تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     23-10-2019

مولانا فضل الرحمن کا احتجاج

پاکستان کا قیام ایک لمبی جدوجہد اور تحریک کے نتیجے میں ہوا۔ تحریک پاکستان کے قائدین حضرت محمد علی جناح‘ علامہ محمد اقبال‘ مولانا محمد علی جوہر ‘ مولانا ظفر علی خان اور دیگر رہنماؤںنے برصغیر کے طول وعرض میں مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے جلسے ‘جلوسوں اور اجتماعات کا انعقاد کیا اور رائے عامہ کو ایک آزاد وطن کے لیے ہموار کیا۔ بالآخر مسلمانان ِ ہند کی جدوجہد رنگ لائی اور 14 اگست 1947ء کو مسلمانانِ ہند انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی مختلف ادوار میں مختلف تحریکیں چلتی رہیں۔ اس سلسلے کی پہلی موثر اور ہمہ گیر تحریک ختم ِ نبوت ﷺکی تحریک تھی۔1953 ء سے اس تحریک کا آغاز ہوا اور تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے اس تحریک کے دوران بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد کرکے اس بات کو واضح کیا کہ عقیدہ ختم ِنبوت سے انحراف کرنے والے گروہوں کا اسلام اور قرآن وسنت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ بحث جلسے ‘ جلوسوں اور احتجاج سے بڑھتے بڑھتے قومی اسمبلی تک جا پہنچی اور بالآخر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں 7 ستمبر1974 ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے تاریخ ساز فیصلہ کیا اور ختم ِ نبوت کا انکار کرنے والے گروہوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ 
تحریک ختم ِنبوتﷺ کے بعد بھی تحریکوں کا سلسلہ جاری وساری رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی زیر نگرانی 1977 ء کے ہونے والے انتخابات کے بعد انتخابی دھاندلیوں کے خلاف قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے موثر تحریک چلائی گئی ‘جو ابتدائی طور پر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تھی‘ لیکن بعدازاں سوشل ازم کے خلاف تمام جماعتیں یکجا ہو گئیں اور تحریکِ نظام مصطفی کے نام سے ملک کے طول وعرض میں موثر تحریک چلائی گئی۔ اس تحریک کے نتیجے میں نا صرف یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے محروم ہو ئے‘ بلکہ انہیں تختۂ دار کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے بعد جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آئے اور انہوں نے ایک طویل عرصے تک انتخابی اور سیاسی عمل کو معطل کیے رکھا‘ جس کی بحالی کے لیے ایم آر ڈی کے زیر اہتمام تحریک بحالی ٔ جمہوریت کو چلایا گیا ۔ تحریک بحالی ٔجمہوریت نے بھی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ گو کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم اس احتجاجی تحریک کے باوجود ملک کے اقتدار پر براجمان رہے‘لیکن ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد تحریک بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک میں حصہ لینے والی جماعتیں منظر عام پر ابھریں اور بعدازاں انہوں نے ملک کی سیاست میں نمایاںکردار ادا کیا‘ جو سب کے سامنے ہے۔ 
جنرل پرویز مشرف کے دور میں افغانستان پر حملے کے لیے اپنے اڈوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کے حوالے سے مذہبی تحریکوں نے ایک موثر تحریک چلائی ۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف بھی قومی منظر نامے میں داخل ہونا شروع ہو گئی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد عمران خان صاحب‘ نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف بھرپور تحریک چلائی اور اس تحریک کے نتیجے میں اپنی سیاسی ساکھ میں خاطر خواہ اضافہ کیا اور بعد ازاں 2018ء میں ہونے والے انتخابات میں اسی تحریک کے ثمرات کو سمیٹنے میں کامیابی حاصل کی۔ ان تمام احتجاجی تحریکوں کے بعد ملک ایک مرتبہ پھر جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی تحریک کی لپیٹ میں ہے۔ مولانا احتجاجی تحریکوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور اس سے قبل بھی مختلف حوالوں سے موثر احتجاجی تحریکوں کوچلا چکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مولانا نے دو مرتبہ ملک گیر سطح پر موثر تحریک چلائی۔جس وقت حکومتِ پاکستان نے برادر اسلامی ملک افغانستان پر حملوں کے لیے اپنے اڈے امریکہ کے حوالے کیے تو جمعیت علماء اسلام نے ملک گیر مظاہرے کیے اور ان مظاہروں کے دوران مولانا فضل الرحمن کے ساتھیوں اور کارکنان نے بھرپور انداز میں اپنی سٹریٹ پاور کا مظاہرہ کیا۔ جنرل پرویز مشرف ہی کے دور میں پاسپورٹ سے مذہب کے خانے کو نکال دیا گیا‘ جس پر عالمی مجلس تحفظ ِختم ِ نبوت نے گہری تشویش کا اظہار کیا اور ملک کی موثر مذہبی سیاسی جماعتوں کے ہمراہ احتجاج کا اعلان کیا۔ اس حوالے سے محترم قاضی حسین احمد‘ مولانا ابوالخیر زبیراور دیگر رہنماؤں نے بھی فعال کردار ادا کیا۔ اس تحریک میں مجھے بھی حصہ لینے کا موقع میسر آیا۔ اس تحریک کے زیر اہتمام آبپارہ چوک میں ایک بہت بڑے اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔ اس نمائندہ اجتماع میں اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ جلدازجلد پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کو بحال کر دیا جائے۔ عوام کے جوش وجذبے اور یکجہتی کو دیکھ کر حکومت نے عوامی مطالبے کو تسلیم کر لیا اور پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کو بحال کر دیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں جب آسیہ کیس کے حوالے سے ملک میں مختلف طرح کی آراء سامنے آئیںتو متحدہ مجلس عمل کے زیر اہتمام لاہور‘ کراچی‘ سرگودھا اور سکھر میں بہت بڑے ملین مارچوں کا انعقاد کیا گیا‘ جن میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ ان مظاہروں کے دوران یہ بات سمجھ میں آئی کہ دینی جماعتوں کے پاس تاحال بہت بڑی تعداد میں ایسے کارکنان موجود ہیں‘ جو احتجاجی تحریکوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ان اجتماعات کے انعقاد کے بعد مولانا فضل الرحمن نے 27 اکتوبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے ۔ اس احتجاج کی بنیاد ملک میں انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا موجودہ حکومت کے حوالے سے بیانیہ ہے کہ موجودہ حکومت کو عوام کی حقیقی تائید حاصل نہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کو ایک مبینہ منصوبے کے تحت اقتدار میں لایا گیا ہے۔ 
اس کے ساتھ ساتھ کچھ مذہبی ایشوز کو بھی مدنظر رکھ کر احتجاجی تحریک کو مزید آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس اعتبار سے کامیاب رہے ہیںکہ ملک کے تمام اپوزیشن رہنما مولانا فضل الرحمن کی حمایت میں یکجا ہو چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے رہنماؤں اور کارکنان کی بڑی تعداد بھی مولانا فضل الرحمن کی تائید کر رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کو روکنے کے لیے حکومت مختلف طریقے اختیار کر رہی ہے۔ پرویز خٹک کی سربراہی میں مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی کو تشکیل دیا جا چکا ہے‘ اسی طرح مولانا فضل الرحمن کے بارے میںشدت پسندی اور مذہب کا کارڈ استعمال کرنے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں‘ لیکن مولانا فضل الرحمن ان باتوں کا اثر قبول کرنے کی بجائے اپنے معاملات کو سیاسی انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں اور اس احتجاج کی تیاری کے لیے ملک کے طول وعرض میں کارنر میٹنگز ‘ اجلاس کیے جا رہے ہیں۔ حکومت مولانا کے احتجاج کو روکنے کے لیے مولانا کی جماعت کے نمایاں کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کے بھی اشارے دے رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کو پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹرز ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس احتجاج سے ملکی معیشت اور سیاست کو نقصان ہو گا اور اس قسم کے معاملات سڑکوں پر طے کرنے کی بجائے مذاکرات سے حل ہونے چاہئیں۔ تحریک انصاف کے ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کا بیانیہ حقیقت پسندی پر مبنی نہیں۔ اس لیے کہ احتجاجی سیاست کے موجودہ رنگ کو سامنے لانے میں تحریک انصاف نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے اور ماضی میں عمران خان بھی عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ہمراہ طویل عرصے تک احتجاجی سیاست میں مصروف رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے مخالفوں کا موقف ہے کہ عمران خان کی موجودہ سیاسی حیثیت کا ماضی میں ان کے ہونے والے احتجاجوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ مولانا فضل الرحمن اس احتجاج کے نتیجے میں اپنے اہداف کو حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں‘ اس بات کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پوری قوم کی نگاہیں مولانا فضل الرحمن کے احتجاج پر لگی ہوئی ہیں اور حکومت اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان ہونے والی رسہ کشی کو پوری قوم اور میڈیا نہایت توجہ کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved