تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     18-10-2019

دو مختلف اندازِ فکر کی کہانی

چین کے تزویراتی ماہرین اور دانشوروں کی صحبت میں بیٹھ کر ہی اس امر کا صحیح ادراک ہوتا ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ تعلقات کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے چین کے مقتدر اور فیصلہ ساز حلقوں کے ساتھ جب کبھی پاکستانی حکام، سیاست دانوں اور دانشوروں کو واسطہ پڑتا ہے تو ان کے چہرے کا رنگ اڑنے لگتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں چین کے بیانیے میں اوپر سے نیچے تک مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے جس میں نہ صرف محبت اور وفاداری کی خوشبو شامل ہوتی ہے بلکہ وہ پاکستانی قیادت کے اس بات پر ممنون بھی نظر آتے ہیں کہ 1960ء کی دہائی کے اواخر میں اس نے چین اور امریکہ میں دوستانہ مراسم قائم کرانے میں ایک پل کا کردار ادا کیا تھا۔ چینی حکام کی اکثریت دو طرفہ تعلقات کے اس پہلو کا ذکر کرنا کبھی نہیں بھولتی۔ ''آئرن برادرز‘‘ کے منفرد استعارے کے پیچھے بھی یہی جذبہ کارفرما ہے جو صرف پاکستان کے لیے مخصوص ہے۔ جب سے سی پیک کا آغاز ہوا ہے اس احساسِ ممنونیت اور اس کے اظہار میں مزید شدت آ گئی ہے۔
چینی حکام اور دانشوروں کے یہی جذبات انہیں ان کے پاکستانی ہم منصبوں سے منفرد بناتے ہیں۔ بیجنگ ہو یا کہیں اور چینی دوست ہر جگہ مضبوط اور پختہ عزم دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف جہاں تک اسلام آباد کی مقتدر راہداریوں کا تعلق ہے تو آپ کو کاروباری انداز میں بولے گئے سطحی اور گھسے پٹے جملے اور دعوے سننے کو ملیں گے۔
چین میں سوچ کا انداز ہی کچھ اور ہے، ان کا فوکس ہر وقت اس بات پر ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور سماجی استحکام لانے میں چین کس طرح مدد کر سکتا ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد کی فضا ہر وقت ان شکوک و شبہات سے بھری رہتی ہے کہ کیا چین واقعی ہماری مدد کرنا چاہتا ہے یا اس کی ساری کوشش کے پس پردہ محض اپنے مفادات کا حصول ہے؟
سرد طوفانی ہوائوں والی دنیا کی چھت‘ تبت ہو یا اس کا سب سے بڑا شمال مغربی صوبہ سنکیانگ، چلچلاتی دھوپ والا ساحلی قصبہ سانیا ہو شین ژن ہو یا کہ شنگھائی، جب ہم اپنا تعارف کراتے ہیں تو چینی افسران ہوں کہ ٹیکسی ڈائیور یا کوئی گارڈ‘ سب کی زبان سے ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے ''خوش آمدید، ہم پکے بھائی (Iron Brothers) ہیں‘‘۔
کیا پاکستانی شہری بھی چینیوں کے لئے اسی قسم کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں؟ یا یوں کہہ لیں کہ کیا ہم بھی اسی قسم کے رد عمل کے اظہار‘ اور ان کی توقعات پر پورا اترنے کی پوزیشن میں ہیں؟ ایک چھوٹی سی مثال سے اس تضاد کی عکاسی ہو جاتی ہے۔ جب سوال کیا گیا کہ کیا آپ کی کمپنی لاہور میں اپنا پروجیکٹ لگا سکتی ہے؟ تو ایک سینئر افسر نے‘ جو پاکستان میں چار سال گزار چکا تھا‘ شین ژن میں واقع اپنے دفتر میں ہمیں بتایا کہ ہم نے اپنی فزیبلٹی پر کام کیا اور اسے متعلقہ افسر کے سامنے پیش کیا مگر ہمیں اچانک پتہ چلا کہ اس کی پوسٹنگ کسی اور جگہ کر دی گئی ہے۔ اس نے اپنی کمپنی کی مصنوعات کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ پھر وہیں کام ٹھپ ہو گیا۔ اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ مثلاً پاکستانی حکام اسلام آباد میں نصب کئے گئے نان فنکشنل سکیورٹی کیمروںکا الزام بڑی آسانی سے ہم پر لگا دیتے ہیں مگر وہ کبھی یہ نہیں بتاتے کہ ان کیمروں کی معیاری شیلف لائف صرف تین سال کے قریب ہوتی ہے۔ اس کا اشارہ اسلام آباد میں نصب 1200 بیکار کیمروں میں سے 900 سے زائد کیمروں کی طرف تھا۔ اس نے بتایا کہ وقت پر انہیں تبدیل کرنے کے بجائے پاکستانی حکام نے گھٹیا کوالٹی کے الزام میں چین کا نام بیچ میں گھسیٹ لیا۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بہت سے کیسز میں قصور دونوں طرف پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 2008-9 میں مختلف وزارتوں اور اہم عوامی مقامات پر لگائے گئے سکیورٹی سکینرز چند مہینوں میں ہی خراب ہو گئے تھے۔ بیچنے والے اور خریدنے والے‘ دونوں بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کیوں خراب ہوئے۔ اس میں بھاری کمیشن کا مسئلہ تھا۔
چینی عہدیدار کا کہنا تھا ''جب تک آپ کے پاس اوپر کی سطح پر جذبہ حب الوطنی سے سرشار حکام نہیں آتے‘ جو تسلسل اور توجہ کو یقینی بنا سکیں تو کام نہیں چلے گا‘‘۔ اس کا اشارہ خاص طور پر سندھ اور پنجاب کی پولیس کی طرف تھا جہاں اعلیٰ حکام ہر کام کے لئے صوبائی چیف ایگزیکٹو کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔
یہ بات تو مسلمہ ہے کہ اختیارات کی تقسیم جامع ترقی کے لئے ایک اچھا طریقہ ہے مگر یہ اس وقت وبال جان بن جاتا ہے جب سیاستدان اور بیوروکریٹس ان اختیارات کو قومی اہمیت کے حامل منصوبوں کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
رشکئی سپیشل اکنامک زون بلا شبہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں پھنسے ہوئے ایک اہم پروجیکٹ کی عمدہ مثال ہے۔ چینیوں کو شاید یہ بات سمجھنے میں کچھ وقت لگا کیونکہ ان کے ہاں تو صدر اور ان کے رفقا جب کوئی فیصلہ کر لیں تو پہاڑوں کو بھی ہلا دیا جاتا ہے، ہمارے ہاں بیوروکریسی اور اٹھارہویں ترمیم پروجیکٹس کی تیز رفتار تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک کے بعد ایک مصیبت۔
چینی بھی رشکئی اکنامک زون پر کام کی سست رفتاری سے اتنے ہی بیزار ہیں۔ اسے کم از کم ایک سال پہلے لانچ ہو جانا چاہئے تھا مگر ہمارے برطانوی عہد کے از کار رفتہ پلاننگ کمیشن نے نااہل بیوروکریسی کے ساتھ مل کر اسے لانچ نہیں ہونے دیا۔
پاکستان کی سطح پر ہونے والے کام‘ جن میں 300 میگا واٹ کے پاور پلانٹ اور گوادر کے نئے ائیر پورٹ کے لئے اجازت ناموں، ٹیرف اور مختلف حوالوں سے متعلقہ افسر شاہی کی رسمی کارروائیاں شامل ہیں‘ بھی ایک اور دلخراش مثال ہے۔ یہ دونوں پروجیکٹ پاکستان کی نااہلی، افسر شاہی کی نکتہ آفرینی اور ذاتی مفادات کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب چین کی کمیونسٹ پارٹی نے ڈانواںڈول ترقی کے عمل کو سپیشل اکنامک زونز اور مسلسل جاری رہنے والے پانچ سالہ منصوبوں کے ذریعے کامیابی سے ہمکنار کرکے دکھایا۔ اس میں زمین کا حصول اور اس کی حدود کی نشاندہی، بنیادی ضروریات مثلاً پانی، بجلی،گیس، مواصلات اور ان زونز کو قومی شاہراہوں کے ساتھ منسلک کرنا شامل ہیں۔
چین میں خاص طور پر پچھلے عشرے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کو سخت قسم کے پرفارمنس آڈٹ کا سامنا کرنا پڑا‘ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص ذاتی تعلقات کی بنا پر کوئی اعلیٰ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو گیا تو اس کی بقا صرف اور صرف کارکردگی کے مرہون منت رہی۔
ایک اور بنیادی فرق پاکستانی حکام اور سیاستدانوں کا خفیہ اور مکارانہ طرز عمل ہے۔ وہ شاید ہی اتنے صاف گو اور فرض شناس ہوں جتنے ان کے ہم منصب چینی حکام ہوتے ہیں۔ سی پیک کی ابتدائی پلاننگ صرف اسی وقت مکمل ہو سکی جب پاکستانی افسر شاہی کے ایک سال سے زائد پریشان کن رویے کے بعد چینی حکام نے سارے معاملے کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیا۔ اور یہ پاکستان کے طریقہ کار پر ایک اور تلخ تبصرہ ہے۔
پیشہ ور افسر شاہی کی تربیت ہی یہ ہوتی ہے کہ کنٹرول کیسے حاصل کرنا ہے اور رکاوٹ کیسے ڈالنی ہے۔ ذاتی محنت اور ویژن کے بجائے اپنے سٹاف افسر کے فراہم کردہ معلومات پر پلنے والی بیوروکریسی ابھی تک اس نظام پر چھائی ہوئی ہے اور وزیر اعظم عمران خان 'سٹیٹس کو‘ کی انہی فورسز کے درمیان گھرے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب چینی بزنس مین اور حکام بھی ذاتی مفاد کے لئے معلومات روکتے ہوں گے مگر وہ اس طرح نہیںکرتے جس طرح پاکستان چینیوں کو لاعلم رکھ کر کرتے ہیں مثلاً جب پاکستان نے سعودی عرب کو گوادر میں ایک پیٹروکیمیکل پلانٹ لگانے کی پیشکش کی تو چین کو یہ جان کر دکھ ہوا کہ کسی حکومتی عہدیدار یا وزیر نے انہیں اس کا اشارہ تک نہیں دیا۔ پریشانی میں ڈوبے ایک چینی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ''اگر پاکستان نے فیصلہ کر ہی لیا تھا تو ہمیں بھی اعتماد میں لے لیا جاتا تو اچھا ہوتا۔ ہم بھلا کسی ایسے پروجیکٹ پر اعتراض کیوں کرتے جس سے سی پیک مضبوط ہوتا ہو۔ مگر اصولی بات یہ ہے کہ ہمیں بھی اس سے مطلع کیا جانا چاہئے تھا‘‘۔
اس کے باوجود چینی حکام نے اس تکلیف دہ حرکت کو باوقار انداز میں برداشت کیا اور کبھی سر عام اپنی ناراضی کا اظہار نہیں کیا بلکہ انہوں نے جاری پروجیکٹس پر کام اسی زور و شور سے جاری رکھا۔ چین کی ایک قومی کارپوریشن کے سینئر عہدیدار نے بتایا ''ہم یہاں منافع کمانے کے لئے نہیں آئے۔ ہمارے لیڈر (صدر ژی) چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ یک جہتی کی خاطر یہ منصوبے جاری رکھیں‘‘۔
یقینا یہ دو مختلف اندازِ فکر کا موازنہ ہے۔ چینی جس قدر جلد ممکن ہو اپنی کامیابی کی رپورٹ اپنے لیڈر کو دینا چاہتے ہیں جبکہ پاکستانی افسر شاہی کا وتیرہ محض کیڑے نکالنا اور بہانے بہانے سے ترقی کی راہ میں رکاوٹیںکھڑی کرنا ہے۔ یہ چینی توقعات اور ان توقعات پر پورا اترنے کی پاکستانی استعداد میں مقابلہ ہے۔
ہم لیڈرشپ کی سطح پر بھی موازنہ کر سکتے ہیں۔ جہاں تک چین کی اعلیٰ قیادت کا تعلق ہے‘ ہمیں کسی کے کاروباری مفاد کا شائبہ تک نہیں ہوا۔ مائوزے تنگ سے دینگ زیائو پنگ اور ژی جن پنگ تک سب لوگ معمولی بیک گرائونڈ سے اوپر تک پہنچے اور خاص طور پر ڈینگ زیائو پنگ کی زیر قیادت چار دہائیوں (1978-2018) میں لبرلائزیشن کے ذریعے کس طرح اپنے ملک کی تقدیر بدل ڈالی گئی۔ مائو زے تنگ اور ڈینگ زیائو پنگ دونوں نے اپنے جذبے کی سرشاری اور ایمانداری سے خود کو تاریخ میں امر کر لیا۔ نہ کوئی بزنس ایمپائر اور نہ ذاتی اکائونٹس۔
اس کے برعکس پاکستان میں آمر ہوں یا جمہوریت پسند جب بھی انہیںاقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کا موقع ملا‘ انہوں نے مال و متاع کی ہوس میں دولت کے انبار اکٹھے کرنے سے گریز نہ کیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے ایسا نظام وضع کر رکھا ہے‘ جو ذاتی امارت اور اختیار کے غلط استعمال سے نفرت سکھاتا ہے۔ یہ نظام پاکستان کی طرح کسی کو سیاسی جانشینی کا موقع بھی نہیں دیتا‘ جہاں جمہوریت شاید ہی کبھی زرداری، شریف، بھٹو، سید، سردار اور نواب خاندان سے باہر نکلی ہو۔ جب مائوزے تنگ علیل ہو گئے تو ان کی بیوہ نے ان کے نام پر حکمرانی کرنے کی کوشش کی مگر پولٹ بیورو نے اسے ایسا کرنے کا موقع نہ دیا۔
2012ء سے صدر ژی کے عہدِ صدارت میں بے لاگ اور اندھا احتساب کیا گیا‘ جس میں ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، برطرف کر دیا گیا یا جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
اس کے برعکس پاکستان میں قومی احتساب بیورو نے بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ سے 700 ملین روپے برآمد کئے تھے اور ملزم آج آزاد گھوم رہا ہے۔ چوروں کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے دعوے کئے جاتے ہیں اور ان کے مقدمات سالہا سال تک لٹکتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین پر 450 ارب روپے کی کرپشن کے الزامات لگے‘ مگر ایک روپے کی کرپشن ثابت نہ کی جا سکی۔ اسی طرح پی پی دور میں لگنے والے کار کے پاور پلانٹ نے‘ جس میں حقیقت میں ہاتھ رنگے گئے تھے‘ الٹا پا کستان کو مالیاتی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔
چین میں کوئی یہ الزام نہیں لگاتا کہ کسی خاص گروپ یا پارٹی کو احتساب کی آڑ میں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ پاکستان میں اپوزیشن کے تمام رہنمائوں کے خلاف کرپشن کے پے در پے مقدمات کے بعد احتساب کے عمل کو انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔
بلا شبہ دونوں مختلف نظام ہیں اور مختلف مائنڈ سیٹ مگر جہاں تک بے لوث، سرشار اور ویژنری قیادت کی بات ہے ابھی تک پاکستان کو چین سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved