اکیسویں صدی کا کٹھن سفر شروع ہو گیا ہے۔ جوں جوں یہ سفر آگے بڑھے گا راستہ مزید دشوار گزار ہوتا جائے گا۔ 21ویں صدی ایک بے رحم مقابلے کی صدی ہے جہاں صرف غیر معمولی صلاحیتوں والے لوگ کامیاب ہوں گے۔ 21ویں صدی کی شروع کی دو دہائیوں سے ہی ہمیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ تبدیلی کی رفتار کتنی تیز ہو گئی ہے۔ وہی تبدیلی جو ماضی میں سالوں میں آتی تھی اب مہینوں اور دنوں میں آ رہی ہے۔ انفارمیشن کا ایک سیلاب ہے‘ جو ہماری زندگیوں میں ہل چل پیدا کر رہا ہے۔ علم کی تخلیق کو مہمیز لگ گئی ہے۔ ان سب تبدیلیوں کے اثرات براہ راست ہمارے بچوں پر پڑ رہے ہیں۔
اس صورت حال میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سکول بچوں کو 21ویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے سکول تعلیم کی وہ مضبوط بنیاد فراہم کر رہے ہیں‘ جس پر اعلیٰ تعلیم کی شاندار عمارت کی تعمیر ہو سکے؟ آئیے ہم پاکستان کے منظر نامے پر ایک نگاہ ڈالیں۔ آغاز میں ہی ہمیں اپنی خوش قسمتی کا ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان میں آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ خوش بختی ہر ملک کے حصے میں نہیں آئی۔ آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگر ہم ان نوجوانوں کو بہتر تعلیم دے سکے تو وہ قوم کی ترقی میں ایک ہراول دستے کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ہم نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو معیاری تعلیم اور مہارتیں نہ دے سکے تو یہی نوجوان ہمارے معاشرے اور معیشت پر ایک بوجھ ہوں گے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جنہوں نے سکول کی شکل تک نہیں دیکھی جبکہ جو بچے سکول تک پہنچ جاتے ہیں ان میں سے بھی 35 فیصد بچے پانچویںجماعت تک پہنچتے پہنچتے سکول سے ڈراپ آئوٹ ہو جاتے ہیں۔
تعلیم میں بنیادی معیار کسی بھی ملک میں شرح تعلیم ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں پاکستان کس درجے پر مقیم ہے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک میں خواندگی کی شرح 2018ء میں کچھ اس طرح سے تھی: بنگلہ دیش (72.8 فیصد)‘ انڈیا (71.2 فیصد)‘ بھوٹان (64.9 فیصد) نیپال (63.9 فیصد)‘ پاکستان (57.9 فیصد) اور افغانستان (38.2 فیصد)۔ 2018ء کے یہ اعداد و شمار اس لحاظ سے چشم کُشا ہیں کہ پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کے ممالک میں تقریباً آخر میں ہے جبکہ بھوٹان‘ بنگلہ دیش‘ نیپال‘ مالدیپ‘ سری لنکا اور انڈیا ہم سے کہیں آگے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہمارے بچوں کی ایک کثیر تعداد تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے۔ ان میں سے بہت سے بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہو جاتے ہیں اور عمر کی ابتدا ہی میں مشقت کی چکی میں پِسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کچھ بچے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں اور کچھ شدت پسند گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ یوں آبادی کا ایک ممکنہ فعال حصہ ملکی نشوونما میں مثبت کردار ادا نہیں کر سکتا۔
اب ہم ان بچوں کا ذکر کرتے ہیں جو سکولوں کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضری معمول کی بات ہے اور اگر اساتذہ موجود بھی ہوں تو یہ سوال اہم ہے کہ کیا ہم بچوں کو 21 ویںصدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ 21 ویںصدی کے چیلنجز کیا ہیں۔ میرے خیال میں اکیسویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج تبدیلی کی تیز تر رفتار ہے‘ جس کے نتیجے میں علم کی تخلیق کا عمل بھی نا قابل یقین حد تک تیز ہو گیا ہے۔
اکیسویں صدی ہر لمحہ تبدیل ہوتے منظروں کی صدی ہے‘ جس کی تفہیم کے لیے طالب علموں کو تبدیلی کے عمل پر گہری نظر رکھنا ہو گی۔ اب ہم بیشتر پاکستانی سکولوں میں ہونے والے تعلیمی عمل پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے نظام تعلیم میں تعلیم کا مطلب علم، مہارتوں، اور رویوں کا ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقلی ہے۔ اس طرزِ تدریس کے پیچھے تین مفروضے کام کر رہے ہیں۔ پہلا مفروضہ یہ ہے کہ علم جامد ہے۔ دوسر ا‘ استاد حصول علم کا واحد ذریعہ ہے اور تیسرا‘ طالب علموں کے ذہن ایک خالی تختی کی مانند ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تینوں مفروضے غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود بیشتر پاکستانی سکولوں میں تدریس کا مطلب علم کی منتقلی (Transmission) ہے۔ 21 ویں صدی تبدیلی کی صدی ہے‘ جہاں تعلیم کا مطلب علم کی منتقلی (Transmission) نہیں بلکہ فرد اور معاشرے کی تبدیلی (Transformation) ہے۔
اب ہم 21 ویں صدی میں درکار ان مہارتوں (Skills) کا ذکر کرتے ہیں جن کے بغیر ہمارے طالب علم مشکل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ تبدیلی اتنی تیزی سے واقع ہو رہی ہے کہ ہمارے لیے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ آج سے تیس سال بعد ہمیں کون سی مہارتیں (Skills) درکار ہوں گی۔ بہت سے موجودہ روزگار آنے والے وقتوں میں باقی نہیں رہیں گے۔ اسی طرح آنے والے وقتوں میں بہت سی ایسی نوکریاں دستیاب ہوں گی‘ جن کا آج تصور بھی ممکن نہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم نے ایسی مہارتوں کی ایک فہرست جاری کی ہے جو 21ویں صدی میں درکار ہوں گی۔ معروف فلاسفر Yuval Noah Harari نے اپنی کتاب 21 Lessons for 21st Century میں ان مہارتوں کا ذکر کیا ہے جو 21 ویں صدی میں کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔ ان مہارتوں میں سر فہرست مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس حوالے سے اپنے بچوں کو تیار کر رہے ہیں؟ بد قسمتی سے اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہمارے اکثر سکولوں میں بنیادی سہولتیں میسر نہیں چہ جائیکہ کمپیوٹر کی تعلیم کی فراہمی۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم مہارت کریٹیکل تھنکنگ (Critical Thinking) ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے بیشتر سکولوں میں پورا زور تقلید (Conformity) پر دیا جاتا ہے اور بچوں کی آزاد سوچ پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں۔ کلاس روم میں سوالات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ یوں ابتدا ہی سے بچے کو استاد کی کہی ہوئی بات سے اختلاف کی اجازت نہیں دی جاتی۔
خوف کی بنیاد پرکھڑی اعلیٰ تعلیم کی عمارت میں بھی افکارِ نو کے لیے کوئی کھڑکیاں نہیں ہوتیں۔ 21 ویں صدی میں درکار ایک اور اہم مہارت Creativity ہے‘ جس کا جوہر تخیل (Imagination) ہے‘ جس کے پَر شروع سے ہی کاٹ دیے جاتے ہیں اور بچوں کو صرف درسی کتب کے ان حصوں تک محدود کر دیا جاتا ہے‘ جن کا براہِ راست تعلق امتحان سے ہوتا ہے۔ 21 ویں صدی میں کامیابی کے لیے دو اور اہم مہارتیں Adaptability اور Collaboration ہے۔ ہمارے بیشتر سکولوں میں امتحان کے سخت مقابلے میں پورا زور انفرادی کارکردگی پر دیا جاتا ہے۔ بہت کم سکولوں میں گروپ ورک کرایا جاتا ہے۔ یوں طلبا ان اہم مہارتوں سے محروم رہتے ہیں جو ٹیم ورک کے لیے ضروری ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر 21 ویںصدی میں درکار مہارتوں کے حوالے سے ایک روڈ میپ دیا جائے اور اس پر عمل درآمد کے لیے ایک جامع ایکشن پلان وضع کیا جائے بصورت دیگر 21 ویں صدی میں ہمارے بچے اس نئی صدی کے تعلیمی چیلنجز کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ اکیسویں صدی علمی معیشت کی صدی ہے‘ جہاں وہی ممالک مقابلے کی دوڑ میں آگے ہوں گے جن کے شہری جدید علم و ہنر سے لیس ہوں گے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب تعلیم ہماری اولین ترجیح ہو۔ ہمارے تعلیمی نظام کا سب سے بڑا خواب اڑھائی کروڑ بچوں کو سکولوں تک رسائی دینا ہے۔ دوسرا بڑا خواب امیروں اور غریبوں کے سکولوں میں معیار کے فرق کو کم کرنا ہے۔ اور تیسرا بڑا خواب بچوں کو اکیسویں صدی کے چیلنجز کے لیے تیار کرنا ہے۔ ہمارا روشن مستقبل انہی خوابوں کی تعبیر سے وابستہ ہے۔