حکومت مذاکرات کی آڑ میں ٹوپی ڈراما کر رہی ہے: قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر اور مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''حکومت مذاکرات کی آڑ میں ٹوپی ڈراما کر رہی ہے‘‘ حالانکہ حکومت کا سر بہت بڑا ہے‘ اس لیے اسے ٹوپی ڈرامے کی بجائے پگڑی ڈراماکرنا چاہیے‘ جو ٹوپی سے بڑی ہوتی ہے‘ جبکہ ٹوپی کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ یہ اگر حامد کی ہو تو خود کے سر پر بھی رکھی جا سکتی ہے‘ جبکہ پگڑی کے ساتھ ایسی بے تکلفی روا نہیں رکھی جا سکتی؛ البتہ 'پگڑی سنبھال جٹا‘ کے مصداق پگڑی کو اچھی طرح سنبھالنا پڑتا ہے کہ ہوا کے تیز جھونکے سے یہ اُڑ بھی سکتی ہے‘ نیز پگڑی باندھنے کا ایک خاص طریقہ ہوتا ہے اور یہ ٹوپی کی طرح ڈرامے سے سر پر نہیں رکھی جا سکتی‘ جبکہ بڑی ٹوپی کنٹوپ کہلاتی ہے اور بڑی پگڑی‘ پگڑّ؛ حتیٰ کہ پگڑی اگر آندھی وغیرہ کی وجہ سے گر پڑے ‘تو اسے گری ہوئی کو بھی سنبھالنا پڑتا ہے‘ کیونکہ یہ گرتے ہی اپنے پورے قد سے لپٹ جاتی ہے اور اکیلا آدمی شاید اسے اکٹھا بھی نہیں کر سکتا ‘کیونکہ یہ بھی اکیلے آدمی کا کام نہیں۔ آپ اگلے روز پتوکی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہڑتال سے مریض پریشان‘ نئے ڈاکٹر بھرتی کیے جائیں: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ہڑتال سے مریض پریشان‘ نئے ڈاکٹر بھرتی کیے جائیں‘‘ اور اگر وہ ہڑتال پر اُتر آئیں ‘تو مزید نئے ڈاکٹر بھرتی کیے جائیں اور اس عمل کو بار بار دُہرایا جائے ‘جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ مریضوں کی تیزی سے کمی ہوتی جائے گی ‘کیونکہ وہ اسی رفتار سے ملکِ عدم کو سدھار جائیں گے‘ جبکہ اس مُلک کی طرح ملکِ عدم پر بھی مریضوں کا حق اتنا ہی ہے‘ نیز مریض جن بد پرہیزیوں کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں‘ ان سے بھی اجتناب کرنا سیکھیں گے ‘جس طرح ہم جب سے آئے ہیں‘ کام کرنا سیکھ رہے ہیں ‘کیونکہ اس مصیبت سے ہمیں پہلی بار پالا پڑا ہے‘ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ایک دن جو سیکھتے ہیں‘ دوسرے دن وہ مکمل طور پر بھول جاتا ہے اور وہی سبق دوبارہ پڑھنا پڑتا ہے اور اس طرح وہ پہلا سبق ہی بار بار پڑھ رہے ہیں اور نانی یاد آ گئی ہے‘ جبکہ اس سے پہلے نانی کو کبھی ہمارا خیال نہیں آیا اور ہم ان کی دعائوں کے بغیر ہی گزارہ کرتے چلے آ رہے تھے۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت وکلاء کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گی: فروغ نسیم
وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ''حکومت وکلاء کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گی‘‘ اول تو وہ اپنے مسائل خود ہی حل کرنے کیلئے کافی ہیں‘ جبکہ ابھی آج ہی احتساب عدالت میں سراج درانی صاحب کی پیشی کے موقعہ پر فہرست میں نام نہ ہونے پر سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے دروازے پر روکنے کے باوجود ہاتھا پائی کرتے ہوئے ایک صاحب اپنے ساتھیوں سمیت زبردستی اندر چلے گئے تھے‘ جس سے ان کا اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا یقین ہو جاتا ہے ‘بلکہ ایسے قابل حضرات سے امید کرنی چاہیے کہ وہ حکومت کے مسائل حل کرنے کی طرف بھی تھوڑی توجہ مبذول کر کے شکریہ کا موقعہ دیں ‘کیونکہ لوگ ہی قوم کی قسمت سنوارنے کے ذمہ دار ہیں اور ماشاء اللہ ایسے لوگ تو ہمیشہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں؛ چنانچہ ہم ان کی چشم ِ کرم کے امید وار ہیں۔ آپ اگلے روز ایوانِ عدل میں لاہور بار کی جنرل باڈی سے خطاب کر رہے تھے۔
زرداری کے ساتھ جنگی قیدیوں سے بھی بُرا سلوک ہو رہا ہے: نفیسہ شاہ
پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کی سیکرٹری اطلاعات نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ ''زرداری کے ساتھ جنگی قیدیوں سے بھی بُرا سلوک ہو رہا ہے‘‘ کیونکہ اگر جنگی قیدیوں جیسا سلوک ہو تو بھی کوئی بات نہ تھی‘ کیونکہ انہیں جیل کا دس سالہ تجربہ حاصل ہے اور اب مزید دس پندرہ سال کا تجربہ ہونے والا ہے‘ اس لیے جنگی قیدیوں جیسا سلوک تو ان کے معمول کی بات ہوتی اور اگر اب بھی جنگی قیدیوں سے بُرا سلوک ختم کر کے انہیں جنگی قیدیوں جیسے سلوک سے سرفراز کر دیا جائے تو ہم خوش اور ہمارا خدا خوش‘ جبکہ دیگر معززین جن میں سراج درانی‘ فریال تالپور اور دیگران شامل ہیں یا وہ حضرات‘ جن کی جیل تشریف آوری میں ابھی کچھ دیر ہے ‘جن میں بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ وغیرہ شامل ہیں‘ براہِ کرم ان کے ساتھ بھی جنگی قیدیوں سے بُرا سلوک نہ کیا جائے‘ جبکہ جنگی قیدیوں والا سلوک وہ ہنسی خوشی گوارا کر لیں گے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
اور ‘ اب انجم قریشی کی کتاب ''میں تے امل تاس‘‘ میں سے یہ نظم:
عشق
اَج تُوں رات دی بکل کر کے اپنے ساہ پھرولیں/ ہر ہر ساہ نوں چکھداں جاویں‘ مونہوں کچھ نہ بولیں/ پباں بھار کھلوتے تارے‘ چن دی راہ اُڈیکن/ اکھاں دی بند باری‘ بیبا‘ اندر وار نوں کھولیں/ ہوند دا کوئی بھیدی نا ہی‘ کنج فیر کریں نتارا/ اپنے آپ دے نال تے مُک لے‘ مِتھ کے نہ توں ڈولیں/ عشا توں فجریں داہی بیجی‘ ہُو ہُو وَتر لایا/ کیہڑے کاسے پھڑکے تے توں کیہڑے پھل پھُل گولیں/ اوکھے ویلے اوکھا نہ پے‘ تر جائے گی بیڑی/ عشق دی کھنڈ نوں بھورا بھورا ہجر سمندر گھولیں/ گھنگھرو پیروں لاہ کے نچیں‘ لُوں لُوں نوں جھنکاویں/ جے چاہویں تُوں پیار نبھانا‘ دل نوں رج کے رولیں/ ہر جُثہ اک آڑھت منڈی‘ ٹھگی لاون بیٹھا/ باہروں اندرون اک جیہا ہو کے دل نوں تکڑی تولیں/ لہو دی دھار اے ریشم ڈوری‘ نت پے جاندے گنجھل/ اندر و اندر گنڈھاں پئیاں‘ اک اک کر کے کھولیں/ ایہہ ڈنڈ نہ کوئی رمز پچھانے‘ ڈھاندا کردا پدھرا/ دادڑ ہوندا دانا دانا‘ جے آوے ہیٹھ مولیں/ کل لُکائی لبھن آئی کسے نہ کم دا میلہ/ اپنے نال جے مَتھا لائیں‘ سُولی جھولا جھولیں!
آج کا مطلع
بہت مصروف ہوں چھوٹا سا کوئی گھر بنانے میں
کہیں وہ بھی کسی دل کے بہت اندر بنانے میں