مسلم ممالک اور معاشروں میں فوج اور ریاست کا تعلق کیا ہے اور کیا رہا ہے؟ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے‘ لیکن ابھی تک کوئی بھی محقق حتمی لفظ نہیں لکھ سکا۔ صباح الدین زائم استنبول، ترکی میں ایک قدیم یونیورسٹی ہے، جو سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں ایک نجی وقف نے قائم کی تھی۔ اس یونیورسٹی نے بارہ سے پندرہ اکتوبر تک ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ خاکسار کو بھی اس کانفرنس میںشرکت کرنے اور تقریباً انیس ممالک سے آئے ہوئے دانشوروں سے فیضاب ہونے کا موقع ملا۔ چند مسلم اکثریتی ممالک ایسے ہیں جہاں سیاست اور ریاست کے معاملات میں فوج کا کردار کئی دہائیوں تک نمایاں رہا ہے۔ ترکی، پاکستان، مصر، الجیریا اور سوڈان سرفہرست ہیں۔ پاکستان میں سول برتری کیوں قائم نہیں کی جا سکی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب زیادہ تر سیاسی وفاداری کی بنیاد، نظریاتی میلان‘ ذاتی پسند اور ناپسند کے پیمانے پر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے‘ جس کا تعلق ہماری سلامتی، معاشرتی استحکام‘ جمہوریت کے قیام اور اس کی مضبوطی سے ہے۔ اس سوال کے جواب میں پاکستان اور پاکستان سے باہر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، مگر چونکہ زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ یہاں تک کہ سیاست اور صحافت سے تعلق رکھنے والے ہمارے بھائی بند بھی کتابیں پڑھنے کے لطف سے نا آشنا ہیں‘ اس لیے بحث مباحثے سطحی سے ہو جاتے ہیں۔ اس کانفرنس کا 12 اکتوبر کو انعقاد اتفاقیہ تھا۔ اس دن بیس سال پہلے جو کچھ پاکستان میں ہوا، اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا‘ لیکن اس کانفرنس کے حوالے سے یہ بات کرنا مقصود ہے کہ سول، ملٹری تعلقات میں توازن اور منتخب حکومت کی برتری قائم کرنا اتنا آسان نہیں‘ نہ ہی شعور اور فہم و فراست سے خالی کوئی سیاسی رہنما اس کام کو انجام دے سکتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے کچھ معروضات پیش خدمت ہیں۔ پہلی بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فوج ایک طاقتور‘ پیشہ ور اور عوام میں مقبول ریاستی ادارے کی حیثیت رکھتی ہے اور اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ جس خطے میں پاکستان واقع ہے، اور جس نوعیت کے ہمسایہ ممالک تاریخ اور جغرافیائی حرکیات کی نسبت سے ہمارے حصے میں آئے ہیں، وہ داخلی سلامتی، امن اور داخلی استحکام کے حوالے سے فوج کی حیثیت کلیدی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ آنے والے سالوں اور دہائیوں میں فوج کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گا، اہمیت کم نہیں ہو گی۔ سیاستدان اور سب سیاسی جماعتیں کچھ استثنیٰ کے ساتھ فوج کو مضبوط، منظم اور قومی دفاع کے لیے تیار دیکھنا چاہتی ہیں۔ عالمی نظام کی بنیاد ہی قومی طاقت ہے، جس میں عسکری صلاحیتوں کا حصول انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘ مگر آج کی دنیا میں یہ قوت اقتصادی ترقی کے بغیر ناممکن ہے۔ قومی طاقت میں سیاسی استحکام، معاشرتی جڑت اور ہمہ گیر قومیت کا جذبہ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آخری تجزیے میں میدان کارزار میں قوت آزمائی کی ہیئت اور حیثیت جنگوں کو روکنے، ایک موزوں علاقائی توازن قائم کرنے، مفادات کے حصول اور موثر سفارتکاری کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ کئی ممالک میں کچھ سیاسی راہنما فوج کو مضبوط کرکے اپنے سیاسی مقاصد بھی حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ بہرحال عسکری راہنماؤں کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ان کے اداراتی مفادات سے چشم پوشی نہیں ہو رہی اور دوسرے یہ کہ فوج کو ضروری وسائل کی ترسیل، ان کی ضروریات کا خیال رکھنے، جدید اسلحہ کی تیاری یا خریداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔ یہ یقین دہانی اس قیاس پر مبنی ہے کہ اس سے سول حکومت اور فوجی ادارے میں ہم آہنگی پیدا ہو گی۔ ہم نے اپنی تاریخ اور دیگر ممالک کے تجربات کی روشنی میں دیکھا ہے کہ اگر سول حکومت کی برتری قائم کرنے کے ہمہ گیر اصول اختیار نہ کئے جائیں، تو فوج کو خوش کرنے کی ذاتی کاوشیں کسی کام نہیں آتیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف پاکستان کی تاریخ میں دو ایسے راہنما رہے ہیں جو سول ملٹری تعلقات میں مثبت کردار ادا کر سکتے تھے لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ ذاتی پسند کی بنا پر سپہ سالار کے تقرر کا مقصد یہ تھا کہ بوقت ضرورت وہ ان کا دفاع کریں گے اور اگر سیاسی حالات بگڑ گئے تو وہ غیر جانبدار رہ کر فوج کو اپنی کمان میں غیر سیاسی رکھیں گے۔ دونوں نے تاریخی غلطی کی۔ بھٹو صاحب اپنی جان گنوا بیٹھے، اور میاں نواز شریف اس لیے بچ گئے کہ ان کے بیرونی دوست متحرک تھے۔ اس موضوع کی نسبت سے جو کچھ لکھا جا چکا ہے‘ اس کا خلاصہ اور مفہوم یہ ہے کہ سول حکومت کی برتری اور شخصی ترجیحات، طاقت کے حصول اور استعمال سے ہرگز ممکن نہیں ہو سکتیں۔ اپنی پسند کا سپہ سالار مقرر کرکے دونوں نے میرٹ کا خیال نہ رکھا۔ غالباً ہماری تاریخ کے حوالے سے یہ مفروضہ درست نہیں کہ اگر سپہ سالار آپ نے اپنی مرضی کا مقرر کیا تو پھر ہمیشہ کے لیے وہ صرف آپ کے اشارے کا منتظر ہو گا۔ ہر دفعہ مشاہدہ کیا گیا اور اب یقین کر لینا چاہئے کہ سپہ سالار ایک بہت بڑے اور طاقتور ادارے کا سربراہ ہوتا ہے۔ اس کی جانب سے سب فیصلے اپنے ادارے اور قومی و ریاستی مفادات کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر کئے ہوتے ہیں۔
پاکستانی فوج نے ریاست کے اندر اپنی اداراتی اور پیشہ ورانہ خود مختاری کی دھڑلے اور تواتر سے حفاظت کی ہے۔ کئی بار کوشش ہوئی کہ فوج کو بھی سیاسی گھرانوں کی تحویل میں اسی طرح لایا جائے، جیسے انہوں نے پاکستان ایئر لائنز، سٹیل مل اور دیگر اداروں میں اپنے اہل خانہ، دوست احباب اور سیاسی ہرکاروں کے بندے بٹھا رکھے ہیں۔ ترکی کی کانفرنس میں ایک پینل سوڈان پر تھا۔ سوڈان ہم سے دس سال بعد آزاد ہوا، مگر وہاں فوج نے تقریباً دس مرتبہ مداخلت کی۔ ہر دفعہ ایسے اقدام کی پشت پر کوئی سیاسی ٹولہ موجود تھا۔ میرے سوال پر کہ ایسا کیوں ہوتا رہا، جواب یہ ملا کہ وہاں فوج میں بھرتی اور ترقی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت اور بڑے سیاسی خاندان اور قبائل نے اپنے بندے فوج میں رکھے ہوئے ہیں۔
فوج کی پیشہ ورانہ خود مختاری آئین کی حدود میں انتہائی ضروری ہے، ورنہ ہم نے کئی ممالک میں دیکھا کہ فوج بھی سیاسی، قبائلی اور نظریاتی دھڑوں میں بٹ جاتی ہے۔ مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک میں ریاستوں کے زوال، تحلیل اور خانہ جنگی کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ فوج کو ایک آئینی حکومت کے تابع صرف جمہوریت کو مضبوط کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہم دیگر ممالک اور اپنی تاریخ سے جو سبق حاصل کر سکتے ہیں، وہ یہی ہے کہ اگر جمہوری روایات پختہ ہوں گی، سیاسی جماعتیں آئین اور جمہوریت کے دفاع میں یکجا رہیں گی، اور جمہوریت کی طاقت اور اس کے فوائد صرف چند سیاسی خاندانوں تک محدود نہیں ہوں گے، تو جمہوری اقدار معاشرے میں رچ بس جائیں گی۔ حکمران خاندانوں کے ارد گرد گھومتی، سیاسی جماعتیں، ماضی میں جمہوریت کا دفاع نہیں کر سکیں۔
میرے نزدیک پاکستان کی سلامتی اور ترقی کا انحصار جمہوری اور آئینی حکومت پر ہی ہے۔ ہمیں جمہوری اداروں، روایات اور اقدار کو مضبوط کرنا ہو گا، اور ایسا صرف احتساب پر مبنی جمہوریت، وسیع تر نمائندگی اور اقتدار میں عوام‘ اور معاشرے کو شامل کرنے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ موضوع پاکستان میں کافی عرصہ سے زیر بحث ہے۔ کاش کہ حکمران طبقات اور ہماری موجودہ سیاسی حکومتیں کچھ عقل کے ناخن لیں، اور اپنی مہربانیاں، اپنے چرب زباں ہرکاروں اور حامیوں تک محدود نہ رکھیں، بلکہ قومی اداروں میں تعیناتی صرف میرٹ کی بنیاد پر ہو، تو شراکت داری کا احساس بڑھنا شروع ہو جائے۔
سول حکومت کی برتری کے بارے میں آخر میں دو باتیں مختصر طور پر عرض ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی بھی صدر یا وزیر اعظم چند احکامات کا اعلان کر کے ایسا نہیں کر سکتا۔ یہ ایک ارتقائی عمل ہے، جس میں تیزی صرف جمہوری حکومتوں کی بہتری کارکردگی کی صورت میں ممکن ہے۔ نعروں اور بڑھکوں سے نہ کچھ ہوا، نہ ہو سکے گا۔ دوسرے فوج، جو ایک انتہائی کلیدی ریاستی ادارہ ہے‘ کے خلاف ''نظریاتی‘‘ بن کر محاذ کھول لینے سے تصادم کی فضا پیدا ہو سکتی ہے، جو مسلم لیگ نون کے بیانیے نے پیدا کر رکھی ہے۔ ممکن ہے کسی انقلاب کے لیے یہ زبان و لہجہ کام آ سکیں، مگر سول حکومت کی برتری کے لئے، کچھ اور قسم کی ریاضت، محنت اور بیانیے کی ضرورت ہے‘ جن میںہم آہنگی، تعاون، افہام و تفہیم اور حکومت کی کارکردگی بنیادی عوامل ہیں۔