تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     23-10-2019

نفرت کے بیوپاری

چند دن پہلے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے شہباز شریف کو فون کیا اور کہا، ''اس وقت میرے ساتھ پرویز خٹک بیٹھے ہیں۔ میں ان کی موجودگی میں آپ سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں حصہ لینے سے پہلے آپ حکومت کی قائم کردہ مذاکراتی کمیٹی سے ملاقات کر لیں‘‘۔ شہباز شریف نے جواب دیا، ''آپ قومی اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت سے اس ایوان کے نگہبان ہیں۔ آپ کی نگہبانی میں اسمبلی کے رکن شاہد خاقان عباسی حوالات میں ہیں لیکن آپ انہیں ایوان میں نہیں لا سکے، رانا ثناء اللہ جیل میں ہیں، لیکن آپ پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کر سکے، خواجہ سعد رفیق جیل میں ہیں لیکن ان کے پروڈکشن آرڈر بھی آپ نے جاری نہیں کیے۔ جب آپ قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں تو تحریک انصاف کے حکومت میں ہونے کے باوجود اپوزیشن کو تاؤ دلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ آپ کی جماعت کے وزراء روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنسوں میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ اس ماحول میں مجھے نہیں لگتا کہ آپ سے کوئی مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ آپ کے ٹیلی فون کرنے کا شکریہ‘‘۔ شہباز شریف نے فون بند کیا تو اسد قیصر نے احسن اقبال کو فون ملوایا اور پھر حالات درست کرنے کے لیے کہا۔ جواب میں احسن اقبال نے بھی شہباز شریف کی طرح اپنے جیل میں پڑے ساتھیوں کے نام لیے اور یاد دلایا کہ جناب سپیکر! آپ نے قومی اسمبلی میں ماحول درست کرنے کے لیے کئی بار اپوزیشن کے ساتھ مل کر مذاکرات کیے لیکن آپ کی جماعت کے ارکان نے ہی آپ کا ساتھ نہیں دیا اس لیے ہماری طرف سے معذرت ہی سمجھی جائے۔ ان دو فون کالز سے کچھ پہلے وزیر دفاع پرویز خٹک نے خود مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا لطف الرحمن سے رابطہ کیا اور اپنے پرانے تعلق کا واسطہ دے کر مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کا تقاضا کیا۔ مولانا لطف الرحمن نے کوشش کا وعدہ کیا اور اپنے بھائی کو منانے کی کوشش بھی لیکن ناکام رہے۔ گزشتہ جمعرات کے روز پرویز خٹک نے چودھری پرویز الٰہی کو فون کیا اور کوشش کی کہ وہ مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کا کوئی راستہ ہموار کریں لیکن انہوں نے مولانا سے کوئی بات کی نہ ہی کوئی ذمہ داری لینے کی ہامی بھری۔ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے ذاتی حیثیت میں مولانا عبدالغفور حیدری کے ہاں کھانے پر آنا تھا‘ لیکن جیسے ہی حکومت نے اسے جمعیت علمائے اسلام (ف) سے باقاعدہ رابطے کی کوشش کے طور پر میڈیا میں اچھالنے کی کوشش کی، مولانا نے اپنی دعوت واپس لے لی۔ اس غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمن خود متحرک ہوئے اور اویس نورانی سے لے کر احسن اقبال تک تمام لوگوں سے خود رابطہ کر کے وضاحت پیش کی اور حکومت کی طرف سے مذاکرات کا جواب دینے کا کام رہبر کمیٹی کے ذمے لگا دیا، جس میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے۔ اس کمیٹی نے بات کرنے کے لیے ہامی تو بھری ہے لیکن اس کے ساتھ اتنی شرطیں لگا دی ہیں کہ حکومت کو تھوڑی سی رعایت لینے کے لیے بہت کچھ دینا پڑے گا۔ 
سوال یہ ہے کہ حکومت اس مقام تک کیسے پہنچی جہاں سیاست کا سب سے بڑا فریق ہو کر بھی کسی سے رابطہ نہیں کر پا رہی؟ اس سوال کا جواب وزیر اعظم عمران خان کے رویے میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے جولائی دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں کامیابی کے بعد اگلے دن ہی سب کو ساتھ لے کر چلنے کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کے بعد سے ان کا ہر قدم اور ان کا ہر بیان ان کے اس اعلان کے مخالف پڑا ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو گھسیٹنے کے لیے اپنے دفتر میں بیرسٹر شہزاد اکبر کی سربراہی میں کرپشن سے بنائے گئے اثاثوں کا سراغ لگانے کے لیے نیب کے متوازی نظام بنایا۔ انہوں نے شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بننے سے روکنے کی ناکام کوشش کی۔ شہباز شریف کی طرف سے میثاق معیشت کی پیشکش کو توہین آمیز طریقے سے رد کیا۔ الیکشن کمیشن کے اراکین کا تقرر کرنے کے لیے قائد حزب اختلاف سے مشورے کا دستوری ضابطہ اپنی انا کے بھینٹ چڑھا دیا۔ انہوں نے فروری دو ہزار انیس میں اس وقت بھی ہتک آمیز انداز میں پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہو ں کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا جب بھارت پاکستان پر باقاعدہ فضائی حملے کا ارتکاب کر چکا تھا۔ جیل میں پڑے سیاسی قائدین کے لیے معمولی معمولی سہولتوں کی بندش کے لیے قانون تک بدلنے پر تیار ہو جانا ثابت کرتا ہے کہ عمران خان کے نزدیک جمہوریت اور اختلاف رائے کا احترام بے معنی الفاظ ہیں۔ وزیر اعظم ہو کر بھی انہوں نے سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو ذاتی نفرت کے نشانے پر رکھ کر اپنے لیے سندھ میں کچھ کرنے کے راستے بند کر لیے۔ وہ کام جو وفاقی حکومت با آسانی وزیر اعلیٰ سے لے سکتی تھی اب کراچی کے لیے کمیٹیاں بنانے، توڑنے اور توڑ کر پھر بنانے کے سوا کچھ نہیں کر پا رہی۔ وہ نفرت میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ اپنی جماعت میں بھی اپوزیشن کا گالیاں دینے والے زبان دراز ان کے پسندیدہ ہیں اور سیاسی اختلاف کو شائستگی کی حدود میں رکھنے کے قائل لوگ ناقابل اعتماد۔ پارٹی میں بھی کوئی شخص ایسا نہیں رہا جو اپوزیشن کے ساتھ تعلقات کار بہتر بنانے کا مشورہ بھی دے سکے۔ گزشتہ پندرہ ماہ کے طرز حکومت اور طرز سیاست سے انہوں نے اپنے خلاف اتنی نفرت پیدا کر لی ہے کہ وہ پاکستان کے سیاسی نظام میں اجنبی ہو چکے ہیں۔ انہیں کوئی یہ بتانے والا بھی نہیں کہ ان سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا اور المیہ بن گئے تھے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کو ہوا دیتے رہے لیکن آخر کار انہیں اپنے رویے بدلنا پڑے۔ 
نفرت کی سیاست ابتدائی طور پر کچھ فوائد بھی دیتی ہے۔ مثلاً امریکا میں ٹرمپ نے اکثریت کو اقلیت کی نفرت میں مبتلا کیا اور صدارت تک پہنچ گئے۔ ہندوستان میں مودی نے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کر کے اپنا راستہ بنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سرمایہ داروں اور بھارت کو اپنا ہدف بنا کر اقتدار حاصل کیا۔ عمران خان نے بڑی مہارت سے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کے خلاف جذبات ابھار کر حکومت حاصل کر لی۔ نفرت کا کاروبار کرنے والے سیاستدان کی چار نشانیاں ہوتی ہیں۔ اوّل ، یہ دوسروں کو الزام دیتے ہیں اور خود کو بے قصور سمجھتے ہیں۔ دوم، یہ اپنے آپ کے سوا سب کو غلط سمجھتے ہیں، جو بات نہ مانے بھاڑ میں جائے والا معاملہ ہوتا ہے۔ سوم، انہیں اپنے جذبات پر قابو نہیں رہتا، وہ کسی کو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ چہارم، یہ لوگ کسی ایک کو ساری برائیوں کی جڑ قرار دے کر اسے نشانہ بنا لیتے ہیں اور پھر ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ یہ چار عناصر کبھی کبھی کسی سیاستدا ن کو اقتدار بھی دلوا دیتے ہیں لیکن پھر وقت آتا ہے کہ خود اس کے خلاف لوگ اسی کے انداز میں سوچنے لگتے ہیں۔ یہاں سے ایسے تصادم کا آغاز ہوتا ہے جو کسی کے قابو میں نہیں رہتا۔ عمران خان صاحب بھی اب اسی تاریخی عمل کے نشانے پر ہیں۔ انہوں نے اپنے خلاف اسی نفرت کا الاؤ بھڑکا لیا ہے جس میں وہ دوسروں کو بھسم کرنا چاہتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کی تحریک اسی الاؤ سے نکلنے والا ایک شعلہ ہے۔ عمران خان چاہیں تو اس الاؤ پر ابھی اپنے بہتر رویے سے پانی ڈال دیں، چاہیں تو بھڑکائے رکھیں۔ فیصلہ انہیں ہی کرنا ہے۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ دنیا میں نفرت کے بیوپار میں کبھی کوئی منافع میں نہیں رہا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved