وزیر اعظم عمران خان حال ہی میں کشمیری عوام کے لئے انصاف‘ اور پاکستان سے ملحق علاقوں میں امن اور سکون کے قیام کے مشن سے واپس لوٹے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کاز کی یادگار نمائندگی اور مسئلہ کشمیر کو عالمی ریڈار سکرین پر نمایاں مقام دلانے کے بعد وہ دو برادر مسلم ممالک‘ ایران اور سعودی عرب کے مابین اعتماد سازی کے فروغ کی خاطر ایک اور تاریخی مشن پر تھے تاکہ وہ ان کی مدد سے اپنے باہمی مسائل کا بات چیت کے ذریعے کوئی حل تلاش کر سکیں۔ ان کا مشن دونوں ممالک کی تاریخی رقابت یا اختلافات ختم کرانا نہیں بلکہ انہیں ایک ایسی فضا اور ماحول فراہم کرنے میں مدد دینا تھا‘ جس میں وہ کشیدہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے بات چیت کر سکیں۔
عمران خان کے مشن کی اہمیت کے صحیح ادراک کیلئے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں سلامتی کی صورتحال دراصل عالمی سکیورٹی صورتحال کی ہی توسیع ہوتی ہے‘ جس کے اثرات عموماً پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔ اور آج ہماری دنیا اتنی افراتفری اور ہنگامہ خیزی کا شکار ہے جتنا پہلے کبھی نہیں رہی تھی۔
آج کے دور میں عالمی سلامتی کی صورتحال سفارتکاری کے ان چیلنجز سے عبارت ہے جن میں طاقت کا وحشیانہ استعمال، اقتدار کی مستقل کشمکش، فوجی قبضوں اور سیلف ڈیفنس کے نام پر کھلی جارحیت‘ انسانی المیے، معاشی مہم جوئی، جوہری سلامتی کے امتیازی نظام اور مذہب کے نام پر انتہا پسندی اور دہشتگردی کا کلچر شامل ہیں۔ گزشتہ دو عشروں میں رونما ہونے والے واقعات نے بین الاقوامی نظام کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا ہے جسے اب قانون کی حکمرانی اور مسلمہ عالمگیر اقدار اور آداب کے ذریعے چلانا ممکن نہیں رہا۔ طاقت‘ جسے ہمیشہ غلط سمجھا گیا‘ آج اتنا ہی درست تصور کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ اب عالمی امن و سلامتی کے امور میں یکتا کردارکا حامل نہیں رہا۔ اس صورتحال کواس بات نے مزید سنگین اور تشویشناک بنا دیا ہے کہ عالمی برادری کسی متحدہ مقصد کے ساتھ ان چیلنجز پر قابو پانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ امن وسلامتی کے بڑے ایشوز پر عالمی اتفاق رائے مفقود ہے یا پھر اس بات پرکہ ان سے کیسے نمٹنا جائے۔ فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل آج بھی کسی فالواپ ایکشن کے بغیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پرموجود ہیں۔
افغانستان میں ابھی پائیدار امن کے آثار نہیں۔ عراق ابھی تک جنگ کی راکھ میں سلگ رہا ہے۔ فلسطین اب تھک کر خاموش ہو گیا ہے۔ کشمیر تباہ کاری کا شکار ہے اور محسوس کرتا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہواہے۔ شام ابھی تک شعلوں کی زد میں ہے۔ یمن ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں پھنسا ہوا ہے۔ ایران ایک عارضی مہلت پر ہے۔ پاکستان کو افغانستان‘ اور خطے میں کہیں بھی ہونے والی کسی بھی خرابی پر بڑی آسانی سے قربانی کا بکرا بنالیا جاتا ہے۔ آسودہ حال دنیا نے کبھی اتنی لاپروائی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ بھی انتقامی اور جوابی کارروائیوں سے آگے نہیں گئی۔ حالیہ برسوں میں Regime Change پر مبنی ایک نیا ''سکیورٹی ڈاکٹرائن‘‘ متعارف کرایا گیا ہے‘ جسے افغانستان اور عراق کے حملوں میں بروئے کار لایا گیا اور پھر مصراور لیبیا میں بھی اس کا کامیابی سے استعمال کیا گیا۔
پانچ سال پہلے شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کیلئے ایک مسلح بغاوت برپا کی گئی جو بیک فائر کرگئی اور شورش پسندوں نے شام اور عراق کے بعض حصوں پر مشتمل اپنی ایک نئی ریاست کے قیام کا دعویٰ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ISIS المعروف داعش وجود میں آئی جو آج مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کا حصہ ہے۔ اس جنگ کے فٹ پرنٹ اب عراق اور شام سے ہوتے ہوئے جزیرہ نما عرب تک پھیل گئے ہیں جو اب خطے میں ایران اور سعودی عرب کے مابین بالادستی کیلئے ایک مکمل جنگ کی صورت میںیمن میں لڑی جارہی ہے۔
اس ہولناک پس منظر میں مشرق وسطیٰ کا ہر ملک‘ جس میں ایران، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، عراق، شام، لبنان، ترکی، یمن، فلسطین اور کرد شامل ہیں‘ ایک پیچیدہ صورتحال میں پھنسا ہوا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ بڑی طاقتیں بھی اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر مشرق وسطیٰ کے اکھاڑے میں اتر ہوئی ہیں۔ ان میں سعودی عرب، اسرائیل‘ امریکہ ایک طرف ہیں اور ایران، عراق، شام اور روس دوسری طرف۔ ان گروپوں کے ملٹری الائنس خطے کی عسکری اور سکیورٹی کی صورتحال کو بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس معاملے میں چین، ترکی، بھارت اور پاکستان کے اپنے اپنے تحفظات ہیں اور وہ اس حوالے سے اپنا اپنا سیلف سرونگ موقف رکھتے ہیں۔
صورتحال کو مزید ابتر بنانے کیلئے بھارت بھی علاقائی قوت ہونے کا دعویدار بنا ہوا ہے۔ اس تشویشناک تناظر میں اس وسیع خطے میں بھارت کے بالادستی کے منصوبوں پر پاکستان کی تشویش بلاجواز نہیں ہے۔ یہ امر باعث تعجب نہیں کہ خلیج کی ساحلی ریاستوں میں جاری عدم استحکام اور عدم اعتماد کی فضا بھارت کے طویل المدت عزائم کیلئے نہایت موزوں ہے؛ چنانچہ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ یہ خطہ ہر طرح کی کشیدگی اور عدم استحکام سے بچا رہے۔ عمران خان کے حالیہ طوفانی دوروںکو اسی تناظر میںدیکھا اور سمجھا جانا چاہئے۔ مشرق وسطیٰ کے بارے میں پاکستان کی پالیسی بہت واضح ہے۔ پاکستان عرب دنیا کے کسی باہمی تنازعے یا دو مسلمان ممالک کے مابین کسی کشیدگی کی صورت میں فریق نہیں بنتا۔ یہ بات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک مستقل فیچر رہا ہے جس کا اظہار پوری اسلامی دنیا اور وہاں جاری جائز تحریکوں سے پاکستان کی مکمل یکجہتی سے بھی ہوتا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل40 کے تحت یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ''مسلمان ممالک کے ساتھ یکجہتی اور مشترکہ مفادات پر مبنی مضبوط برادرانہ تعلقات قائم رکھے جائیں‘‘۔ اس صورتحال میں ہمارا کردار یہی بنتا ہے کہ کسی بھی ملک کے ساتھ ایک لڑاکا فریق بننے کے بجائے صلح اور امن کا پل بنیں۔
ہمارے مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک اور بلاشبہ پورے عالم اسلام کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم ہیں۔ بہت سے مسلم ممالک اور دیگر دوست ملکوں کے ساتھ ہمارے فوجی تربیت کے دوطرفہ پروگرام بھی چلتے رہتے ہیں۔ ہم سعودی عرب کی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے پابند ہیں اور ایران کے معاملے میں بھی بہت حساس ہیں۔ دونوں ہمارے بھائی ہیں، اور اگر دہشتگردی کے کسی مشترکہ خطرے سے نمٹے کیلئے پاکستان سعودی سپانسرڈ ملٹری الائنس میں شامل ہے تو اس سے دونوں ممالک کے ساتھ ہمارے برادرانہ عزائم اور احساسات میں کوئی تضاد نہیں پیدا ہوتا۔ بدقسمتی سے اس خطے کا اصل مسئلہ عدم اعتماد اور خوف ہے جو علاقائی تعاون کے کسی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے حالیہ برسوں میں سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ جس طرح گزشتہ چالیس برسوں میں یورپی ممالک نے باہمی تعاون کاایک نظام قائم کرلیا ہے اگر خلیج فارس کے اردگرد واقع ممالک بھی تعاون کا کوئی ایسا ہی نظام وضع کر لیتے تواس خطے میں کسی قسم کی باہمی خوف کی فضا نہ پائی جاتی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں بھی جرمنی کے بارے میں ایسا ہی خوف پایاجاتا تھامگر وہ ایک علاقائی تعاون کے نظام کی مددسے اس خوف کے پس پردہ موجود ایشوز کو حل کرنے میںکامیاب ہو گئے۔
خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کو بھی چاہئے کہ باہمی خوف کی فضا سے نکل کر دوطرفہ اعتماد اور مشترکہ مفادات کے تحت تعاون کا کوئی ایسا ہی نظام تشکیل دیں۔ موجودہ زبوں حالی کا درست حل خطے کے باہر سے نہیں بلکہ خطے کے اندر سے ہی نکلے گا۔
ایران اور سعودی عرب میں قائدین سے مذاکرات کے دوران عمران خان اسی اپروچ پر عمل پیرا رہے۔ اس خطے میں امن و استحکام کیلئے ممکن ہے کہ انہیںآگے چل کر خلیج کے دیگر ممالک کو بھی اس کوشش میں شامل کرنا پڑے۔ پاکستان اسی خطے کا حصہ ہے اور اس کی سلامتی اور خوشحالی بھی اسی خطے کی صورتحال سے منسلک ہے۔
عالمی بالادستی کیلئے تیزی سے نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ اگرتاریخ انسانوںکیلئے ایک سبق ہے تو یاد رکھنا چاہئے کہ حالات کبھی جامد نہیں رہتے۔ دنیا اور اس کی حرکیات جس طرح تبدیلی کے ایک ناگزیرعمل سے گزرتے ہیں حالات بھی اسی طرح تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہ بات قوموں کے عروج و زوال کے اندر ہی مضمر ہوتی ہے۔ عمران خان بھی اس خطے میں تبدیلی کے اس عمل کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ عظمت رفتہ کی بحالی کیلئے ہمیںاسلامی دنیا کا ہاتھ بٹانے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے تاکہ ہم عالمی سطح پر وہی کردار ادا کر سکیںجو عالم اسلام کے سائز اور معاشی قوت سے مطابقت رکھتا ہو۔ آج عالم اسلام کے سرکردہ ممالک بالخصوص ایران، پاکستان، ترکی‘ سعودی عرب، مصر، ملائیشیا اور انڈونیشیا کو اسی چیلنج کا سامنا ہے۔ ان میں اتنی استعداد ہے کہ وہ مل کر عالم اسلام میں تبدیلی کے اس عمل کی قیادت کر سکیں۔ مگر اس کیلئے انہیں باہمی اتحاد کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایک تازہ تحریک کی داغ بیل ڈال سکیں جومسلم ممالک کو سیاسی، معاشی اور سکیورٹی امور میں ایک مضبوط عالمی قوت بنانے میں ان کی رہنمائی کر سکے۔