ایک دنیا ہے جو حالات کی خرابی کا رونا روتی ہے‘ بلکہ روتی رہتی ہے۔ حالات کی خرابی اصلاً اس لیے نہیں ہوتی کہ اُس کا رونا رویا جائے بلکہ قدرت کی طرف سے مقصودِ حقیقی ہے تو بس یہ کہ حالات کی خرابی کو انسان اپنی صلاحیت اور سکت کے لیے واقعی نوعیت کی للکار سمجھ کر قبول کرے اور اصلاحِ احوال کی خاطر عمل کی راہ پر گامزن ہو۔ چین کی کہاوت ہے کہ کسی بھی معاملے میں سُست رفتار پیش رفت اس بات سے تو بہرحال بہتر ہے کہ سب کچھ ساکت و جامد رہے‘ ماحول میں حرکت یا ہلچل نام کی کوئی چیز ہی نہ ہو۔ بات پتے کی ہے۔ اگر کوئی بھی معاملہ کسی نہ کسی حوالے سے آگے بڑھ رہا ہو تو اُس کی سُست رفتاری سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ معاملات کسی ایک مقام پر رُکے رہیں اس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ کسی نہ کسی صورت پیش رفت ممکن بنائی جاتی رہے۔ اگر تھوڑی بہت حرکت کو ہم پیش رفت قرار دینے کی ہمت اپنے اندر نہ پائیں تب بھی کوئی بات نہیں۔ کچھ نہ کچھ ہوتے رہنے میں بہرحال زندگی کا نشان ہے۔
ہم بیشتر معاملات میں نتائج کو اپنی خواہش کے مطابق نہ پاکر تیزی سے مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ روئے ارض پر بسنے والے کامیاب ترین افراد یا اداروں کی کہانی پڑھ دیکھیے‘ یہ اندازہ لگانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ کسی کو بھرپور کامیابی راتوں رات ملی نہ مل سکتی ہے۔ فقید المثال نوعیت کی کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے لیے کئی جاں گُسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور قدرت کی طرف سے یہ شرط سب کے لیے ہے۔ یقین رکھیے کہ کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ غلط اور بے بنیاد تصور پایا جاتا ہے کہ غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار ہونے والے انتہائی مالدار گھرانوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو بہت کچھ‘ بلکہ سب کچھ بہت آسانی سے مل جاتا ہے اور یہ کہ اُنہیں اس دنیا میں کسی الجھن کا سامنا کرنا ہی نہیں پڑتا۔ ایسا نہیں ہے۔ اس خام خیالی کو ذہن سے جھٹکنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر معمولی‘ بلکہ قابلِ رشک سماجی حیثیت اور اُس سے بھی کہیں بڑھ کر مالی استحکام رکھنے والے گھرانوں کے بچوں کو بھی بامقصد اور متوازن زندگی بسر کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ مشکلات اُن کے لیے بھی کم نہیں ہوتیں۔
بات ہو رہی ہے کسی نہ کسی طور جاری رہنے والی پیش رفت کی۔ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہر حال بہتر ہوتا ہے‘ مگر یہ‘ بظاہر‘ آسان سی بات بہت سوں کی سمجھ میں آسانی سے نہیں آتی۔ اگر کوئی معاملہ خرابی کی نذر ہوجائے تو لوگ درستی کی طرف مائل تو ہوتے ہیں‘ مگر بے صبری کام مزید بگاڑ دیتی ہے۔ کوئی بھی بگاڑ اچانک وارد نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ ایک طویل عمل کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ جو کچھ ایک مدت میں بگڑا ہو وہ راتوں رات درست نہیں کیا جاسکتا۔
ہر معاملے کی ایک فطری رفتار ہوا کرتی ہے۔ یہ فطری رفتار قدرت کی طے کردہ ہوتی ہے۔ ہم سب اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ فصل ہی کی مثال لیجیے۔ زمین تیار کرنے کے بعد کھاد اور بیج ڈالنے سے مستقل بنیاد پر پانی دینے تک ہر مرحلے میں فصل کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور جب پودے جوان ہوجائیں تو اُنہیں کیڑوں مکوڑوں‘ مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچانے والے دیگر حیوانوں سے بچانے کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے۔ سارا معاملہ صبر و تحمل کا طالب ہے۔ کوئی بھی معاملہ فطری رفتار سے بڑھتا رہے تو بہترین یا مطلوب نتائج دیتا ہے۔ بے صبری کا مظاہرہ کرنے سے محض خرابی پیدا ہوتی ہے۔ صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی صورت میں مشکلات کو بڑھنے سے روکا نہیں جاسکتا۔
1950 کی دہائی میں راج کپور کی فلم ''شری 420‘‘ کے لیے مکیش کمار ماتھر کا گایا ہوا ایک گیت بہت مقبول ہوا تھا۔ گیت کا مکھڑا تھا ع
میرا جوتا ہے جاپانی‘ یہ پتلون انگلستانی
اسی گیت کے ایک انترے کے بول تھے ؎
اوپر نیچے‘ نیچے اوپر‘ لہر چلے جیون کی
ناداں ہے جو بیٹھ کنارے پوچھے راہ وطن کی
چلنا جیون کی کہانی‘ رُکنا موت کی نشانی
خالص عوامی انداز سے کہی گئی یہ بات کتنی بڑی حقیقت کو طشت از بام کر رہی ہے۔ زندگی کی نمایاں ترین علامت حرکت ہے۔ کسی بھی ذہنی سطح کا انسان حرکت ہی کو زندگی تصور کرتا ہے۔ سکوت اور جمود میں زندگی کا نشان ڈھونڈنے کوئی نہیں نکلتا۔ تمام معاملات کا بھی ایسا ہی تو معاملہ ہے۔ اگر کسی معاملے میں کسی بھی سطح پر کوئی پیش رفت نہ ہو رہی ہو تو اُسے مُردہ تصور کیا جاتا ہے۔ ہر انسان کی سب بڑی خواہش اور طلب یہ ہے کچھ نہ کچھ ہوتا رہنا چاہیے۔
مسائل اُس وقت بڑھتے ہیں یا شدت اختیار کرتے ہیں جب ہم سوچے سمجھے بغیر‘ غیر منطقی انداز سے کسی بھی معاملے میں سب کچھ یا بہت کچھ تیزی سے ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ قدرت نے ہر چیز کی ایک رفتار متعین کر رکھی ہے۔ دنیا کا ہر معاملہ اس بنیادی اصول ہی کے تحت انجام کو پہنچتا ہے۔ کھانے پینے کی بہت سی اشیا ایسی ہیں جو ڈھنگ سے پکنے کے لیے دھیمی آنچ پر اچھا خاصا وقت لیتی ہیں۔ اگر ان اشیا کو تیزی سے یعنی بہت تیز آنچ پر پکانے کی کوشش کی جائے تو کھانا پک تو جاتا ہے مگر اُس میں وہ بات نہیں آتی جو آنی چاہیے۔
ہم زندگی بھر عجلت پسندی کا شکار رہتے ہیں۔ عجلت پسندی انسان کے مزاج میں گندھی ہوئی ہے۔ اور اس سے لڑنا بھی ہمارے لیے لازم ہے کیونکہ جہاں غیر معمولی صبر و تحمل سے کام لینا ہو وہاں بے صبری نقصان پہنچانے سے باز نہیں رہتی۔ مثل مشہور ہے کہ جلدی کا کام شیطان کا۔ عجلت پسندی کو شیطانی صفت سے تعبیر کیا گیا ہے مگر پھر بھی لوگ اسے ترک کرنے پر آسانی سے آمادہ نہیں ہوتے۔
ارتقا خالص انفرادی یا شخصی نوعیت کا ہو یا پھر اجتماعی سطح کا‘ زندگی کا ہر نیا مرحلہ اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ آپ کا ایک نیا ''ورژن‘‘ سامنے آئے۔ جب آپ ہر شے کا نیا ورژن چاہتے ہیں تو پھر اس بات پر حیرت کیوں ہو کہ دنیا بھی تو آپ کا نیا ورژن دیکھنا چاہتی ہے۔ آپ کو ہر نئے مرحلے کے لیے اس طور تیار ہونا ہے کہ آپ کا اب تک کا وجود ایک طرف ہٹ جائے اور آپ کا جو وجود سامنے آئے اُس میں بہت کچھ نیا اور زیادہ کام کا ہو۔ معاملات کو بہتر‘ موزوں اور بارآور انداز سے نمٹانے کی یہی ایک صورت ہے۔
حرکت اور پیش رفت زندگی کا بنیادی تقاضا ہے۔ سوال رفتار کا نہیں‘ معاملات کے چلتے رہنے کا ہے۔ زندگی کے بیشتر اور بالخصوص اہم معاملات میں جمود ہی جمود دکھائی دے رہا ہو تو ذہن بھی ساکت و جامد ہو جاتے ہیں۔ زندگی کسی بھی سطح پر‘ کسی بھی درجے میں تغافل اور تساہل کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ معاملات جوں کے توں رہنے پر بھی زندگی ڈھنگ سے گزر سکتی ہے‘ کوئی پیش رفت ممکن ہوسکتی ہے تو اُس کی عقل کا ماتم کیا جانا چاہیے۔ قدم قدم پر یہ بات واضح ہوتی جاتی ہے کہ معاملات کو کسی بھی مقام پر رکنا نہیں چاہیے بلکہ کاررواں متحرک رہنا چاہیے۔ یہی زندگی ہے۔ چلنا ہی جیون کی کہانی ہے اور رُکنا موت کی نشانی۔ یعنی توجہ چلتے رہنے پر مرکوز رہے تو اچھا۔