تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     21-10-2019

ملا کی دوڑ سڑکوں تک

پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں انتخابی سیاست میں بری طرح پٹ چکی ہیں۔ ستر سال سے زیادہ کی جدوجہد، تنظیم سازی، کارکنوں کی تربیت اور سب سے زیادہ سیاسی اتحاد اور اسلامی ریاست کا بیانیہ اُنہیں منزل کی جھلک تک نہ دکھا سکا۔ گزشتہ چالیس برسوں میں اُن کا انفرادی اور اجتماعی ووٹ بینک بتدریج کم ہوا۔ عوام نے مجموعی طور اُن کی سیاست کو مسترد کر دیا۔ میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ اسلامی سے کہیں زیادہ اُن کی فرقہ وارانہ شناخت ہے۔ ہر مذہبی جماعت کا تعلق کسی خاص مسلک سے ہے۔ سب نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی سیاسی مسجد بنا رکھی ہے۔ کئی بار انتخابات کے قریب اکٹھے ضرور ہوئے، اتحاد بھی قائم کیے لیکن وہ دیرپا ثابت نہ ہو سکے۔ 2002ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کا قیام عمل میں آیا‘ جس نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومتیں بنائیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس کی بڑی وجہ امریکی جنگ کے خلاف پختون علاقوں میں پروان چڑھنے والا بیانیہ تھا۔ اُنہوں نے افغان طالبان کے حق میں آواز بلند کی۔ اُن کے اختیار کردہ موقف نے روایتی قوم پرستوں اور دیگر جماعتوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایم ایم اے نے اس بیانیے کو سیاسی کامیابی کی صورت ڈھالا۔ اس کے علاوہ پرویز مشرف کو بھی اس کی ضرورت تھی؛ تاہم اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ یہی وہ آخری انتخابات تھے جن میں وہ کچھ نمایاں کارکردگی دکھا سکے۔ گزشتہ انتخابات میں تو ایسے پٹے کہ جیتنے والوں پر دھاندلی کا الزام لگانا ناگزیر ہو گیا تاکہ مستقبل کے لیے کچھ ساکھ رہ جائے۔ 
آخر کیا وجہ ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں نے جہاں ہزاروں کی تعداد سے مدرسے بنائے، ہزاروں بلکہ لاکھوں کارکن تیار کیے، لیکن جب وہ لوگوں کے پاس ووٹ لینے جاتے ہیں تو اُنہیں صرف احترام دیا جاتا ہے، چائے پلائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مسلم ممالک میں بہت کم مذہبی جماعتیں جماعتِ اسلامی کی طرح منظم ہیں۔ تاریخی پس منظر کے لحاظ سے جماعت کا سفر بھی مصر کی اخوان المسلمین کے متوازی شروع ہوا۔ نظریاتی اور تنظیمی لحاظ سے بھی دونوں میں بہت قریبی مماثلت ہے بلکہ نظریاتی ہم آہنگی بہت گہری ہے۔ میں ابھی تک سید حسن البنا، قطب شہید اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے تحقیقی اور تالیفی کاموں کے مرکزی نکات میں فرق محسوس نہیں کر سکا۔ اگر کوئی فرق ہے تو مختلف تاریخ اور سیاسی ماحول، معاشرے، ریاست اور حکومت کی نوعیت کا ہے۔ لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ جو جبر اور استبداد اخوانوں نے مصر میں برداشت کیا، اُس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے کارکن سولی پر لٹکائے گئے، قتل ہوئے، انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، سیاسی سرگرمیوں پر پابندیوں کے پہرے رہے، مگر وہ تمام قربانیاں دیتے ہوئے اپنے نصب العین پر قائم رہے۔ جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کا اگر اخوان سے موازنہ کیا جائے تو اُنہیں پاکستان میں کام کرنے کی آزادی رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر وہ عوام میں کیوں مقبولیت حاصل نہ کر سکے؟
پہلے تو اخوان کی کامیابی اور عوام میں اُن کی مقبولیت کا راز معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ چند روز پہلے اخوان کے کچھ رہنمائوں سے استنبول میں ملنے کا اتفاق ہوا۔ صدر مورسی کی حکومت میں وزیرِ منصوبہ بندی ڈاکٹر عامر دراغ سے غیر رسمی گفتگو کا محور وہ چند سوالات تھے جن کا ذکر سطورِ بالا میں کیا گیا۔ اُنہوں نے اخوان کی کامیابی کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ کہی کہ اُن کا مقصد اقتدار نہیں، بلکہ اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر انسانوں کی خدمت کرنے کا عزم ہے۔ اقتدار اُن کی منزل کبھی پہلے تھا، نہ اب ہے۔ ترکی میں برسرِ اقتدار 'انصاف اور ترقی تحریک‘ نے بھی اسی فلسفے کو تقریباً نصف صدی قبل اپنایا۔ عوامی سطح پر ترکی کی تحریکِ انصاف و ترقی اور اخوان نے تعلیم، خدمت، صحت اور قدرتی آفات کے وقت عوام کا ساتھ دیا۔ یہ بات پاکستان میں شاید کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے یا ناقابلِ یقین محسوس ہو، لیکن حقیقت یہی ہے کہ مصر میں سماجی ترقی کا تقریباً 70 فیصد حصہ نجی مذہبی تنظیمیں انجام دیتی ہیں۔ ترکی اور مصر میں مصطفی گولان کی تحریک نے پابندی لگنے سے پہلے بہترین سکول، کالج‘ جامعات اور دیگر ادارے قائم کیے تھے۔ ڈاکٹر دراغ نے بتایا کہ فوجی افسران کے بچے تک اخوان کے قائم کردہ سکولوں میں تعلیم پاتے ہیں کیونکہ سرکاری اور دیگر متبادل سکولوں کا اخوان جیسا معیار نہیں ہے۔ خاکسار کو کئی سال پہلے گولان کی خدمت تحریک کے زیر نگرانی ترکی میں قائم کئی سکولوں، اشاعتی ادارے ، اخبار، ٹیلی وژن نیٹ ورک کے علاوہ ایک عالمی معیار کی جامعہ دیکھنے کا موقع ملا۔ سب دیکھنے والے اش اش کر اٹھے۔ اب سب کچھ موجودہ حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ 
کسی سیاسی مقصد کے بغیر عوام کی نچلی سطح پر خدمت اُن کا مقصد رہی، اقتدار کی کبھی ہوس نہ کی، مگر بیانیہ اور تحریک کا مرکز کسی حد تک سیاسی تھا۔ اخوانِ مصر اور تمام مسلم معاشروں کو مغرب کے زہر آلود ثقافتی اثرات سے آزاد کرنا، اور اسلامی نظام کا نفاذ کرنا چاہتے تھے۔ اُنھوں نے اپنے رہنمائوں اور کارکنوں کی ایسی کردار سازی کی کہ اُن میں ظالم کے سامنے ڈٹ جانے کا جذبہ بیدار ہو گیا۔ وہ کبھی لالچ میں نہ آئے، نہ کبھی سر جھکایا۔ ہر مشکل کے سامنے اپنا کام جاری رکھا۔ پاکستان کی تمام مذہبی سیاسی جماعتوں اور اُن کے رہنمائوں کے بارے میں ایک ہی رائے قائم کرنا مناسب نہ ہو گا۔ جماعتِ اسلامی نے اپنے کارکنوں کی کردار سازی پر بہت زور دیا۔ یہ تنظیمی طور پر بھی بہت فعال ہے اور اس کے کام کی نوعیت کسی حد تک اخوان کے قریب بھی ہے ۔ مگر سوچنا ہو گا کہ آخر اسے عوامی مقبولیت کیوں نہ مل سکی۔ کچھ مذہبی جماعتوں کا مقصد اقتدار کا حصول ہے۔ جس طرح دیگر سیاسی جماعتوں نے اقتدار کو وسیلہ بنا کر مال اکٹھا کیا، اُنھوں نے بھی جب موقعہ ملا، خوب ہاتھ رنگے۔ اُن میں سے کچھ تو بد عنوانی کی اتنی بڑی علامت بن چکے ہیں کہ ''بڑے بڑوں‘‘ کے ساتھ اُن کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ قارئین سمجھ دار ہیں، زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں۔ 
مذہبی جماعتوں کی سیاسی تاریخ اور سیاسی نصیب میں ووٹ یا عوام کی تائید اور حمایت تو نہیں، مگر سڑکیں اُنہیں کھلی ملی ہیں۔ تجارتی مراکز سے اُنہیں چندہ بھی مل جاتا ہے۔ ڈنڈا بردار جتھے، زدوکوب کے ماہر، نعرہ زن لشکر، جذباتی نوجوان، الغرض کسی چیز کی کمی نہیں۔ جب یہ اثاثے سڑکوں پر متحرک کیے جاتے ہیں تو شہری خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ اس موقع پر ریاستی اداروں سے مداخلت کا تقاضا بھی کیا جاتا ہے کہ عوام ان لشکروں کو مقابلہ کرنے سے رہے۔ اگلے ماہ ممکنہ طور پر ہم کم از کم ایک جماعت کے لشکر کو عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مقابل دیکھیں گے۔ عوام کی عدالت سے رد ہونے کے بعد اُنھوں نے دبائو اور پریشر کی سیاست اختیار کی ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے وہ نظام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں مگر دیگر سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے بغیر طاہرالقادری کے مشہور دھرنوں کی طرح خالی ہاتھ، یا فیض آباد دھرنے کی طرح ہاتھوں میں لفافے تھامے گھروں کو رخصت ہوں گے۔ خاطر جمع رکھیں، ہماری سیاسی جماعتوں میں ابھی امام آیت اﷲ روح اﷲ خمینی پیدا ہونا باقی ہے۔ ہمارے سیاسی نظام میں تمام تر قباحتوں کے باوجود نفرت اور مزاحمت کا وہ جذبہ موجود ہے جو ایرانی عوام میں شاہ کے خلاف تھا۔ اب بعض جماعتوں کی صفوں سے نکلنے والے شدت پسند گروہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا کر بھی دیکھ لیا۔ اقتدار کے معاملات سڑکوں پر نہیں، انتخابات کے ذریعے طے ہوتے ہیں۔ ملا کو اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اُسے آپ بار بار سڑکوں پر دوڑتا دیکھیں گے۔ اب تو ماشااﷲ پاکستان کی سڑکیں بہت چوڑی اور طویل ہیں۔ مسافت بہت طویل اور کٹھن ہے۔ کئی میل طے کرنے پڑیں گے، لیکن شاید منزل پھر بھی نہ آئے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved