منبر کے درمیان جو جگہ ہے‘ وہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے ۔ اور میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے۔ اس جگہ کو ریاض الجنۃ کہا جاتا ہے اور یہ بہت معروف ہے۔ مسجد نبوی اور روضہ رسولؐ کی زیارت کے لیے دنیا بھر سے آنے والے اہلِ ایمان کوشش کرتے ہیں کہ اس مبارک قطعہ ٔ زمین پر انہیں چند لمحات اللہ کی عبادت کے لیے مل جائیں۔ بلاشبہ یہاں دل پر ایک عجیب سکینت نازل ہوتی ہے؛ البتہ آج کل لوگ وہاں جم کر بیٹھ جاتے ہیں اور دیگر لوگوں کو جگہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں‘ یہ طرزِ عمل تعلیماتِ نبوی اور اسلامی روح کے منافی ہے۔ آنحضورﷺنے یہ بھی فرمایا: من زار قبری و جبت لہ شفاعتی ''یعنی جس نے میری قبر کی زیارت کی‘ اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی‘‘۔ (رواہ ابن خزیمہ فی صحیحہ والدار قطنی والبہیقی‘ بروایت عبداللہ بن عمرؓ)
مولانا محمد منظور نعمانیؒ معارف الحدیث میں لکھتے ہیں : ''جب تک ایک امتی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کے سوا دنیا کی ہر چیز سے (حتیٰ کہ اپنے ماں باپ‘ اہل و عیال اور خود اپنی ذات سے بھی) زیادہ نہ ہو اس وقت تک اس کو ایمان کی حقیقت و لذت حاصل نہیں ہوسکتی... اور روضۂ اقدس نبویؐ کی زیارت بلاشبہ اس محبت کے لازمی تقاضوں میں سے ہے‘ اور گویا اس کی ایک عملی صورت ہے۔ عربی شاعر نے کہا ہے:؎
امرُّ علی الدیار دیار لیلیٰ
اُقَبِّلُ ذا الجدار و ذا الجدارا
وما حب الدیار شغفن قلبی
و لکن حبُّ من سکن الدیارا
میں لیلیٰ کے وطن میں جاتا اور وہاں سے گزرتا ہوں تو ہر ذرے اور ہر درودیوار کو چومتا ہوں۔ دراصل یہ اس علاقے کی محبت نہیں‘ جو میرے دل میں موجزن ہے ‘بلکہ اس کے مکین میرے دل میں بستے ہیں۔
علاوہ ازیں زیارت کے وقت زائر کے قلبِ مومن کی جو کیفیت ہوتی ہے اور جوار نبویؐ کی برکت سے ایمانی عہد کی تجدید‘ گناہوں پر ندامت و شرمساری‘ انابت الی اللہ اور توبہ و استغفار کی جو لہریں اس وقت قلب میں اٹھتی ہیں اور محبت نبویؐ کے جو جذبات موجزن ہوتے ہیں اور محبت و ندامت کے ملے جلے جذبات آنکھوں سے جو آنسو گراتے ہیں ان میں سے ہر چیز ایسی ہے جو شفاعتِ نبویؐ ‘بلکہ مغفرتِ خداوندی کو بھی واجب کر دیتی ہے۔‘‘ (معارف الحدیث ‘ حصہ چہارم‘ ص ۴۵۸)
ہر مسجد میں آنے کے آداب یہ ہیں کہ وہاں ہر گز کوئی شور وہنگامہ نہ کیا جائے‘ کوئی جھگڑا اور جدال مسجد کی حدود میں نہ کیا جائے‘ کیونکہ یہ ممنوع بلکہ حرام ہے۔ مسجد کے اندر کسی کو ایذا پہنچانے کو اللہ کی رحمت سے دوری اور فرشتوں کی دعا سے محرومی کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے۔ مسجد کے اندر اللہ کا ذکر کرنے کا حکم ہے۔ مشکوٰۃ شریف کی ایک حدیث کے مطابق آنحضورﷺ نے حضرت ابی رزینؓ سے فرمایا: ''اے ابورزین! اہلِ ذکر کی صحبت اختیار کرو اور ان کی مجلس کے علاوہ تنہائی میں بھی اپنی استطاعت کے مطابق ‘اللہ کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھو‘ اسی پر دنیا اور آخرت کی بھلائی کا مدار ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ‘ باب الحبّ فی اللہ)۔ بندۂ مومن مسجد کے اندر اللہ کے ذکر کے لیے بیٹھتا ہے تو فرشتے اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اسی لیے مساجد وہ پاکیزہ جگہ قرار دی گئی ہیں جو روئے زمین کا اعلیٰ ترین ٹکڑا ہیں؛ چنانچہ مساجد میں فضول بات کرنا تقویٰ اور ایمانی تقاضوں کے منافی ہے۔ جب ہر مسجد کے آداب میں یہ احتیاطیں ملحوظ رکھنا ضروری ہیں تو اندازہ کیجیے کہ مسجد نبوی اور مسجد الحرام میں ان کا اہتمام کتنا لازم ہے۔ حضرت عمرؓ نے کچھ نوجوانوں کو دیکھا کہ وہ روضۂ رسولؐ کے پاس کھڑے بلند آواز میں بحث کر رہے تھے۔ آپ ان کی جانب بڑھے اور پوچھا کہ تم لوگ کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ عراق سے۔ آپؓ نے فرمایا: تمہیں اجنبی اور مسافر ہونے کی وجہ سے میں معاف کرتا ہوں‘ ورنہ اس مقام پر شور ہنگامہ کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:؎
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا!