تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     20-10-2019

سرخیاں‘متن اور ابرارؔ احمد کی نظم

تبدیلی سرکار خود اور عوام بھی پریشان ہیں: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''تبدیلی سرکار خود اور عوام بھی پریشان ہیں‘‘ اور ان کی پریشانی دیکھ کر میں خود پریشان ہو گیا ہوں اور بار بار انہیں تسلی دینے کی کوشش کی ہے‘ لیکن یہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور پریشان ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ جبکہ عوام سے تو میں نے کہا ہے کہ آپ جن کو بدل بدل کر لا رہے ہیں‘ سوائے پریشان ہونے کے آپ کو کیا ملا ہے‘ کبھی ہمیں بھی بلا کر دیکھیں؛ اگرچہ ہمیں لانے سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا‘ بلکہ ان کی پریشانی میں کئی گنا اضافہ ہوگا‘ تاہم پریشانی میں بھی کسی قدر ورائٹی ہونی چاہیے‘ کیونکہ اگر ہمیں لایا جائے‘ تو آپ پریشان ہونے کے ساتھ حیران اور پشیمان بھی ہوں گے کہ یہ ہم کیا کر بیٹھے ہیں ‘جبکہ سابقہ حکمرانوں کو لا کر آپ صرف پریشان ہوئے ہیں ‘جبکہ ہمارے حوالے سے آپ کو ایک پچھتاوا بھی ہوتا اور آئندہ کے لیے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہ آئندہ ایسی غلطی ہرگز نہیں کریں گے‘ جبکہ آدمی ہمیشہ اپنی غلطیوں ہی سے سیکھتا اور عبرت حاصل کرتا ہے۔ آپ اگلے روز ننکانہ میں کارکنوں سے خطاب کررہے تھے۔
پارلیمنٹ کو تالا لگ چکا‘ سیاست سڑکوں پر آ گئی: بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پارلیمنٹ کو تالا لگ چکا‘ سیاست سڑکوں پر آ گئی‘ عمران کو جانا ہوگا‘‘ جبکہ فی الحال تو میں پارلیمنٹ کی چابی تلاش کر رہا ہوں‘ تاکہ اسے کھولا جا سکے اور اگر نہ ملی تو اس کا تالا توڑنا پڑے گا‘ کیونکہ ہمارے پاس جو چابی ہے ‘وہ کسی اور کام کے لیے ہے اور اس سے کوئی دوسرا تالا نہیں کھل سکتا‘ بلکہ اب تو ہمیں اس کے لیے چابی کی بھی ضرورت نہیں پڑنی اور ''کھُل جا سم سم‘‘ کہنے سے ہی تالا اپنے بازو کھول دیتا ہے؛ اگرچہ لاڑکانہ والا الیکشن ہارنے کے بعد ہمارے منہ کا ذائقہ کافی حد تک خراب ہو چکا ہے‘ اوپر سے حکومت نے ہماری پکڑ دھکڑ شروع کر رکھی ہے اور بیجا لالچ کا مظاہرہ کر رہی ہے؛ حالانکہ روپے پیسے کی کیا اہمیت ہے‘ جبکہ ہم نے کئی جائیدادیں اور اثاثے مختلف لوگوں کے محض خدا ترسی کی وجہ سے نام لگوا رکھے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں سانحہ کارساز کی برسی پر خطاب کررہے تھے۔
مولانا کے آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور نواز لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مولانا کے آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے‘‘ جس کے لیے بھائی صاحب نے میرا قدم اٹھوا رکھا تھا ‘جبکہ انہوں نے میری کمر درد کا بھی کوئی خیال نہیں کیا‘ جو کہ چُک ہی کی ایک قسم ہے‘ جس کے لیے کمر پر کسی کی لات کھانا ضروری ہے‘ لیکن اس نیک مقصد کے لیے کوئی مناسب آدمی ہی دستیاب نہیں ہورہا‘ جبکہ اس سلسلے میں بھی بھائی صاحب کا خیال یہ ہے کہ مارچ میں دھکم پیل ہی اتنی ہوگی کہ کسی نہ کسی کی لات پڑنے سے آپ کا مسئلہ وہیں حل ہو جائے گا اور آپ کا کُب بھی خود بخود ہی نکل جائے اور یہی اس مارچ کا خوشگوار پہلو بھی ہے‘ اگر انہوں نے گرفتاریاں شروع کر دیں‘ تو حوالات تک پہنچتے پہنچتے شاید مکمل طور پر صحت یاب ہو جائوں‘ اس لیے شاعر نے کہا ہے کہ ع
عدو شری بر انگیز کہ خیر ما درآن باشد
آپ اگلے روز لاہور میں مولانا فضل الرحمن کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔
گالیاں‘ تضحیک اور مذاکرات اکٹھے نہیں چل سکتے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''گالیاں‘ تضحیک اور مذاکرات اکٹھے نہیں چل سکتے‘‘ اس لیے اگر انہیں علیحدہ علیحدہ کر کے چلایا جائے ‘تو زیادہ مناسب ہے‘ جس سے ان سب کی افادیت سامنے آ جائے گی‘ تاہم حکومت کے ارادے کچھ اچھے معلوم نہیں ہوتے ‘جو ہماری معصوم ڈنڈا بردار فورس کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں؛ حالانکہ ڈنڈے سے صرف سر پھٹ سکتا ہے‘ باقی جسم بالعموم محفوظ رہتا ہے‘ اس لیے اس معمولی سے امکان پر اسے دہشت گرد قرار دینا سراسر زیادتی ہے‘ کیونکہ سر تو دیوار کے ساتھ ٹکرانے سے بھی پھوڑا جا سکتا ہے‘ اس لیے اگر پابندی لگانی ہے‘ تو ملک بھر کی دیواروں پر بھی لگائی جائے ‘جبکہ ہر دیوار اپنے نوشتے سے بھی پہچانی جاتی ہے‘ اگر نوشتۂ دیوار پڑھنے کا رواج ہمارے ہاں پہلے جیسا نہیں ہے ‘جس کی وجہ تعلیم کی کمی ہے‘ اس لیے حکومت کو سب سے پہلے نظامِ تعلیم کی حامیوں کو درست کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں میڈیا کے نمائندوں کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
یہ کالک کیوں نہیں جاتی----!
لباسِ زر پہن رکھا ہو/ چادر ہو فقیری کی/ بدن کو اوڑھ رکھا ہو/ کہ دبکا ہوں لحافوں میں/ یہ کالک‘ داغ ہے ماتھے کا/ دل پر نقش ہے/ اطراف سے امڈی ہوئی گالی ہے/ گالی میں چھپی تضحیک ہے/ اک خوف ہے/جو ہر گھڑی گردش میں رہتا ہے/ نحوست ہے/ کہیں سے کاٹ دے گی زندگی کا راستہ----!
لہو میں روک ہے/ کیچڑ ہے/ اجلے دن کے ماتھے پر/ تباہی ہے/ کوئی بہتان ہے/ چبھتا ہوا اک جھوٹ ہے/ بکواس ہے/ نفرت کا دھارا ہے/ اُچھلتا ہے‘ مچلتا ہے/ کہ پہناوے پہ دھبّا ہے/ بہت مَل مَل کے دھوتا ہوں/ یہ کالک کیوں نہیں جاتی----!
بھلا لگتا ہے ہر ملبوس مجھ کو /چار سو رنگوں کا ڈیرا ہے/ کئی مہتاب ہیں/ جو تیرتے ہیں میری راتوں میں/ چمک ہے ظاہر و باطن میں/ بہتی ہے لہو بن کر/---- مگر پھر بھی/---- پر ایسا ہے/ کوئی رنگِ مشیّت ہو/ کہ نسلوں کی رعایت سے/ عطا ہو‘ زندگی کے جبر کی/----اور خون کی نسبت سے ہو/ مقسوم انساں کا/ وہ کالک----کیوں نہیں جاتی!
آج کا مقطع
اک دن اِدھر سوارِ سمندِ سفر تو آئے
خود بڑھ کے روک لیں گے‘ کہیں نظر تو آئے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved