تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     15-10-2019

تکلیف اور گہرائی !

کبھی کبھی میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں ۔ اس ویڈیو سے پہلے میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔پاکستا ن کے کسی گائوں سے تعلق رکھنے والا‘ کاغذ چننے والوں کا لڑکا۔ اسے شروع سے سکول جانے کا شوق تھا۔ اس کے خاندان میں بچّے سکول نہیں جاتے تھے‘ بلکہ شروع ہی سے انہیں کاغذ چننے پہ لگا دیا جاتا تھا۔ اس بچّے نے ضد کر کے ‘ لڑ جھگڑ کرکچھ سال سکول میں گزار ہی لیے ۔جب اسے الفاظ لکھنے اور پڑھنے کی کچھ شد بد ہو گئی تو خاندان والوں نے زبردستی اس کی تعلیم رکوا دی‘ لیکن اسے جو چاہیے تھا‘ اسے مل چکا تھا۔ اب وہ لفظ پڑھنے کے قابل تھا۔ اب اسے ہر کاغذ اورہردیوار پہ لکھے ہر لفظ کو پڑھنا تھا۔ جنون کی حد تک پڑھنے کا یہ شوق رنگ لا رہا تھا۔ کسی نہ کسی طرح وہ کوئی نہ کوئی کتاب ڈھونڈ لاتا اور اسے کیڑے کی طرح چاٹ جاتا۔ 
اس کا یہ شوق بار آور ثابت ہو رہا تھا۔ اس کا دماغ سیکھتا جا رہا تھا۔وہ ‘چونکہ انتہائی شوق سے پڑھ رہا تھا ‘زیادہ ذہین بھی تھا‘ اس لیے وہ باقاعدہ سکول میں پڑھنے والوں سے بھی کہیں آگے نکلتا جا رہا تھا۔ کاغذ چننے اور چھوٹی چھوٹی ملازمتوں سے وہ کچھ نہ کچھ کما لیتا تھا ۔ اب وہ بڑا ہوتا جا رہا تھا اور کسی حد تک اپنی مرضی کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔ اس نے پرائیویٹ امتحان دینا شروع کر دئیے۔ 
آخر وہ دن آیا‘ جب اس نے میٹرک پاس کر لیا۔ اس کے خاندان والے حیرت زدہ تھے‘ لیکن اس کی بے چینی میں اضافہ ہو چکا تھا ۔ اسے اپنا راستہ نظر آنے لگا تھا ۔ اس نے کئی امتحان پاس کیے۔اسے کسی نے امریکن سکالرشپ کے ایک امتحان کے بارے میں بتایا۔پھر وہ دن آیا‘ جب اس نے یہ امتحان پاس کر لیا۔ وہ منتخب ہو گیا۔ اسے امریکہ کا ویزا مل گیا ۔آنے جانے کے ٹکٹ سمیت سارے اخراجات امریکن حکومت کو برداشت کرنا تھے ۔ 
علاقے میں شور مچ گیا ۔ کاغذ چننے والوں کا لڑکا اامریکہ جا رہا تھا ۔انتہائی محنت اور مشق کی وجہ سے وہ روانی سے انگریزی بولنے کے قابل تھا ۔ خاندان میں اس کی دھاک بیٹھ چکی تھی ۔پھر وہ امریکہ چلا گیا ...! 
امریکہ میں اس کے ساتھ پڑھنے والے ایک دوست نے اس کی ویڈیو بنائی۔ اس ویڈیو میں وہ اپنے تھکا دینے والے سفر کے بارے میں بتاتا ہے ۔ وہ یہ کہتاہے کہ کاغذ چنتے ہوئے ‘ جب میں اس کے اوپر لکھے الفاظ پڑھنے کی کوشش کرتا تھا‘ تو میرے خاندان والے مجھے پاگل سمجھتے تھے ۔ اس پوری ویڈیو میں وہ روتا چلا جاتاہے ‘ آنسوئوں میں بہتا چلا جاتا ہے ۔آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔ 
میرا آپ سے سوال ہے : آپ کے خیال میں اس لڑکے کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ کیا تھا؟ سبھی لوگ کہیں گے کہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ اس غریب‘ کاغذ چننے والے خاندان میں پیدا ہونا تھا۔ یہ جواب بالکل غلط ہے ۔اس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے آنسو تھے ۔اس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ اپنی ذات کے ساتھ ہمدردی تھی ‘جس کی وجہ سے اس کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ جب تک انسان خود کو جذبات کے سپرد کیے رکھتاہے ‘ اس کا آگے کا سفر رک جاتاہے ۔ انسان خودترحمی کا عادی ہو جاتاہے ۔نفس کو اپنے ساتھ ‘چونکہ شدید محبت ہوتی ہے ‘ اس لیے اپنے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے اسے لذت محسوس ہوتی ہے ۔ انسان اس لذت کا عادی ہو جاتاہے ۔ اس دوران اس کے دماغ میں ایسے کیمیکل خارج ہوتے ہیں ‘ جو اسے منشیات کی طرح کی لذت بخشتے ہیں ۔ مجھے نہیں پتا کہ اس لڑکے کا پھر کیا بنا۔ ہو سکتاہے ‘ اس نے خود پہ قابو پا لیا ہو‘ لیکن جولڑکا پاکستان کے ایک گائوں میں کاغذ چننے سے امریکہ پہنچ گیا تھا‘ وہ زندگی میں اس سے کہیں آگے پہنچنے کی اہلیت رکھتا تھااور ہو سکتاہے کہ کہیں نہ کہیں پہنچ بھی چکا ہو۔ 
ایک لڑکی یاد آتی ہے ۔ کسی غیر ملکی ٹی وی کا ایک پروگرام تھا ۔اس کا نام تھا؛ "Boemerang"۔ سات سال پہلے نشر ہونے والے ا س کے پروگرام میں سرجن حضرات کے ہاتھوں سرزد ہونے والی غفلتوں پر روشنی ڈالی گئی تھی ۔ ان کی وجہ سے کئی مریضوں کی زندگی میں ہمیشہ باقی رہنے والے منفی اثرات نمودار ہوئے ۔ اس لڑکی کی کمر میں ایک ٹیومر تھا ۔ سرجری کے دوران سرجن نے ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچا دیا۔ نتیجتاً وہ ساری زندگی کے لیے معذور ہو گئی ۔ جب وہ لڑکی اس پروگرام میں اپنی وہیل چیئر پہ بیٹھ کر شریک ہوئی اور جب اسے بولنے کا موقع دیا گیاتو مسلسل وہ روتی رہی ؛حتیٰ کہ کوئی خاص بات بھی نہ کر سکی ۔ ایک مثال آپ کے سامنے منیبہ مزاری کی ہے‘ جس نے معذور ہونے کے بعدزندگی میں جو کامیابیاں سمیٹیں ‘ ان کی مثال نہیں ملتی۔ 
سٹیفن ہاکنگ کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔ ٹی وی شو میں مسلسل رونے والی لڑکی بول سکتی تھی ۔ اس کے بازو کام کر رہے تھے ۔ وہ کھا پی سکتی تھی ۔ جب کہ اس دور کا سب سے بڑا طبیعیات دان اور فلکیات دان سٹیفن ہاکنگ اپنی انگلی بھی ہلا نہیں سکتا تھا۔ اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا تھا ۔ دنیا سے اس کی تمام تر بات چیت اس کے گال پہ لگے سنسر کی مرہونِ منت تھی ۔ آخری وقت میں اس کے گال کے مسلز بھی پھڑپھڑانا چھوڑ رہے تھے ۔ آپ سٹیفن ہاکنگ کا ہر انٹرویو اٹھا کر دیکھ لیں۔ کبھی وہ آپ کو کہیں بھی روتا ہوا یا جذباتی نظر نہیں آئے گا ؛ حالانکہ جسمانی طور پرجس طرح کی اور جتنی طویل معذوری سٹیفن ہاکنگ نے گزاری ‘ وہ لڑکی تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی ۔ 
آپ سٹیفن ہاکنگ کی زندگی پر غور کریں ۔ وہ ایک ایسا شخص تھا‘ جو کہ سائنسی طور پر دنیا میں سب سے زیادہ با وسائل ہونے کے باوجود جسمانی طور پر مکمل طور پر معذور تھا۔انسان کی یہ سائنسی ترقی اس کے علاج میں ذرّہ برابر بھی معاون ثابت نہیں ہوتی ۔ وہی مکمل طور پر معذور شخص دنیا کا سب سے مشہور شخص بن جاتا ہے ۔ اگر وہ مکمل طور پر معذور نہ ہوتا تو وہ اس مقام تک نہ پہنچ سکتا۔ وہ خود کہتاہے کہ اس کی معذوری نے اسے زیادہ سوچنے کے مواقع فراہم کیے ۔ وہ دنیا کا سب سے کامیاب انسان بن جاتاہے ۔ ایسا لگتاہے کہ یہ شہرت اور کامیابی اس کی معذوری کی compensationتھی ۔ جہاں تک خود تک رسائی کا تعلق ہے ‘ خدا کوئی گری پڑی شے نہیں ‘جو دوسری کامیابیوں کے ساتھ بونس میں کسی کو مل جائے‘ بل کہ اس کے لیے سائنسی طرزِ فکر کے ساتھ سنجیدگی سے غور ضروری ہوتاہے ۔ 
خیر ‘ابرہام لنکن سمیت دنیا میں آپ کو جتنے بھی نامور لوگ ملیں گے‘ سبھی کی ابتدائی زندگیاں انتہائی دردناک ہیں‘ لیکن ان لوگوں نے کبھی اپنی تکلیفوں کا ماتم نہیں کیا۔ آپ کو زندگی میں کوئی ایسی تکلیف درپیش ہے ‘ جو دوسرے لوگوں کو نہیں ہے تو یہ اتفاقیہ تکلیف نہیں ہے۔ یہ خصوصی طور پر آپ کیلئے خدا نے ڈیزائن کی ہے ۔اس تکلیف میں عظمت تک پہنچنے کے کچھ راز پوشیدہ ہیں ۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اس تکلیف میں چھپی ہوئی لافانی عظمت تک پہنچتے ہیں یا انسانو ں کی ایک بڑی اکثریت کی طرح خودترحمی کا شکا ر ہو کر مستقل طور پر خود کو آنسوئوں کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ دماغ میں گہرائی پیدا کرنے کیلئے تکلیف لازم و ملزوم ہے ۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved