تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     19-10-2019

سرخیاں، متن، ریکارڈ کی درستی اور تازہ غزل

حکمران ہمارے ڈنڈوں سے خوفزدہ، روکا 
گیا تو گھوڑوں پر پہنچیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکمران ہمارے ڈنڈوں سے خوفزدہ، روکا گیا تو گھوڑوں پر پہنچیں گے‘‘ جبکہ ہمارے طالب علم بھی گھوڑوں سے کم نہیں ہیں جو ہم نے بحر زخار میں بھی دوڑا دیئے تھے حالانکہ گھوڑوں کا سمندر کے پانی میں دوڑنا ایک عجیب سی بات ہے۔ ہماری ہر بات اور ہر کام ہی عجیب و غریب ہے جو پہلے تو غریب تھا لیکن اب انتہائے غربت سے عجیب بھی ہو گیا ہے جس میں چندہ اکٹھا ہونے سے کچھ تو فرق پڑا ہے‘ لیکن یہ دھرنے کے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ خود کیا کھائیں گے اور گھوڑوں کو کیا کھلائیں گے، بہرحال دھرنے کے بعد میرے وزیراعظم اور نواز شریف کے صدر مملکت بننے کا فیصلہ ہو چکا ہے جبکہ کوئی چھوٹا موٹا عہدہ پیپلز پارٹی کو بھی دے دیا جائے گا یعنی جتنا انہوں نے گڑ ڈالا ہے، اتنا ہی میٹھا بھی ہوگا جبکہ اُن کی اپنی حالت یہ ہے کہ اپنے گڑھ لاڑکانہ سے عبرت ناک شکست کھا چکے ہیں۔ آپ اگلے روز پشاور میں ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
مریم نواز کو کچھ ہوا تو ذمہ دار عمران خان ہوں گے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ ''مریم نواز کو کچھ ہوا تو ذمہ دار عمران خان ہوں گے‘‘ جبکہ ان کا وزن پہلے ہی 30کلو کم ہو گیا ہے جس کی تلافی کے لئے ہم مقدمہ دائر کرنے کا سوچ رہے تھے‘ لیکن اب اس لئے موقوف کر دیا ہے کہ عمران خان تو مولانا کے دھرنے کے بعد ویسے ہی فارغ ہونے والے ہیں ۔ ورنہ تو ان کا ارادہ یہ تھا کہ رفتہ رفتہ وزن گھٹنے سے وہ ویسے ہی غائب ہو جائیں لیکن انہیں تب بھی مایوسی ہوتی کیونکہ ان کے شوہر نامدار ان کی جگہ لینے کے لئے موجود اور بیقرار ہیں۔ اگرچہ وہ خود کئی دن سے غائب ہیں۔ یقینا وہ کہیں مریم نواز کی جگہ لینے کی ریہرسل کر رہے ہوں گے۔ اگرچہ وزارت عظمیٰ کی ریہرسل مریم بی بی نے بھی تسلی بخش حد تک کر رکھی تھی‘ لیکن نواز شریف کے اندر ہونے سے سارا مزہ ہی کرکرا ہو گیا۔ دشمنوں کو خدا ہی سمجھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
زرداری کی صحت کو خطرہ ‘ کچھ ہوا تو ذمہ دار حکمران ہوں گے: کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''زرداری کی صحت کو خطرات لاحق ہیں، اگر سابق صدر کو کچھ ہوا تو ذمہ دار حکمران ہوں گے‘‘ کیونکہ بیمار تو وہ پہلے ہی تھے لیکن اندر ہونے کے بعد ان کی وہ بیماریاں بھی عود کر آئی ہیں جن میں وہ صحت یاب ہو چکے تھے جبکہ جیل میں داخل ہوتے ہی ایک ہٹا کٹا شخص بھی لاتعداد بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہ ایک عجیب بات ہے جس کی آج تک کسی کو سمجھ نہیں آئی اور جس کا مطلب یہ ہے کہ جیل کا ماحول ہی اس قدر پراگندہ ہو چکا ہے اور اس میں مختلف بیماریوں کے جراثیم ہی اس قدر پیدا ہوئے ہیں کہ ایک صحتمند آدمی وہاں قدم رکھتے ہی مختلف بیماریوں میں گھر جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ جیل میں تسلی بخش حد تک سپرے کرایا جائے جس میں ڈینگی مار سپرے بطور خاص شامل ہو کیونکہ سابق صدر ڈینگی کے تو ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے چاہے وہ کتنے ہی سخت جان کیوں نہ ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
ہمارے بھائی صاحب نے آج اپنے کالم میں یہ مصرعہ اس طرح درج کیا ہے ؎
نہ شاخ تھی قفس تھا نہ آشیانہ تھا
مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے کیونکہ صحیح مصرعہ اس طرح ہے ؎
نہ شاخ تھی نہ قفس تھا نہ آشیانہ تھا
ایک اور دوست نے آج اپنے کالم میں قمر ریاض کا شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
سُنا تو ہے کہ دعاؤں سے لوگ ملتے ہیں
تو میں دعا کے لئے ہاتھ پھیلانے والا ہوں
مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے کیونکہ اصل مصرعہ اس طرح ہے:
تو میں دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھانے والا ہوں
موصوف کو کم از کم قمر ریاض سے معافی ضرور مانگنی چاہیے۔ نیز کالم کے آخر میں یہ بھی درج ہے کہ کالم نگار سیاسی اور ادبی ایشوز پر لکھتے ہیں!
اور، اب آخر میں غزل:
اب اور کیا بتائیے کیا کیا ہے ٹھیک ٹھاک
ہونے سے ایک تیرے یہ دُنیا ہے ٹھیک ٹھاک
تعویذِ وصل دیکھیے دیتا ہے یا نہیں
ایسے میں ہم نے پیر تو پکڑا ہے ٹھیک ٹھاک
خود ہی وہ یاد آئے تو آ جائے بار بار
ورنہ تو ہم نے اُس کو بھلایا ہے ٹھیک ٹھاک
یوں نفع تو نہیں ہے محبت میں کوئی خاص
حالانکہ دیکھیے تو یہ دھندا ہے ٹھیک ٹھاک
دیکھا ہے اس کو ٹھونک بجا کر جگہ جگہ
نکلے گا جس طرح کا بھی، لگتا ہے ٹھیک ٹھاک
ناکامیوں نے گھیر رکھا تھا ہمیں، مگر
ہم نے بھی اُن سے کام نکالا ہے ٹھیک ٹھاک
ہم پر کچھ اعتبار تو کرنا ہی چاہیے
ویسے تو اعتراض تمہارا ہے ٹھیک ٹھاک
ہم پر ہے اتفاق سبھی کا یہاں کہ یہ
کرتا غلط سلط سہی، کہتا ہے ٹھیک ٹھاک
لوگوں سے بات بات پہ شکوہ نہ کر، ظفر
خود ٹھیک ہوں تو سارا زمانہ ہے ٹھیک ٹھاک
آج کا مقطع
اس ذائقے کی تاب تو لاتا کوئی ، ظفر
کہنے کو اک جہان کے منہ میں زبان ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved