لانگ مارچ‘ آزادی مارچ ‘دھرنے کی تاریخ جُوں جُوں قریب آتی جارہی ہے ‘چاروں اطراف کے سیاسی اور غیر سیاسی کھلاڑی ‘مرئی اور غیر مرئی قوتیں‘ ہم خیال تاجر تنظیمیں‘ٹریڈ یونینز‘ اسے کامیاب اور ناکام بنانے کے لیے نت نئے حربے اختیارکررہی ہیں۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سوشل میڈیااور میڈیا پرجھوٹا سچا پروپیگنڈا عروج کی طرف بڑھ رہا ہے۔گڑے مردے اکھاڑ اکھاڑ کر لائے جارہے ہیں۔سیاسی رہنماؤں کی زمانہ امن کی تصویریں حالتِ جنگ میں دکھا اور پھیلا کرمخالفین کی حب الوطنی کے بارے میں شکوک وشبہات کے وسوسے پیدا کئے جارہے ہیں۔مخالفین پر حملے بھی بڑھتے جارہے ہیں اور اگر یہ کشیدگی مزید آگے بڑھی ‘تو پھر اس تصویری نمائش کی جنگ کا کبھی اختتام نہیں ہوگا کیونکہ آرکائیو زمیں ایک سے بڑھ کر ایک نایاب تصویر موجود ہے ‘جو بوقت ِ ضرورت استعمال ہوسکتی ہے۔جس کا زیادہ نقصان ہمیشہ حکومت ِ وقت کو ہوتا ہے۔
دھرنے ‘لانگ مارچ ‘آزادی مارچ کے بارے میں ماضی میں کس جماعت اور رہنما کا کیا موقف تھا ؟وہ الیکٹرانک میڈیا پر بار بار نشر کیا جاتا ہے اور انہی رہنماؤں کو ان کے سامنے سنایا جاتاہے کہ حضور ماضی میں آپ نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔جن رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کے نزدیک دھرنے اور لانگ مارچ حرام تھے ‘ آج وہ حلال ٹھہرا رہے ہیں اور جو ماضی میں ان کو حلال کہتے تھے ‘ان کے نزدیک آج دھرنے کلیتاً نا صرف حرام ہیں‘ بلکہ حرام سے بھی آگے کی چیز ہے۔الیکٹرانک میڈیا کے معرضِ وجود میں آنے اور ہر بیان‘ تقریر‘ پریس کانفرنس اورانٹرویو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہونے کے بعد اب کوئی رہنما یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔سو‘ وہ آئیں بائیں شائیں کرتا ہوا اپنے مخالف پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیتا ہے۔اور یوں ٹاک شو کا وقت گزر جاتا ہے۔؎
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مْجھ سے حافظہ میرا
ہمارا سیاسی کلچر بھی ایک ہی ڈگر پر چل رہا ہے۔ سو‘ یوں سمجھیں کہ جو کْچھ وقوع پذیر ہے ‘یہ سب کْچھ محض ایک ''نشر مکرر‘‘ہی ہے۔فزکس‘ کیمسٹری ایسے سائنسی علوم کی طرح سیاسیات کے کْچھ اصولوں کو بھی سائنس کا درجہ حاصل ہے ‘اسی لئے سیاسیاست کے بڑے بڑے جیّد علما اور سیاسی مفکر مثلاً؛ ارسطو‘ افلاطون‘ ہابز‘جان لاک‘روسو اورہیگل نے بھی اس مضمون کو پولیٹیکل سائنس کا نام دیاہے۔جیسے پانی کا فارمولہ ایچ ٹواو ہے‘ یعنی دوپورشن ہائیڈروجن اور ایک پورشن آکسیجن کو ملایا جائے تو پانی بنتا ہے۔اس فارمولے سے کبھی بھی چائے یا کافی نہیں بن سکے گی۔اسی طرح حکومتیں گرانے‘ کمزور کرنے‘ اپنے ظاہری اور مخفی مطالبات منوانے اور ایسے سیاسی اہداف جو پُرامن طور پر پورے ہوتے ہوئے نظر نہ آرہے ہوں‘ اور اپنے مخالف کی سیاسی بقا میں اپنی سیاسی موت نظر آرہی ہو تو پھر تمام ایلو پیتھی ‘ہومیو پیتھی اورسیاسی حکمااس کے لیے دھرنا ‘آزادی مارچ اور لانگ مارچ تجویز کرتے ہیں۔اگر پاور پلیئرز ریاست کی بنیادی پالیسی اور سالہا سال سے جاری نظریاتی جہت کواپنی دانست میںصحیح سمت کی طرف موڑنے کے لیے قدم بڑھاتے ہیں ‘تو ایسی کوشش کو روکنے کے لئے بھی اسی نوعیت کے احتجاج تجویز کئے جاتے ہیں۔بعض اوقات اس طرح کے اقدامات میں اندرونی کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ بیرونی کھلاڑیوں کا کردار بھی شامل ہوتا ہے۔
ترکی میں طیب اردوان کی حکومت گرانے کے لیے ناکام فوجی بغاوت کروائی گئی اور مصر میں مورثی کی حکومت گرانے کے لیے تحریر سکوائر میں کامیاب دھرنے کا اہتمام کیا گیا۔اکثر اوقات پاور پلیئرز یہ لڑائی اپنی اپنی ''پراکسی‘‘کے ذریعے ہی لڑتے ہیں‘ تاکہ وہ اور ان کے مفادات محفوظ رہیں۔مولانا فضل الرحمن کا یک طرفہ دھرنا دھرنے سے آزادی مارچ اور شہباز شریف کا اس سارے منصوبے کو ایک جلسے تک محدود کرنے کا اعلان ابھی تک ایک معما ہی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب حکومت اس دھرنے کو سیاسی اور انتظامی‘ دونوں طرح سے نمٹنے کی دو رویہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہوچکی ہے۔حکمران جماعت کی کور کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اپوزیشن کو ڈی فیوز کرنے کے لیے اتحادی جماعتوں کو بھی ساتھ لیا جائے اور وہ بھی حکومت کے اچھے برے کی اونر شپ لیں۔جس کے بعد اس کمیٹی میں چوہدری پرویز الٰہی اور چیئر مین سینیٹ کو بھی شامل کیا گیا۔گو کہ وزیراعظم عمران خان بضد رہے کہ مولانا اور دھرنے کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے‘جس کا اظہار انہوں نے کمیٹی کی تشکیل کے کْچھ ہی دیر بعد مولانا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کر دیا اور کہا کہ یہ حکومت ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے۔وزیراعظم سے پھر درخواست کی گئی کہ ایسی باتوں کے لیے یہ وقت مناسب نہیں ہے۔دوسری جانب مولانا شہباز شریف کو بھرپور شرکت کے لیے بھی آمادہ نہ کرسکے اور شہباز شریف کی طرف سے واضح کیا گیا کہ وہ صرف ایک روزہ جلسے میں شریک ہوں گے اور کسی مزاحمتی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے اور اگر مولانا گرفتار ہوگئے تو پھر شہباز شریف جے یو آئی کی دوسرے درجے کی قیادت کے ساتھ جلسے میں بھی شریک نہیں ہوں گے۔
یہ اشارہ تھا کہ سب کی فیس سیونگ کے لئے اگر مولانا کو گرفتار کرلیا جائے‘ تو پھر صورتحال خود بخود ہی ڈی فیوز ہوجائے گی۔جیسا کہ عمران خان کے اعلان کردہ لاک ڈاؤن کو غیر موثر کردیا گیا تھا۔عمران خان کو بنی گالہ سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا تھا اور پرویز خٹک کو اٹک پل پر روک دیا گیا تھا۔بہرحال حکومتی ٹیم کو مولانا عبدالغفور حیدری کی طرف سے مذاکرات کرنے کے لیے اپنی رہائش گاہ پر بلانے سے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے شدید احتجاج اور دباؤ کے بعد پہلی بار مولانا کو سولو فلائٹ منسوخ کرنا پڑی اور اب یہ معاملہ رہبر کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے۔یعنی معاملات اب دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے پاس جاچکے ہے۔ اب ‘حکومت سے مذاکرات کرنے‘ کسی نتیجے پر پہنچنے اور حکومت مخالف تحریک کی نوعیت اور اس کو آگے بڑھانے کے لیے حکمت عملی بھی انہی جماعتوں کی قیادت ہی تیار کرے گی۔مولانا کو اب سولو فلائٹ کی اجازت نہیں ہوگی۔
دوسری جانب سب سے بڑے پاور پلیئر یہ واضح کرچکے ہیں کہ اس موقع پر جب مشرقی اور مغربی سرحدوں پر صورت حال انتہائی نازک ہے اور خطے میں ہونے والی سیاسی اور سکیورٹی تبدیلیوں اورسی پیک کا دوسرا کامیاب مرحلہ شروع ہونے کے موقع پر ملک میں عدم استحکام کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی‘کیونکہ داخلی عدم استحکام کو دیکھتے ہوئے بھارت نے بھی لائن آف کنٹرول پر لڑائی اور جھڑپوں میں اضافہ کردیا ہے‘جس کاجواب افواجِ پاکستان نے گزشتہ روز بھرپور طریقے سے دیا۔
آئندہ چند روز میں حکومت اور اپوزیشن کی مذاکراتی ٹیمیں میدان میں اترنے والی ہیں‘ لیکن اس سے پہلے رہبر کمیٹی کی بیٹھک ہوگی‘جس میں وہ اعتماد سازی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے حکومت سے اپنے ''سیاسی قیدیوں‘‘کی رہائی کا مطالبہ کرسکتی ہے۔مولانا کی طرح اب شاید عمران خان بھی سولوفلائٹ نہ لے سکیں۔اگر مولانا رہبر کمیٹی کا فیصلہ تسلیم نہیں کرتے اور اپنے دھرنے کے فیصلے پر قائم رہتے ہیں تو پھر دال میں بہت زیادہ کالا ہے۔