عربی کہاوت ہے ، ''اکثر باتیں کہنے والے کو کہتی ہیں ، ہمیں مت کہو‘‘۔ مطلب یہ کہ جو بات غیر ضروری طور پر کی جائے وہ اپنے گلے آجاتی ہے۔ اس کہاوت سے جڑی حکایت ہے کہ کوئی بادشاہ ایک ٹیلے پر اپنے غلام اور وزیر کے ساتھ کھڑا تھا۔ غلام مسلسل ٹیلے کی ڈھلوان کو دیکھتا جارہا تھا۔ بادشاہ نے اس کی محویت دیکھی تو پوچھا ، کیا دیکھتا ہے۔ غلام نے فوراً بات بنائی اور کہا، ''بادشاہ سلامت میں سوچ رہا ہوں کہ اس ڈھلوان پر اگر کسی کو ذبح کیا جائے تو اس کا خون کہاں تک جائے گا‘‘۔ بادشاہ سلامت کو یہ نکتہ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے فوری طورپر جلّاد کو حکم دیا کہ نکتہ سنج غلام کو اسی ڈھلوان پر ذبح کرکے دیکھے کہ اس کا خون کہاں تک بہتا ہے۔ ظاہر ہے جلّاد نے آقا کا حکم بجا لانا تھا؛ البتہ اس نے غلام کواس کی گردن کاٹنے سے پہلے اتنا ضرور سمجھا دیا کہ بہت سی باتیں کہنے کی نہیں ہوتیں۔ دنیا کی بے شمار کہاوتوں اور حکایتوں کی طرح اس کہانی کا سبق بھی صدیوں سے نظر انداز ہوتا آیا ہے۔ البتہ ایسے تاریخی مواقع کم آتے ہیں جب کوئی بڑا آدمی اس طرح کے آزمودہ نسخے پر عمل نہ کرے اور اس کے نتائج کا سامنا کرتا نظر آئے ۔ سو ہماری خوش قسمتی ہے کہ تاریخ کے اس عہد میں زندہ ہیں جہاں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان جیسی تاریخی شخصیت نے بے محابا گفتگو فرمانے کی جو رسم ڈالی آج خود اس کی زد میں ہیں۔ وہ تمام باتیں جو انہوں نے دوہزار چودہ کے دھرنے کے دوران کنٹینر پر چڑھ کر کیں، آج ان کے گلے کو آرہی ہیں۔ وہ تمام فرمودات جو انہوں نے دوہزار سولہ میں اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی کوششوں کے دوران جاری کیے، ان کے پاؤں کی بیڑی بنتے جارہے ہیں۔جس طوفان میں وہ اپنی پیشرو حکومت کو غر ق کرنا چاہتے تھے، بالکل اسی طرح کے سیلاب کی رہنمائی کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن انہیں ڈبونا چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کو زیر کرنے کے لیے بالکل وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو انہوں نے نواز شریف کو حکومت سے نکالنے کے لیے دو ہزار چودہ میں اختیار کیا تھا۔ عمران خان صاحب نے دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے نتیجے میں نواز شریف حکومت کے ٹھیک چار سو پینتیس دن بعد سڑکوں پر آ کر ان کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ مولانا نے بھی عمران خان کی حکومت کے خلاف دھرنے کی تاریخ کا اعلان یوں کیا کہ دھرنا ٹھیک چارسو پینتیس دن بعد پڑے۔ خان صاحب نے بھی دھرنے کے لیے خصوصی کنٹینر بنوایا ، مولانا کے لیے بھی ایک کنٹینر تیار ہوا ہے جو اس وقت تک کسی محفوظ مقام پر کھڑا ہے۔ خان صاحب کے نزدیک دو ہزار تیرہ کا الیکشن دھاندلی میں لتھڑا ہوا تھا، مولانا کے خیال میں دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں تاریخی دھاندلی ہوئی۔ خان صاحب لاہور سے نکلتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے، مولانا وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کو اپنا ہدف قرار دیے ہوئے ہیں۔ آں جناب اسلام آباد میں آئے اور ایک سو چھبیس دن تک جمے رہے۔ ایں جناب کا ارشاد بھی وہی ہے کہ آئیں گے تو جم کر بیٹھیں گے۔ وہ اپنے دھرنے کو سو فیصد دستوری حدود میں ہونے کی خلعت پہناتے تھے یہ بھی اپنے دھرنے کو آئین میں دیے گئے جمہوری حق سے تعبیر کرتے ہیں۔ہمیں تو یہ بھی یاد ہے کہ جس طرح نواز شریف نے بطور وزیر اعظم قوم سے خطاب کیا تھا بالکل اسی طرح عمران خان نے بھی قوم سے خطاب کا ڈرامہ کیا تھا۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں جس طرح زعمائے ریاست گارڈ آف آنر لیا کرتے ہیں، مولانا فضل الرحمن بھی اپنے کارکنوں کو سلامی کے چبوترے پر کھڑے چپ راست کرتے دیکھ رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی دونوں دھرنوں کے درمیان یہ مماثلت بیان کرے تو عمران خان غصے میں آجاتے ہیں اور مولانا ہنس پڑتے ہیں۔ مولانا کی ہنسی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کو بیانیے کے میدان میں مات دے دی ہے۔ ان پر ساری دنیا اعتراض کرتی پھرے مگر تحریک انصاف نہیں کر سکتی۔ دلیل کے فقدان سے پیدا ہونے والی بے بسی ہی ہے کہ اب تحریک انصاف کے پاس اپنے مؤقف کی بالا دستی ثابت کرنے کے لیے سوائے حکومتی طاقت کے کچھ نہیں رہا۔
حکومتی طاقت کے بارے میں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی تحریک انصاف اسے مؤثر انداز میں استعمال کر پائے گی؟ وزیروں کے ہجوم کو چھوڑ کر ایسا کون ہے جو یقین سے اس بارے میں کچھ کہہ پائے۔ میں نے کئی سیاسی تحریکوں میں دیکھا ہے کہ تحریک سے پہلے پولیس اور دیگر ادارے حکومت کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دے رہے ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی عوامی دباؤ پڑتا ہے یہ سب ہوا ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دو ہزار نو میں بھی دیکھا کہ جب نواز شریف لاہور سے اسلام آباد کی طرف عدلیہ بحال کرانے کے لیے نکلے تھے تو اس وقت گورنر سلمان تاثیر مرحوم کے سخت ترین احکامات کے باوجود پولیس نے مظاہرین کے مقابلے میں پسپائی اختیار کرلی تھی۔ خود عمران خان کو تجربہ ہے کہ ان کے دھرنوں میں بھی پولیس اور دیگر ادارے ہی تھے جو طاقت کے استعمال سے احکامات کے باوجود گریز کر رہے تھے۔ لہٰذا یہ تو امکان سے ہی باہر ہے کہ حکومت مولانا فضل الرحمن کو اپنی مرضی کے دن اور مقام پر احتجاج سے روک پائے۔ اسے ہمارے نظام کی خوبی کہہ لیجیے کہ حکومت اپنے خلاف کوئی تحریک تشدد سے کچلنے کی سوچے بھی تو کچھ کر نہیں پاتی‘ لہٰذا مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو سیاسی ذرائع سے تو روکا جا سکتا ہے، انتظامی طور پر ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
سیاسی طور پر اپنے خلاف تحریک روکنے کے لیے عمران خان صاحب کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ گزشتہ چودہ ماہ میں ان کی حکومتی کارکردگی اتنی ناقص رہی ہے کہ وہ عوام کے سامنے سوائے ایک لنگر خانے اور چند خالی پڑی پناہ گاہوں کے کچھ بھی پیش نہیں کر سکتے۔ بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہر شخص کی آمدن عملاً آدھی ہو چکی ہے۔ بند ہوتی ہوئی صنعتوں کی وجہ سے بے روزگاروں کی ایک فوج ہے جس کے ہاتھ حکومت کے گریبان تک پہنچنے کو بے تاب ہیں۔ حکومتی ڈھانچے میں اصلاحات تو دور کی بات ہے، تحریک انصاف ہر طرح کی قوت سے لیس ہونے کے باوجود اس سے کوئی ایک کام بھی نہیں لے سکی۔ نالائق ترین لوگوں کو وزیر وں کی صورت ارد گرد جمع کرکے عمران خان نے اپنے دوستوں کو بھی مایوس کردیا ہے۔ ان کی اپنی جماعت کے اراکین نااہل لوگوں کی سرپرستی پر خفا ہوتے جارہے ہیں،حالت یہ ہے کہ دوہزار اٹھارہ کے انتخابات کے دوران جو کاروباری لوگ تحریک انصاف کی حکومت کو ''بزنس فرینڈلی‘‘ قرار دے رہے تھے آج در بدر اس کے نکمّے پن کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔ چودہ ماہ کے ناقابل یقین پھوہڑ پن کا خاتمہ بلا شبہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے تو نہیں ہو سکتا لیکن اب بھی اتنا ہوسکتا ہے کہ عمران خان اپنی حکومت کو ازسرنو تشکیل دیں۔ حالات کا جائزہ لے کر اپنی ناکامیوں کے اسباب کا تعین کریں۔خود ساختہ عظمت کے خول سے باہر نکلیں۔ دوسرے ملکوں کے اختلافات میں الجھنے کی بجائے اپنے ملک کی طرف توجہ کریں۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور رضا باقر جیسے ماہرین معاشیات سے معذرت کریں اور وعدے کے مطابق ملک میں اصلاحات کا آغاز کریں۔ یہ سارے کام آئندہ ایک ہفتے میں ہوتے ہوئے دکھنے لگیں تو ان کے دوست دوبارہ ان سے آن ملیں گے اور ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں گے۔ اگر وہ اب بھی یہ نہیں کرپاتے تو پھر ان کے چاہنے والے ایک طرف کھڑے انہیں ہارتا ہوا دیکھتے رہیں گے۔ عمران خان اب بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں، بشرطیکہ نالائقوں کے نرغے سے نکل آئیں، وہ ایسا نہ کرپائے تو پھر انہیں جانا ہی پڑے گا۔ وہ کمزور ہوچکے ہیں، مولانا کا وار انہیں گرا نہ سکا تو کمزور تر ضرور کرڈالے گا، پھر ہوا کا ہلکا سا جھونکا بھی ان کے لیے کافی ہو جائے گا۔
نا خدا عمران خان کو ان کے ساتھیوں کی وجہ سے کشتی کا بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ اس بوجھ کو وہ خود ہی کم کرلیں تو اچھا ہے۔ ناخدا کیا فیصلہ کر بیٹھے، کوئی نہیں جانتا۔