9مئی 2013ء آج دوپہر میں گھر پر کچھ مہمان کھانے پہ آئے تھے۔ کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔ اس کے بعد سب کے درمیان 11مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے بحث کا آغاز ہوا، اتفاق سے مہمانوں میں نوجوانوں کی اکثریت تھی۔ نوجوان بھی وہ جو ابھی ووٹ دینے کی عمر کو نہیں پہنچے تھے مگر میں نے دیکھا کہ سیاسی گفتگو اور بحث میں وہ بڑھ چڑھ کر اپنا نقطہ نظر بیان کررہے تھے۔ کوئی شیر کی حمایت میں تھا تو کوئی نیا پاکستان بنانے کے لیے بلّے کے حق میں بول رہا تھا۔ ان سب کا کہنا تھا کہ کاش ہمارا بھی ووٹ ہوتا تو ہم ضرور ووٹنگ کے عمل میں شریک ہوتے۔ میں نے نوٹ کیا کہ، سولہ، سترہ ، سال کی عمروں کے یہ ینگسٹرز آج خلاف معمول، اپنے فیورٹ راک سٹارز‘ فیس بک اور پسندیدہ فلموں کی گفتگو نہیں کررہے تھے بلکہ سب کی گفتگو کا مرکز ومحور پاکستان تھا۔ سب کی آنکھوں میں ایک ہی خواب تھا کہ پاکستان کا یہ لہولہان جسم، اب مرہم کا طلبگار ہے۔ سب کے جذبے ایک ہی اعلان کررہے تھے کہ پاکستان کو دیانتدار اور اچھی قیادت نصیب ہو۔ ان سب کی گفتگو سن کر میں سوچ رہی تھی کہ کون کہتا ہے کہ ہمارے نوجوان پاکستان سے محبت نہیں کرتے۔ وہ تو اس قدر باشعور ہیں کہ وہ جانتے ہیں ان کا مستقبل اسی ملک سے وابستہ ہے۔ 10مئی 2013ء آج 10مئی ہے صبح کا آغاز تو گرمی سے ہی ہوا مگر شام میں موسم خاصا خوشگوار ہوگیا۔ ہلکی پھلکی بارش نے مئی کی شام کو بے حد خوبصورت کردیا، خریداری کے لیے باہر نکلے تو خلاف معمول سڑکوں پر زیادہ رش نہیں تھا۔ کچھ خاموشی سی محسوس ہوئی۔ شاید اس کی وجہ یہی تھی کہ پچھلے چند روز سے جاری مختلف سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم الیکشن کمیشن کے ضابطہ قانون کے مطابق الیکشن سے ایک روز پہلے ختم ہوگئی تھی۔ سڑکوں پر زیادہ تر جماعت اسلامی ، ن لیگ اور تحریک انصاف کے پوسٹر ز نظر آرہے تھے۔ کہیں کہیں آزاد امیدواروں اور پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار بھی بینرز پر ووٹ مانگتے دکھائی دے رہے تھے۔ بارش میں بھیگی سڑکیں۔ سیاسی جماعتوں کے بھیگے پوسٹرز۔ انتخابی گہما گہمی میں کمی۔ اور عام پاکستانیوں کے بولتے ہوئے چہرے۔ بہتراور پُرامن پاکستان کی خواہش میں جلتی آنکھیں بہت کچھ کہہ رہی تھیں۔ میرے موبائل پر صبح کی گھنٹی بجی۔ دیکھا تو نیوزالرٹ تھا۔ پشاور کے ایک انتخابی حلقے میں بم دھماکہ ہوا۔ یااللہ خیر۔ بے اختیار منہ سے نکلا۔ کل کا دن امن وامان سے گزرے۔ دل میں بہت سے خدشے اور وسوسے ہیں مگر ہرپاکستانی کے لب پر دعا ہے کہ یہ انتخابات ہمارے وطن کے لیے خوش بختی کے موسم لے کر آئیں‘ آمین۔ کبھی کا پڑھا ہوا صابر ظفر کا یہ شعر ہمیشہ حوصلہ دیتا ہے۔ خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک گزر ہی جائے گی یہ رت بھی حوصلہ رکھنا 11مئی 2013ء آج میں علی الصبح بیدار ہوگئی اور نماز کے بعد اپنے ملک کی سلامتی کے لیے بہت دعائیں کیں۔ پچھلی رات کی بارش سے صبح کا چہرہ دُھلا ہوا اور تروتازہ تھا۔ موسم بھی خوشگوار تھا۔ آج پہلا کام میں ووٹ ڈالنے کا ہی کرنا چاہتی تھی سوچائے کا ایک گرما گرم کپ پیا اور قریبی پولنگ سٹیشن چلی گئی۔ ووٹنگ کا عمل آٹھ بجے شروع ہونا تھا اور میں آٹھ بج کر دس منٹ پر وہاں موجود تھی مگر حیرت اس بات پر کہ خواتین اور مرد ووٹروں کی لمبی لمبی قطاریں پہلے سے موجود تھیں اور ان ووٹرز میں بزرگ، نوجوان اور بیمار لوگ بھی شامل تھے۔ بزرگوں اور بیماروں کے لیے ایک دو بنچ بھی رکھے ہوئے تھے۔ ووٹ دینے کے لیے آئی ہوئی چند طالبات سے بات چیت ہوئی۔ حنا، پولیٹیکل سائنس کی طالبہ تھی اور وہ اپنی زندگی کا پہلا ووٹ دینے آئی تھی۔ وہ بہت پُرجوش تھی کہ جمہوری عمل میں میرا بھی ووٹ ہے اور میرے ووٹ کی اہمیت ہے ۔ وہاں موجود زیادہ تر لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ یہاں تو ساڑھے سات بجے سے ہی لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوگئے تھے۔ مجھے عام پاکستانیوں کا اپنے وطن کے لیے یہ جذبہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ لوگوں میں ووٹ کا شعور بیدار کرنے میں میڈیا کا کردار ہی بہت اہم ہے۔ میں نے بھی آج اپنی زندگی کا پہلا ووٹ ڈالا۔ پولنگ بوتھ سے باہر نکلی اور اچٹتی ہوئی ایک نگاہ، قطاروں میں لگے ووٹرز پر ڈالی، مختلف عمروں مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے ان گنت چہرے مجھے ایک ہی خال وخد میں ڈھلے دکھائی دیئے۔ سب کی آنکھوں میں ایک ہی خواب جگمگا رہا تھا اور وہ خواب تھا پُرامن، اور خوشحال پاکستان کا خواب۔ آج ہم سب لوگ پاکستان کو ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نکلے تھے۔ احمد ندیم قاسمی کے دوخوب صورت شعر بے اختیار یاد آئے۔ خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُترے وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو خداکرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے حیات جُرم نہ ہو‘ زندگی وبال نہ ہو گھر آکر ٹی وی آن کیا تو چند بڑی خبریں تھیں۔ کراچی کے کئی حساس حلقوں میں پولنگ 12بجے تک بھی شروع نہیں ہوسکی تھی۔ کہیں بم دھماکہ ہوا۔ ایک امیدوار سمیت 5اور لوگ بھی مارے گئے۔ دل بہت اداس ہوا۔ یااللہ ہم بہت کٹھن اورلہولہان راستے سے ہو کر آج 11مئی تک پہنچے ہیں۔ جمہوریت کے اس سفر میں یہ دن بے حداہم اور قیمتی ہے ۔ یااللہ منفی قوتوں کو شکست ہو اور مثبت قوتوں کو فتح نصیب کر۔ مجھے امید ہے کل جب 12مئی کو میں ڈائری لکھوں گی تو ایک روشن صبح کا آغاز ہوچکا ہوگا اور پھر کسی روز میں اپنی ڈائری کے صفحے پر روشن اور خوشحال پاکستان کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر یہ خوب صورت شعر لکھوں گی۔ ہم نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لہو چھڑکا تھا پھول اگر اب کے بھی نہ کھلتے تو قیامت کرتے!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved