کہتے ہیں چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں‘یہ بات بھارت پر بالکل فِٹ بیٹھتی ہے‘ جو پاکستان کو نیچا دکھانے اور اس کی ساکھ خراب کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا۔گنگا طیارے کا معاملہ اس کی تازہ مثال ہے۔جیسے ہی وزیر اعظم عمران خان اپنے وفد کے ہمراہ پاکستان سے سعودیہ اور نیویارک کیلئے پرواز بھرنے لگے‘ تو بھارت کے شاطر دماغوں نے نریندر مودی کے مشورے اور اجا زت سے گنگا طیارے کی طرز پر ایک ڈرامہ سٹیج کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔اجیت ڈوول'' راء‘‘ کے چیف اور نریندر مودی جان چکے تھے کہ مقبوضہ کشمیر کی موجو دہ صورت حال نے عالمی برادری میںکشمیریوں کیلئے نرم گوشہ پیداکر دیا ہے اور بہت سے ممالک اپنے عوام کے شدید ردعمل سے بچنے کیلئے بھارت کی کھل کر حمایت کرنے سے معذوری ظاہر کر چکے ہیں تو ساتھ ہی جنیوا میں اقوام متحدہ کی ا نسانی حقوق کی عالمی تنظیم ‘جس میں دنیا بھر سے ترقی پسند تنظیمیں‘ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے اعلیٰ عہدیدار اوردانشور پرُ ہجوم میڈیا کے سامنے کشمیریوں کے حق میں اور بھارت کے خلاف قرار داد پاس کرنے جا رہے ہیں۔
بھارت یہ بھی جان چکا کہ ایک عالمی شہرت یافتہ شخصیت کی حیثیت سے دنیا بھر میںاپنی پہچان رکھنے والے عمران خان بطورِ وزیر اعظم ‘ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں پہلی مرتبہ جب خطاب کریں گے‘ تو عالمی میڈیا اور اہم لیڈرزاُس میں بہت دلچسپی لے گا ‘جو بھارت کیلئے کسی طور بھی بہتر نہیں اور وہ مقام ومرتبہ جو بھارت نے گزشتہ دس بارہ برسوں سے دنیا میں حاصل کر رکھا ہے‘ عمران خان کی شخصیت اور جنرل اسمبلی میں ان کے ممکنہ خطاب سے کمزور پڑ جائے گا‘ لہٰذا چانکیہ کے چیلوں نے سوچا کہ اب کیا کیا جائے ؟کیونکہ عالمی میڈیا کشمیر کی اندرونی صورت حال میں بہت دلچسپی لے رہا تھا‘ جس سے اس کی پوزیشن دن بدن کمزور ہو رہی تھی۔بھارت کو اندازہ ہو چکا ہے کہ یورپ سمیت برطانیہ اور امریکہ میں ہزاروں افراد سڑکوں پر کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے کیلئے اس کیخلاف ہو چکے ہیں۔ اس تمام نفرت کو اس طرح پاکستان کے خلاف موڑ دیا جائے کہ بھارت کے ایک بار پھر خود کو مظلوم اور دہشت گردی کے شکار ملک کی حیثیت سے دنیا بھر میں اس طرح چیخ و پکار کرے کہ پاکستان اس کیخلاف کچھ کہنے کی بجائے دنیا سے آنکھیں چرانے لگے ‘ لہٰذاچانکیہ کے تمام سازشی ذہن سر جوڑ کر سوچنے لگے کہ کچھ ایسا ڈرامہ کھیلا جائے کہ عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلے خطاب سے قبل اس کیلئے بچھایا گیا قالین پاکستان کے نیچے سے اس طرح کھینچ لیا جائے کہ اسے قدم جمانے کا موقع ہی نہ ملے اور عمران خان‘ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنے کیلئے پہلی مرتبہ بحیثیت ِ وزیر اعظم پاکستان‘ جنرل اسمبلی کے ہال میں دنیا بھر کے نمائندگان کی موجودگی میں داخل ہوں‘ تو انہیں بھارت کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے اپنے تشخص اور ایک دہشت گر دملک کی حیثیت سے کئے جانے والے پروپیگنڈے کی وضاحت دینے کے علا وہ کچھ اور کہنے کی ہمت ہی نہ ہو۔
ستمبر کی ایک صبح ‘بھارت کا SPICE JET FLIGHT SG21 نئی دہلی ائیر پورٹ سے کابل جانے کیلئے اڑان بھر رہا تھا کہ یکدم پاکستان ائیرفورس کے ریڈار اور ائیر ٹریفک کنٹرول پر ایک ایسا نقطہ ابھرنے اور آواز آنے لگی‘ جس نے انہیں حیران اورانتہائی چوکنا کر دیا‘ کیونکہ بھارت کا ایک طیارہ ‘جسے بھارت کا نئی دہلی ائیر کنٹرول انڈین ائیر فورس کے فائٹر طیارے کی شناخت دے رہا تھا‘ پاکستان کی حدود میں داخل ہو رہا تھا ‘ جیسے ہی اس مبینہ مشکوک طیارے کا رخ پاکستان کی جانب ہونے لگا‘ تو پاکستان ائیر فورس کے دوF16 پلک جھپکتے ہی اس کی جانب لپکے اور اس طیارے کے پائلٹ کو جس میں120 مسافر سوار تھے‘ اپنی فلائٹ کی شناخت اور فوری طور پر طیارے کو کم بلندی پر لانے کا حکم دیا‘ جیسے ہی نئی دہلی کنٹرول کو اطلاع ملی کہ پاکستان ائیر فورس نے جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے اسے مار گرانے کی بجائے اس جیٹ فلائٹ کو اپنے حصار میں رکھا ہوا ہے ‘تو بھارت نے فوری طور پر پینترا بدلتے ہوئے ائیر کنٹرول پر شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ بھار ت کی کمرشل فلائٹ ہے ‘جس میں کابل جانے والے ایک سو پچیس مسافر وں میں افغان نیشنل آرمی کو تربیت دینے کیلئے بھارتی فوج کے کچھ سینئر افسران اور عملہ سوار ہے۔ جب بھارت نے دیکھا کہ پاکستان نے اس مبینہ مشکوک طیارے کا رخ کابل کی جانب کرواتے ہوئے اپنے حصار میں لے رکھا ہے ‘تو بھارت نے پھرشور مچانا شروع کر دیا کہ نئی دہلی ائیر ٹریفک کنٹرول کا سسٹمMIX UP ہونے کی وجہ سے اس کمرشل فلائٹ کو IA کے سگنل ملنا شروع ہو گئے ہیں۔
پاکستان کو یقین تھا کہ اپنے پلان اے کی نا کامی کے بعد بھارت پلان بی اور سی پر عمل کرے گا‘ اس لئے F16 اس وقت تک اس طیارے کو حصار میں لئے رہے‘ جب تک وہ افغانستان کی حدود میں داخل نہیں ہوا ۔اب‘ بھارت اورا س کا میڈیا جتنا چاہے‘ جس قدر چاہے‘ وضاحتیں دیتا رہے‘ لیکن ایک سوال جو دنیا بھر کا میڈیا اس سے پوچھتا رہے گا کہ پریس ٹرسٹ آف انڈیا جب اس طیارے کے پائلٹ سے رابطہ کرتے ہوئے کچھ جاننے کی کوشش کر رہا تھا‘تو اس نے کچھ کہنے سے معذرت کیوں کی؟ گلف نیوز نے 23ستمبر کو پاکستان کی فضائی حدود میں جاری اس ڈرامے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ '' پاکستان کو یہ دھوکا کیوں دیا گیا کہ نئی دہلی سے کابل جانے والا یہ سپائس جیٹ نہیں ‘بلکہ انڈین ائیر فورس کاMIG21 ہے‘‘ ۔SPICEJET SG21 کے ایک مسافر ‘جس کی نشست کھڑی کے ساتھ تھی ‘گلف نیوز کو اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم اس کمرشل فلائٹ میں بیٹھے ہوئے پاکستان ائیر فورس کے فائٹرز کو دیکھ رہے تھے اور ایک فائٹر کا پائلٹ اپنے ہاتھ کے اشارے سے ہماری کمرشل فلائٹ کے پائلٹ کو پرواز نیچی رکھنے کے ا شارے کر رہا تھا ‘ جیسے ہی جہاز میں موجود ائیر لائن کے عملے نے دیکھا کہ ہر مسافر اٹھ اٹھ کر اپنے ارد گرد پرواز کرتے ہوئے پاکستان ائیر فورس کے ایف سولہ فائٹرز دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے تو عملہ نے سختی سے جہاز کی تمام کھڑکیاں بند کرا دیں ۔ گلف نیوز اپنی حاصل کردہ رپورٹس کی روشنی میں بڑے وثوق سے لکھتا ہے کہ '' سب سے توجہ طلب بات یہ ہے کہ بھارت کی ایوی ایشن سروس کو اس کمرشل فلائٹ کوIA Code دینے کی کیا ضرورت تھی؟نئی دہلی ائیر پورٹ پر تعینات سول ایوی ایشن کے چند سینئر اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ سٹاف‘ جو اس کمرشل فلائٹ کو انڈین ائیر فورس کی شناخت دیتے ہوئے سگنل دے رہا تھا ‘وہ کئی دن سے غائب ہے‘ لیکن حیرت ہے کہ ان کے لواحقین کی جانب سے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے کسی قسم کا بھی رابطہ نہیں کیا گیا ‘جس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنے طور پر روپوش ہوئے ہیں ‘‘۔
الغرض نئی دہلی ائیر ٹریفک کنٹرول IA کے تاثر کوابھارنے کی بھر پور سازش کر رہا تھا‘ تاکہ پاکستان کو یقین ہو جائے کہ اس کی حدود میں دشمن کا فائٹر داخل ہو رہا ہے۔ اجیت ڈوول کو یقین تھا کہ جیسے ہی پاکستان کو اپنی حدود میں بھارت سے داخل ہونے والے طیارے کی اطلاع ملے گی‘ وہ اسے فوری طور پر میزائل سے مار گرائے گا‘ جس سے120 مسافر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور دنیا بھر میں اس قدر شور مچ اٹھے گا کہ باقی سب کچھ اس میں دب کر رہ جائے گا اور پھر ہیوسٹن میں اپنے جلسہ عام اور 27 ستمبر تک کی تمام کہانیاں نریندر مودی مظلوم اور زخم خوردہ بن کر جیسے چاہے سناتا رہے گا۔