مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ ہر اُس انسان کا دل دُکھانے کے لیے کافی ہے ‘جو دوسروں کے درد کا احساس رکھتا ہو اور اُن کی مشکلات کو دور کرنے کا آرزو مند ہو۔ 80 لاکھ سے زائد محصور کشمیریوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ مودی سرکار اپنی مرضی کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے۔ عالمی برادری کشمیر کی صورتِ حال پر اپنا ردِعمل بھی ظاہر کرچکی ہے اور مودی سرکار سے کہا جارہا ہے کہ ایک بسی بسائی آبادی کو جہنم میں تبدیل کرنے سے گریز کرے۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر جنرل اسمبلی سے سربراہی خطاب کے دوران بھارت پر تنقید کا حق ادا کرنے والوں میں ترک صدر رجب طیب اردوان اور ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نمایاں رہے۔ ملائیشیا سے بھارت کے اقتصادی روابط بہت اچھے رہے ہیں۔ پام آئل ملائیشیا کی سب سے بڑی زرعی پیداوار ہے اور بھارت ملائیشین پام آئل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ جنوری 2019ء سے ستمبر 2019 ء تک بھارتی تاجروں نے ملائیشیا سے 2 ارب ڈالر مالیت کا 39 لاکھ ٹن پام آئل خریدا۔ یہ تب کی بات ہے جب مہاتیر محمد نے بھارت پر تنقید کے تیر نہیں برسائے تھے۔ جنرل اسمبلی سے اُن کے خطاب میں بھارت بھی مذکور ہوا۔ یہ ذکر مقبوضہ جموں و کشمیر کی ناگفتہ بہ صورتِ حال کے حوالے سے تھا۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے جن عالمی رہنماؤں کی طرف سے بھرپور تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ اُن میں مہاتیر محمد سب سے نمایاں رہے ہیں۔ خیر‘ ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی بھارتی سرکار کو لتاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
خبر یہ ہے کہ بھارتی تاجروں نے ملائیشیا سے پام آئل خریدنا بند کردیا ہے۔ اب‘ انڈونیشیا اور یوکرین کے پام آئل پروڈیوسرز کو آرڈر دیئے جارہے ہیں۔ جے پور میں قائم کٹس سینٹر فار انٹر نیشنل ٹریڈ‘ اکنامکس اینڈ انوائرنمنٹ کے سربراہ بپل بینرجی کہتے ہیں کہ امریکا خارجہ پالیسی کے میدان میں اپنی بات منوانے کے لیے تجارت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ اب ‘بھارت بھی اِس روش پر گامزن ہونا چاہتا ہے۔ ابتداء ہوگئی ہے۔ جنرل اسمبلی سے خطاب میں کشمیر کے معاملے پر مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنانے پر مہاتیر محمد کے خلاف ٹوئٹر پر مہم چلائی گئی تھی ‘جس میں ملائیشیا کے معاشی بائیکاٹ کی کال بھی دی گئی تھی اور بھارتی باشندوں سے کہا گیا تھا کہ ملائیشیا جانے سے گریز کریں۔
مودی سرکار نے اب تک ملائیشیا کے خلاف باضابطہ طور پر کسی بڑی کارروائی کا اعلان نہیں کیا ہے۔ مہاتیر محمد نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ بھارت اگر باضابطہ طور پر کچھ کرے گا ‘تو جواب دیا جائے گا۔ فی الحال بھارتی تاجر ذاتی حیثیت میں تجارت روکنے کی طرف مائل ہیں۔ اُن کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ اگر مودی سرکار نے بھارتی تاجروں کو ملائیشیا کے خلاف جانے کی ہدایت کی ہو تو اور بات ہے۔
خیر‘ ایشیا میں تجارتی معاملات دو حوالوں سے مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ پہلے تو جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان کشیدگی سے دو طرفہ تجارت متاثر ہوئی ‘جس کا شدید منفی اثر علاقائی تجارت پر بھی مرتب ہوا۔ اس کے بعد چین امریکا تجارتی تعلقات میں کشیدگی در آئی۔ ٹیرف کے معاملے پر امریکا نے چین کے خلاف اقدامات کی ٹھانی تو علاقائی تجارت پر شدید منفی اثرات مرتب ہونے لگے۔ معاملات کو فوری طور پر درست کرنے کی کوشش کی گئی ‘تاکہ عالمی معیشت کو لڑکھڑانے سے روکا جاسکے۔ امریکا لاکھ بڑھکیں مارے‘ وہ خود بھی عالمی معیشت میں کسی بڑی خرابی کا فی الحال متحمل نہیں ہوسکتا۔
بہر کیف‘ بھارت نے تجارت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ابتداء کی ہے۔ بھارتی سیاست میں یہ نیا ''رجحان‘‘ ہے۔ مودی سرکار نے اِس سے قبل اندرونی سیاست و معاشرت میں کئی رجحانات متعارف کرائے ہیں۔ ایک رجحان تو ہے ‘جنونی ہندوؤں کے ہجوم کے ہاتھوں نہتے مسلمانوں پر تشدد اور قتل کا۔ اس رجحان نے بھارت میں بہت کچھ داؤ پر لگادیا ہے۔ ایک اور رجحان ہے‘ اچھی خاصی ترقی کو برقرار رکھنے کی بجائے اُسے داؤ پر لگانے والے اعمال کے ارتکاب کا۔ ہندو بنیاد پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے اساسی ''مفکر‘‘ ویر ساورکر کی سوچ کو اپناکر بھارت کی سرزمین پر صرف ہندوؤں کا حقِ سکونت تسلیم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس معاملے میں سب سے گھناؤنا کردار وزیر داخلہ امیت شاہ نے ادا کیا ہے۔ یہ سب کچھ بھارت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے ‘مگر پھر بھی مودی سرکار سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔
امریکا اور یورپ کی تقلید کرنے سے پہلے مودی سرکار کو یہ تو دیکھنا چاہیے کہ کسی بڑے اقدام کی اوقات بھی ہے یا نہیں۔ حالات کی نوعیت ایسی ہے کہ امریکا بھی کوئی بڑا قدم اٹھاتے ہوئے ڈرتا ہے۔ اب ‘اسی بات کو لیجیے کہ شام کے مسئلے پر ترکی کو لتاڑنے کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک معیشت کو تباہ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ انہوں نے ترک ہم منصب کو دھمکی آمیز خط بھی لکھا ہے۔ اس خط میں خاصی اہانت آمیز زبان استعمال کی گئی ہے۔ انقرہ سے خبر آئی ہے کہ ترک صدر نے امریکی ہم منصب کا خط ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ یہ بالکل درست اقدام تھا۔ امریکی صدر کی دھمکی کتنی کھوکھلی اور مضحکہ خیز تھی‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ٹرمپ کے لیے نائب صدر اور وزیر خارجہ کو انقرہ بھیجنا لازم ہوگیا! جگت کے سے انداز سے کسی ترقی یافتہ ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کی دھمکی دینا جگ ہنسائی کا سبب بنتا ہے۔ ویسے بھی امریکی صدر نے اب تک جو کچھ بھی کیا ہے‘ اُس کا انداز کم و بیش ''جوکرانہ‘‘ رہا ہے۔
ٹرمپ نے امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد سے اب تک متعدد مواقع پر خاصی مضحکہ خیز حرکتیں کی ہیں۔ وہ سیاست کو سرکس میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ مگر خیر‘ ایسا کرنے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ اوقات تو درکار ہوا ہی کرتی ہے۔ نریندر مودی سوچیں کہ اُن کے دامن میں کیا ہے۔ کشمیر پالیسی پر ملائیشیا کو سزا دینے کی بھارتی روش اگر تیاری کے بغیر ہے تو ایسا جال بھی ثابت ہوسکتی ہے ‘جس میں وہ خود بھی پھنس سکتا ہے۔ بھارت‘ اس وقت شیشے کے گھر جیسا ہے۔ شیشے کے گھر میں بیٹھنے والے دوسروں کو پتھر نہیں مارا کرتے۔ کشمیر کے حوالے سے مخالف موقف رکھنے پر بھارت نے اگر کسی مضبوط اسلامی ملک کے خلاف جانے کی کوشش کی تو اُس کا اپنا بھی بہت کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے۔ ملائیشیا اور بھارت کے روابط بہت اچھے رہے ہیں۔ محض کشمیر پالیسی کے حوالے سے ملائیشیا کو ہدف بنانا بھارت کے خلاف جاسکتا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے بھارتی پالیسی کا شدید ناقد تو ترکی بھی ہے۔ اب‘ کیا ترکی کو نشانے پر لینے کی کوشش کی جائے گی؟ نئی دہلی کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ انقرہ نے واشنگٹن سے ٹکرانے میں بھی کوئی خاص قباحت محسوس نہیں کی ہے۔ ایک سال قبل بھی امریکا نے ترک کرنسی کو ڈبونے کی کوشش کی تھی‘ مگر چند ماہ میں توبہ کرلی۔ کشمیر کے حوالے سے اختلافات کو بنیاد بناکر اسلامی دنیا کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھانے سے کہیں بہتر اور قرینِ دانش یہ ہے کہ مودی سرکار حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور کشمیریوں کے ساتھ ساتھ بھارت بھر میں بسے ہوئے اقلیتی برادری کے ارکان کے حقوق غصب کرنے سے گریز کرے۔ ''تادیب‘‘ کا شوق پھر کبھی پورا کیا جاسکتا ہے۔