ڈھکی چھپی بات نہیں‘ وفاق کراچی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے: مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''ڈھکی چھپی بات نہیں‘ وفاق کراچی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے‘‘ حالانکہ ایسے کام ڈھکے چھپے انداز میں کرنا چاہئیں‘ جیسا کہ ہم سارے کام ڈھکے چھپے انداز میں ہی کرتے ہیں ‘لیکن بعد میں حکومت اگر انہیں کھوج لگا کر پکڑ لیتی ہے تو یہ دوسری بات ہے اور یہ ساری کی ساری انتقامی کارروائی ہوا کرتی ہے‘ اوپر سے شرفا کیلئے جیل میں اے اور بی کلاس بھی ختم کی جا رہی ہے اور اس کے بعد تو کوئی بھی بھلا مانس جیل جانے کو تیار نہیں ہوگا اور سارے معاملات باہر ہی نمٹانے پر محبور ہو جائے گا؛ حالانکہ کسی کو مجبور کر دینا اور پھر اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا‘ کہاں کا انصاف ہے؟ حتیٰ کہ میری گرفتاری کی بھی تیاریاں ہو رہی ہیں اور ایسے ماحول میں کون کام اور عوام کی خدمت کر سکتا ہے ۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگوکر رہے تھے۔
ن لیگ میں کسی قسم کی دھڑے بندی نہیں: رانا تنویر حسین
نواز لیگ کے سینئر رہنما سابق وفاقی وزیر اور رکن قومی اسمبلی رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''ن لیگ میں کسی قسم کی دھڑے بندی نہیں‘‘ اور اگر نواز شریف کا منہ ایک طرف اور شہباز شریف کا دوسری طرف ہے تو اس لیے کہ ملک ِعزیز میں یہ آزادی موجود ہے کہ کوئی اپنا منہ جس طرف مرضی کر لے ‘جبکہ سارے کام اس صورت میں بھی ہو سکتے ہیں کہ اگر دونوں حضرات ایک دوسرے کی طرف پشت کر کے بھی کھڑے ہوں تو ایک دوسرے کی بات با آسانی سن اور سمجھ سکتے ہیں‘ جبکہ نواز شریف کو بات کی سمجھ ذرا دیر سے آتی ہے‘ کیونکہ مثل مشہور ہے کہ دیر آید درست آید اور دونوں بھائی اردومحاوروں پر نہایت خوش اسلوبی سے عمل پیرا ہیں اور وہ ہر کام خوش اسلوبی ہی سے سر انجام دیتے ہیں اور اسی خوش اسلوبی سے حکومت بھی ہر کام کا کھوج نکال لیتی ہے اور دراصل یہ خوش اسلوبی کا مقابلہ ہے ‘جو فریقین کے درمیان چل رہا ہے‘۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ایک کروڑ نوکریاں‘ پچاس لاکھ گھر‘ جھوٹ بولنے
پر حکمران قوم سے معافی مانگیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ایک کروڑ نوکریاں‘ پچاس لاکھ گھر‘ جھوٹ بولنے پر حکمران قوم سے معافی مانگیں‘‘ اگرچہ یہ سب کچھ انہوں نے 5 سال میں کرنا تھا اور ابھی ایک سال ہی مکمل ہوا ہے‘ تاہم انہیں احتیاطاً اور پیشگی ہی معافی مانگ لینی چاہئے ‘تا کہ ان معاملات سے بے فکر ہو کر دیگر مشاغل سے عہدہ برأ ہوتے رہیں ‘جیسا کہ ہم نے قوم سے اس بات پر مستقلاً ہی معافی مانگ رکھی ہے کہ ان کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے‘ حتیٰ کہ اپنے لیے بھی کچھ نہیں کر سکے‘ لیکن ہم بالکل فارغ بیٹھے ہوئے بھی نہیں اور کچھ کرنے کے بارے ہر وقت سوچتے رہتے ہیں ‘کیونکہ ہر بڑے کام سے پہلے سوچنا ضروری ہوتا ہے اور جتنا بڑا کام ہو‘ اسی حساب سے سوچنا بھی پڑتا ہے ‘جبکہ چھوٹے کام تو خود بخود ہی ہوتے رہتے ہیں ۔ آپ اگلے روز کشمیر بچائو مارچ سے خطاب کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
کل والے کالم میں ''آج کا مقطع‘‘ اس طرح چھپا : ؎
ظفرؔ ہمیشہ کی طرح پھر سے نکل گیا ہے
ابھی جو مچھلی کی طرح میرے ہاتھوں میں آ رہا تھا
اس کا دوسرا مصرعہ اس طرح ہے: ع
ابھی جو مچھلی سا میرے ہاتھوں میں آ رہا تھا
اس کے علاوہ ہمارے بھائی صاحب نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے : ؎
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد یا حقیقت
کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر رات کا شہباز
پہلے مصرعہ ''یا‘‘ کا الف گرتا ہے اور ایسی صورتِ حال میں اس سقم کو دُور کرنے کے لیے ''یا‘‘ کی بجائے ''کہ‘‘ استعمال کیا جاتا ہے اورمیر ی نظر میں صحیح مصرعہ اس طرح ہے: ع
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت
اور‘ اب آخر میں عامرؔ سہیل کی تازہ غزل:
آپ پانی خرید سکتے ہو
حُسن یعنی خرید سکتے ہو
اس کی مہماں نواز آنکھوں سے
میزبانی خرید سکتے ہو
اتنی انگڑائیاں کرو محفوظ
جتنے معنی خرید سکتے ہو
اس گل و لا کا ایک اک کردار
ہر کہانی خرید سکتے ہو
کوئی وعدہ‘ کوئی نیا وعدہ
چھیڑ خانی خرید سکتے ہو
رنگ و روغن کی دھار کہتی ہے
تم جوانی خرید سکتے ہو
اتنے خواجہ سرائوں کے بدلے
ایک رانی خرید سکتے ہو
بیچ سکتے ہو دشت کی مٹی
راجدھانی خرید سکتے ہو
کہکشائوں کی گھورتی رنگت
منہ زبانی خرید سکتے ہو
حُور ملتی نہیں زمینی تو
آسمانی خرید سکتے ہو
جسم چُنری سے دودھیا عامرؔ
خواب دھانی خرید سکتے ہو
آج کا مقطع
پلّے سے ظفرؔ باندھ کے رکھنا مری یہ بات
بے عیب رہو گے تو ہنر کچھ نہیں آنا