انتخابی مہم سے ووٹ ڈالنے تک جو بھی کچھ ہے وہ راستہ ہے۔ اِس راہ میں جو کچھ بھی کیا ہو اُس کا نتیجہ منزل تک پہنچاتا ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جسے ہر معاملے میں شُغل میلے کی عادت پڑگئی ہے۔ ہم راہ کی رنگینیوں میں گم ہوکر منزل کے تصور کو ذہن سے کُھرچ پھینکتے ہیں۔ جلسے، ریلیاں، تقاریر اور پولنگ سبھی کچھ بہتر حکمرانی کے لیے ہے۔ اگر ووٹ کے درست استعمال پر توجہ نہ دی جائے تو یہ ساری مشق لاحاصل رہتی ہے۔ اللہ کرے کہ کل اِس قوم نے حواس پر قابو پاکر دُرست فیصلے کیے ہوں اور اِس بار جمہوریت کے بیضۂ بُوم سے ہُما پیدا ہو! ایک ماہ سے پوری قوم کو بہت زور سے انتخابی مہم آئی ہوئی تھی۔ جوش و خروش ایسا تھا کہ میلۂ مویشیاں یاد رہا نہ سرکس۔ دیہات کے لوگ نوٹنکی بھی بھول بھال گئے! اگلے وقتوں کی پنجابی فلموں نے سیاسی جلسوں میں دوبارہ سانس لینا شروع کیا۔ انتخابی مہم جب درجۂ کمال کو پہنچی تو ون ٹو کا فور بن گئی۔ یعنی ایک ہی جلسے میں نوٹنکی والوں کی عوامی ایکٹنگ بھی تھی، سرکس کے کرتب بھی تھے، مویشی منڈی کا سماں بھی تھا اور بچت بازار کی رنگینی بھی۔ اپنی اپنی سیاسی دُکان سجائے بیٹھے ہوئے لوگ جلسوں میں پُکار، بلکہ للکار رہے تھے کہ بولو جی، تم کیا کیا خریدوگے! ایک جلسے میں سرکس کے مینیجر سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے پوچھا کیا شیر خریدنے آئے ہیں؟ بولے جی نہیں، سرکس میں کاغذ اور بُھوسے کے شیر نہیں چلتے! ہم نے پوچھا جب آپ کو شیر نہیں چاہیے تو جلسے میں کیوں آئے؟ کہنے لگے ہم نے سرکس کا ہر تماشا جلسوں میں نئے انداز سے پایا ہے۔ ہمارے سرکس کے کرتب پُرانے ہوگئے، گِھس پٹ گئے۔ فنکاروں کو ساتھ لایا ہوں کہ چند نئے کرتب سیکھیں! ہم نے پوچھا باقی فنکار تو نظر آ رہے ہیں، جوکر کہاں رہ گیا؟ معلوم ہوا کہ وہ ایک جلسے میں گیا تھا۔ وہاں پیش کی جانے والی کامیڈی اُس سے ہضم نہ ہوسکی۔ ہیضہ ہوگیا، اسپتال میں پڑا ہے! سیاسی بھائیو! اِتنی کامیڈی پیدا مت کیا کرو کہ قوم ہنستے ہنستے اَدھ مُوئی ہو جائے! جہاں لوگ خوشیوں کو ترستے رہتے ہوں وہاں ہر چیز رفتہ رفتہ انفوٹینمنٹ میں تبدیل ہوتی جاتی ہے۔ جُگت اور بڑھک سے لبریز پُرانی پنجابی فلموں کو رونے والے اب جلسوں میں بے ٹکٹ جاتے ہیں اور اپنی پسندیدہ فلموں کا مزا پانے کے ساتھ ساتھ ’’دی اینڈ‘‘ میں مُفت لنگر کا بونس بھی پاتے ہیں! اقبال حسن آج ہوتے تو للکارنے کے نئے انداز سیکھتے۔ سُلطان راہی ہوتے تو کافروں کو للکارنے والے مکالموں کے پھیپھڑوں میں تازہ ہوا بھرتے! اگر انجمن آج بھی فلموں میں ہوتیں تو سیاسی جلسوں کی دھماچوکڑی سے کچھ نئی ادائیں سیکھتیں، چند نئے اور انوکھے ٹھکمے لگاتیں! مسرت شاہین فلموں سے سیاست میں آئی ہیں مگر ہوسکتا ہے کہ وہ بھی سیکھنے کے مشن پر ہوں! کیا پتہ وہ چند نئے ایکشن سیکھ کر جائیں اور فلموں میں دوبارہ نام کمائیں! انتخابی مہم ایسی راہ ہے جس پر گامزن ہونے والے منزل کو بُھول جاتے ہیں۔ یاروں نے تجوریوں کے مُنہ کھول دیئے۔ پیسے کے بل پر اِنسان اُچھلتا ہے۔ مگر انتخابات قریب آئے تو پاکستان میں اُچھلنے اور اُچھالنے کے لیے پگڑی رہ گئی! سُنا ہے آخر آخر میں تو کیچڑ کم پڑ گیا! اب کے اہل سِتم نے کیچڑ اُچھالا کم ہے، ضائع زیادہ کیا ہے! اگر یہی حال رہا تو کل کلاں کو ہمیں کیچڑ بھی درآمد کرنا پڑے گا! گندی نالیاں سُکون سے بہتی رہیں۔ اُن میں پلنے والے کیڑے امیدوار اور اُن کے حامی اپنے مخالفین میں تلاش کرتے رہے! الزامات کی توپیں دَغتی رہیں۔ کل تک گالیاں سُن کر لوگ مُنہ پر ہاتھ رکھ کر ’’آ۔آ۔‘‘ کیا کرتے تھے۔ اب گالیاں سوفٹ ویئر کا درجہ رکھتی ہیں۔ سیاسی حریف گالیوں کے ذریعے ایک دوسرے کو ’’اپ گریڈ‘‘ کرتے ہیں۔ اور اِن گالیوں کو سُن کر لوگ خود کو ’’اپ ڈیٹ‘‘ کرتے ہیں! گالیوں کے تبادلے سے خاندان کے خاندان پل بھر میں بے نقاب، بلکہ بے لباس ہو جاتے ہیں! ایک کہتا ہے تو چور۔ جواب میں دوسرا کہتا ہے تو چور، تیرا باپ چور! پہلا کہتا ہے تو، تیرا باپ اور تیرا پورا خاندان چور! لیجیے ایک ہی جملے میں پورا خاندان نمٹ گیا! سیاسی حریف ایک دوسرے کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ پورا بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے آپ کو کامن سینس ڈاٹ کام کا وزٹ کرنا پڑے گا! کِسی زمانے میں سُلطان راہی اسکرین پر ہاکی لے کر نکلتے تھے اور پورے لاہور کو تیر کی طرح سیدھا کردیتے تھے۔ اُس زمانے کے لاہوری بھی کِتنے سیدھے تھے کہ ایک ہاکی سے سیدھے ہو جاتے تھے! سُلطان راہی تو اب رہے نہیں۔ اور ہاکی بھی برائے نام رہ گئی ہے۔ ایسے میں بَلّا اُمّیدوں کا مرکز ٹھہرا۔ اب یہ تو بعد میں پتہ چلے گا کہ وہ کِتنا بَلّا اور کیسی بَلا ہے! دوسری طرف شیر کھڑا تھا۔ ن لیگ والے کہتے رہے کہ 11 مئی بَلّے کی موت کا دِن ہے۔ یعنی شیر بَلّے کو کھا جائے گا۔ کہتے ہیں کہ شیر اگر واقعی شیر ہے تو لاکھ بھوکا ہو، گھاس نہیں کھائے گا۔ ہم نہ سمجھ پائے کہ یہ کیسا شیر تھا جو لکڑی کا بَلّا کھانے کو بے تاب تھا! تیر والے خاصے خاموش رہے۔ شاید اُنہیں خود اُنہی کی کارکردگی نے سُونگھ لیا تھا! لوگ منتظر رہے تیر اب چلا کہ تب چلا مگر جناب! جب ہائی کمان ہی تتر بتر ہو تو تیر کیسے چلے! عوام کا پیٹ انفوٹینمنٹ کی رنگینیوں سے بَھر گیا تو نیند کا خُمار ٹوٹا اور دوسری طرف بیلٹ بکس کی گہری نیند بھی ختم ہوئی۔ دونوں انگڑائی لے کر بیدار ہوئے۔ صد شُکر کہ ہمارے ہاں انتخابات باقاعدگی سے ہو رہے ہیں یعنی ہم اپنی مرضی کی نا اہل حکومت باقاعدگی سے منتخب کر رہے ہیں! گیارہ مئی کا سُورج طلوع ہوا تو ووٹرز گھروں سے نکلے۔ ڈیڑھ دو ماہ سے اُن کی جو آؤ بھگت ہو رہی تھی کل اُس کا درجۂ کمال تھا۔ آپ کے ووٹ کو للچائی نظر سے دیکھنے والا ہر شخص نظر کرم کا طالب تھا۔ پرابلم یہ تھی آپ کے پاس لے دے کر بس ایک ہی نظرکرم تھی۔ کِس کِس کی جھولی میں ڈالتے؟ کل جو آپ کے سَر پر بھی سوار ہوسکتے ہیں وہ کل آپ کی راہوں میں دِل تھام کے، ہاتھ باندھ کے کھڑے تھے۔ بیلٹ پیپر تو آپ کے لیے جادو کی چَھڑی بن گیا! پلک جھپکتے میں آپ امیدوں کا مرکز بن گئے۔ بلکہ خود آپ کو بھی معلوم نہ تھا کہ آپ کل کیا کیا تھے! ہر طرف سے آپ کو پُکارا جارہا تھا۔ آپ حیران تھے کہ اچانک دُنیا اِتنی حسین کیسے ہوگئی! ووٹ ڈالنے والوں کو اِتنی بھرپور توجہ اور محبت ملے تو حواس گم ہو جاتے ہیں! ایسے میں اِنسان غلطی کر بیٹھتا ہے جس کے نتیجے میں سَر پر وہ لوگ سوار ہو جاتے ہیں جو کام اُتار کے اُترتے ہیں! آپ کا ووٹ پاکر کوئی شادیانے بجانے کی تیاری کرنے لگا اور کِسی کے چہرے پر ناکامی کا ڈنکا بجنے لگا! آپ کو شاید اب تک معلوم نہیں کہ آپ کے ووٹ نے کیا گُل کِھلائے ہیں۔ آپ پر اعتبار نے کِسی کو دریا پار کرادیا اور کوئی آپ پر بھروسہ کرکے لہروں کی نذر ہوا! یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ آپ نے ووٹ اہل امیدوار کو دیا ہے تو ٹھیک۔ لیکن اگر غلط آدمی کو پڑگیا تو سمجھ لیجیے آپ کی بھی خیر نہیں! جو آپ سے ووٹ کی بھیک مانگ رہا تھا، اب مُدتوں دِکھائی نہیں دے گا۔ ع اب اُسے ڈھونڈ چراغ رُخ زیبا لے کر!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved