مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنے کا اعلان کرکے ملکی سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ حکومت بظاہر اس دھرنے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے مولانا سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کے بعد بھی ان پر ذاتی حملے جاری رکھے‘ یوں مذاکرات کی موہوم سی امید بھی دم توڑ گئی۔ وزیراعظم کا خیال ہے کہ مولانا کا دھرنا سات دن بھی جاری نہیں رہ سکے گا۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن حکومت کی اعصاب شکنی کے لیے بھرپور حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ کبھی ڈنڈا بردار جتھے سے سلامی لیتے نظر آتے ہیں تو کبھی ڈنڈوں کو سرسوں کا تیل پلانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پھیلائی جاتی ہیں۔
پاکستان میں دھرنوں کے بانی سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد ہیں۔ ان کے بعد طاہرالقادری، عمران خان اور خادم حسین رضوی بھی دھرنوں کا حربہ آزماتے رہے۔ ماضی کے ان دھرنوں سے فوری طور پر حکومت گرنے کی کوئی مثال موجود نہیں۔ پاکستان میں دھرنے کا سیاسی حربہ آزمانے والے ہمیشہ کسی نہ کسی موقع پر پُرتشدد احتجاج پر اترے اور امن و امان کی خرابی کا باعث بنے۔
دھرنوں کی ابتدا امریکا میں شہری حقوق کے لیے تشدد سے پاک تحریک میں ہوئی۔ یکم فروری انیس سو ساٹھ کو چار سیاہ فام امریکی نوجوانوں نے شمالی کیرولینا میں ایک ریسٹورنٹ میں سفید فام شہریوں کے لیے مخصوص کاؤنٹر پر کھانا نہ ملنے پر دھرنا دیا۔ یہ نوجوان کیرولینا کے ایگریکلچرل اینڈ ٹیکنالوجی کالج کے طلبہ تھے۔ ریسٹورنٹ نے انہیں سفید فام گاہکوں کے لیے مخصوص کاؤنٹر پر کھانا دینے سے انکار کیا تھا۔ چاروں طلبہ ریسٹورنٹ بند ہونے تک وہیں بیٹھے رہے۔ پھر انہوں نے ہر روز اس ریسٹورنٹ میں آکر بیٹھنا شروع کر دیا۔ وہ ریسٹورنٹ انتظامیہ کی طرف سے کھانا نہ ملنے پر واپس جانے کی بجائے ریسٹورنٹ کے اوقات کار ختم ہونے تک وہیں بیٹھے رہتے۔ ہر روز ان کے ساتھ کالج کے مزید طلبہ بھی ہوتے تھے جو سب سفید فام شہریوں کے لیے مخصوص کاؤنٹر سے کھانا نہ ملنے پر وہیں جم کر بیٹھ جاتے۔
چند ہی دنوں میں یہ احتجاج شہر کے دوسرے ریسٹورنٹس تک پھیل گیا۔ احتجاج کی خبر دوسرے شہروں تک پہنچی تو پورے جنوبی امریکا میں اس طرح کے دھرنے شروع ہو گئے۔ تین ماہ کے عرصے میں ہزاروں سیاہ فام طلبہ کے ساتھ سفید فام طلبہ بھی ان دھرنوں کا حصہ بننے لگے۔
یہ وہ وقت تھا جب انسانی اور شہری حقوق کے سیاہ فام چیمپئن مارٹن لوتھر کنگ کی جدوجہد کے بارے میں یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ یہ تحریک دم توڑ رہی ہے۔ چار سیاہ فام طلبہ کے احتجاجی دھرنے نے اس تحریک میں نئی جان ڈال دی اور مساوی شہری حقوق کی تحریک نے زور پکڑ لیا۔ انیس سو ساٹھ میں فیس بک اور ٹویٹر جیسا سوشل میڈیا دستیاب نہیں تھا لیکن شمالی کیرولینا کے گرینز برو سے چار طلبہ کے دھرنے کی خبر پہلے پوری ریاست اور پھر امریکا کی تمام جنوبی ریاستوں میں پھیلی۔ آٹھ ہفتوں میں امریکا کے ستر شہر ان دھرنوں کی زد میں تھے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ پہلا دھرنا بغیر منصوبے کے صرف ایک سماجی ناانصافی پر چار طلبہ کافوری ردعمل تھا۔
ان دھرنوں کو امریکی تاریخ کی سب سے بڑی سول نافرمانی تحریک کہا جاتا ہے۔ اس تحریک نے مساوات کی ایک عدیم النظیر مثال قائم کر دی۔ امریکا کے ہر طبقے کے لوگ ان دھرنوں میں شریک ہوئے۔ ہر دھرنے میں شریک ہرفرد ایک جیسے خطرے اور تنقید کی زد میں تھا۔ دھرنوں کی اس تحریک کی کامیابی کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس میں بڑی سرمایہ کاری اورمحنت کی ضرورت نہیں تھی۔ کرنا صرف یہ تھا کہ چند دوستوں کو ساتھ لیں، مقصد کے ساتھ وابستگی ہو۔ عدم تشدد کے اصولوں پر عمل کریں اور ایک مقام منتخب کرکے روزانہ وہاں دھرنا دے دیں۔ ان دھرنوں نے امریکی معاشرے کی ناانصافی کو اجاگر کر دیا کیونکہ پولیس ان طلبہ کو گرفتار کر رہی تھی جوکسی ریسٹورنٹ میں جا کر صرف برگر یا جوس کا آرڈر دیتے اور آرڈر پورا نہ ہونے پر وہیں بیٹھے رہتے تھے۔ یہ طلبہ نہ توڑ پھوڑ کرتے تھے اور نہ کسی بھی طرح عوام کی زندگی میں خلل کے مرتکب ہوتے تھے۔ گرفتاریوں پر عام آدمی بھی‘ جو پہلے سفید فام شہریوں کے لیے الگ کاؤنٹر اور سہولیات کا حامی تھا‘ دھرنوں کے حق میں سوچنے لگا۔
سیاسی اور سماجی حقوق کے لیے ہر احتجاج کا منفرد ردعمل ہوتا ہے۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ لیکن ان دھرنوں نے ہی امریکا میں مساوی حقوق کا قانون منظور کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب بھی کوئی سیاسی تحریک یا احتجاج شروع ہوتا ہے اس کے ناقدین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اور ایک خاص وقت تک اس احتجاج کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتا‘ لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ کوئی تحریک یا احتجاج فوری نتائج نہ بھی دے تو اس کے سیاسی اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ اصل مقصد ان لوگوں کو قائل کرنا ہوتا ہے جو اس تحریک یا احتجاج کے ساتھ متفق نہیں۔ دھرنے لوگوں کی توجہ کھینچتے ہیں، میڈیا کوریج ان دھرنوں کے شرکا کی آواز لوگوں تک پہنچاتی ہے‘ اور اگر عوام اس کے ساتھ متفق ہو جائیں تو ہر طبقہ اس تحریک کا ساتھ دینے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا اعلان کردہ دھرنا‘ دھرنے کی بنیادی تحریک سے میل نہیں کھاتا۔ پورے ملک سے لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک شہر میں لانا اور پھر وہاں بیٹھ جانا ایک بڑی سرمایہ کاری اور محنت طلب کام ہے۔ مولانا کے دھرنے کا مقصد حکمرانوں سے استعفیٰ لینا بتایا جاتا ہے۔ امریکا کے شہری حقوق کی تحریک کے دھرنوں سے موازنہ کیا جائے تو مولانا کا دھرنا بہت مختلف ہے۔ اگرچہ عدم تشدد کا پیغام بھی دیا جا رہا ہے لیکن کیا اتنی بڑی تعداد میں مختلف شہروں سے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے بعد انہیں منظم رکھنے اور تشدد پر مائل نہ ہونے کی گارنٹی ممکن ہے؟
امریکا میں ہونے والے دھرنوں کی کامیابی کی بڑی وجہ طلبہ کی رضاکارانہ شرکت تھی۔ ان دھرنوں سے عوامی زندگی متاثر نہیں ہوئی۔ ان دھرنوں کے شرکا تشدد کی طرف مائل نہیں ہوئے اور پولیس انہیں بلا وجہ گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رہی تھی۔ ان دھرنوں کے لیے کوئی بڑے مقاصد بھی طے نہیں کئے گئے تھے‘ جن کے پورا نہ ہونے پر مایوسی پھیلتی۔ سیاہ فام طلبہ کے دھرنوں میں شریک افراد نے اپنی کامیابی کے الگ الگ اور چھوٹے چھوٹے پیمانے طے کر رکھے تھے۔ کچھ شرکا کا کہنا تھا کہ دھرنوں میں شرکت ہی ان کی کامیابی اور فتح ہے۔ سفید فام عوام کی طرف سے ان دھرنوں پر ردعمل کو بھی کامیابی مانا گیا۔ گرینزبرو کے ریسٹورنٹ میں مالک نے سفید فاموں کے لیے الگ کاؤنٹر ختم کر دیا تو یہ اس دھرنے کی پہلی کامیابی تھی۔
سیاہ فام طلبہ کا ایک حصہ یہ تصور کرتا تھا کہ ان کے دھرنے سے اگر ایک ذہن تبدیل ہو گیا تو یہ بھی ان کی کامیابی ہوگی۔کچھ طلبہ کا خیال تھا کہ انہیں سفید فام کاؤنٹر سے کھانا پیش کر دیا جائے تو یہ بھی کامیابی ہوگی۔ یہ تحریک مساوات کے لیے تھی۔ مقاصد کے حصول تک یہ تحریک ایک جذبے کے تحت چلتی رہی۔
اگر مولانا صاحب کے دھرنے کو اس پیمانے پر پرکھا جائے تو اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن نظر نہیں آتے۔ مولانا نے ایک ہی مقصد اپنے پیروکاروں کے لیے رکھا ہے کہ حکومت گرا کر واپس آئیں گے۔ یہ بہت بڑا ہدف ہے اور حکومتیں کبھی بھی اتنی جلدی جھکا نہیں کرتیں۔ یہ دھرنا دراصل حکومت سے زیادہ مولانا کے اپنے اعصاب کا امتحان ہے کہ وہ دھرنے کی صورت میں کارکنوں کی امیدوں کو کس طرح زندہ رکھتے ہیں۔ مولانا اور ان کی جماعت کو ایک بڑا امتحان درپیش ہے کہ وہ عوام کو اپنے موقف کے ساتھ کس طرح جوڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر کسی اشتعال انگیزی پر دھرنے کے شرکا کا چھوٹا سا حصہ بھی ایک غلط قدم اٹھا بیٹھا تو حکومت مخالف رائے رکھنے والا طبقہ بھی اس تحریک سے ہمدردی چھوڑ دے گا۔
دوسری طرف حکومت اس دھرنے کو ناجائز قرار دے رہی ہے حالانکہ اسی جماعت نے دارالحکومت کو ایک سو چھبیس دن تک یرغمال بنائے رکھا تھا۔ میڈیا کو مولانا کے دھرنے کی کوریج سے روکنے کی کوشش کرنے والوں کو اپنے دھرنے کی چوبیس گھنٹے کوریج کی خواہش تھی۔ دھرنے سے پہلے ہی وزرا کے بوکھلاہٹ زدہ بیانات بتا رہے ہیں خۃ حکمرانوں کے اعصاب بھی زیادہ مضبوط نہیں۔ دھرنے کو روکنے کے لیے طاقت کا استعمال اس حکومت کے ہمدردوں کے ذہن بھی تبدیل کر دے گا‘ جیسے امریکا میں طلبہ کی بلاجواز گرفتاریوں نے عوام کی بڑی تعداد کو سیاہ فام طلبہ کا ہمنوا بنا دیا تھا۔