تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-10-2019

یہ پارٹی ہے‘ جناب!

دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے کہ ہر وقت موڈ اچھا رہے۔ موڈ کے اچھا ہونے سے عام طور پر یہ مراد لی جاتی ہے کہ انسان ہنستا گاتا رہے‘ قہقہے لگاتا رہے‘ محفل سجاتا رہے اور باقی سب کچھ بھول جائے۔ کیا واقعی زندگی‘ اس طور گزارنی چاہیے؟ 
بہت سے سوال قدم قدم پر ہمیں گھیر لیتے ہیں۔ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ سنجیدگی ضروری ہے یا نہیں؟ بہت سوں کے نزدیک انسان کا سنجیدہ رہنا خطرناک ہے‘ کیونکہ اس کے نتیجے میں طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے‘ ذہن زیادہ تیزی سے کام نہیں کرتا اور جہاں خوش مزاجی کا مظاہرہ کرنا ہو‘ وہاں بھی انسان منہ پُھلائے بیٹھا رہتا ہے۔ 
سنجیدگی کے حوالے سے بہت سے بے بنیاد تصورات پائے جاتے ہیں۔ دوسروں سے بہت دور‘ منہ پھلائے بیٹھے رہنے کا نام سنجیدہ ہونا نہیں۔ سنجیدگی یہ نہیں کہ انسان دوسروں سے لاتعلق ہوکر‘ کسی گوشۂ تنہائی میں جا بیٹھے اور اس بات کی بظاہر کوئی پروا‘ نہ کرے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ سنجیدہ رویہ یہ ہے کہ انسان اپنے کام سے کام ضرور رکھے‘ تاہم ماحول کو بھی نظر انداز نہ کرے۔ اگر ماحول میں کوئی اچھی بات ہو تو اُس کا اثر قبول کرنے میں کچھ حرج نہیں‘ اِسی طور ماحول سے باخبر رہنے کی صورت میں ہم بہت سی خرابیوں سے بروقت آگاہ ہوکر اُن کے مُضر اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ 
زندگی کو اگر ڈھنگ سے بسر کرنا ہے تو سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ کوئی ایک بھی انسان ایسا نہیں جو متوازن زندگی بسر کرنے کا خواہش مند ہو اور سنجیدگی اختیار نہ کرے۔ سنجیدہ ہونے کی صورت ہی میں ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہماری ذمہ داریاں کیا کیا ہیں اور لوگ ہم سے کیسی کیسی توقعات وابستہ کیے رہتے ہیں۔اس کا ادراک ہر ذمہ دار شخص کے لیے ضروری ہے۔ 
یہ حقیقت کسی بھی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ہمیں زندگی ایک بار ملتی ہے۔ ایک بار ملنے والی زندگی کو کسی بھی نوع کی خرابی سے بچانے کے لیے حوالے سے ہمیں کتنا سنجیدہ ہونا چاہیے؟ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں تو انسان کو ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچنا ہی پڑتا ہے‘ تاکہ زندگی کا معیار بلند کرتے رہنا ممکن ہو۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر کا معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ خاصا عمومی نوعیت کا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک بار ملنے والی زندگی کو بھی داؤ پر لگانے سے قطعی گریز نہیں کرتے۔ بیشتر معاملات میں تفکر و تدبر کا آپشن اختیار کرنے کی بجائے ہم غیر معمولی اثرات کے حامل عوامل کو محض نظر انداز کرنے کی روش پر گامزن رہتے ہیں۔ 
ہمارے پاس جو کچھ محدود مقدار یا تعداد میں ہوتا ہے‘ اُسے ہم بہت احتیاط سے استعمال کرتے ہیں۔ دولت کا ایسا ہی تو معاملہ ہے‘ جس کی آمدن محدود ہو وہ خرچ کے معاملے میں ہاتھ کھینچ کر رکھتا ہے۔ افسوس کہ زندگی کے معاملے میں ہم ایسا نہیں کرتے۔ ہمیں بخشی جانے والی سانسوں کی تعداد بھی تو محدود ہے۔ روئے زمین پر زندگی بسر کرنے کے لیے ہمیں جو وقت دیا گیا ہے ‘وہ محدود ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ ہم ایک ایک لمحہ بہت احتیاط سے صرف کریں‘ ذرا سا بھی وقت ضائع نہ کریں۔ یہ تو ہوا وہ معاملہ جو ہمیں کرنا ہے اور ہو کیا رہا ہے؟ اپنے ماحول میں ‘جس طرف بھی نظر دوڑائیے‘ لوگ وقت ضائع کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ‘ جیسے لوگوں کے ذہن میں یہ بات سماگئی ہے کہ ہمیں عطا کی جانے والی زندگی ڈیڑھ دو سو سال کی ہے اور یہ کہہ دیا گیا ہے کہ جتنا جی چاہے‘ وقت ضائع کرو۔ 
جب ہم کسی تقریب کا اہتمام کرتے ہیں تو منصوبہ بندی اور منصوبہ سازی کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ بہت کچھ ہے‘ جو ہمیں پہلے سے طے کرنا پڑتا ہے۔ تقریب کی نوعیت دیکھتے ہوئے مقام کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ مہمانوں کی تعداد کے بارے میں غور کرنا پڑتا ہے۔ تقریب میں کس نوعیت کی سیٹنگ ہوگی‘ کن کن چیزوں کا اہتمام کیا جائے گا‘ مہمانوں کی تواضع کس طور کی جائے گی ... یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے معاملات کے بارے میں پہلے سے سوچنا پڑتا ہے‘ تاکہ عین وقت پر کوئی بڑی گڑبڑ نہ ہو اور تقریب بااحسن انجام پذیر ہو! 
جین سینسیرو نے کہا ہے کہ آپ کو ملنے والی زندگی دراصل پارٹی کے مانند ہے‘ جس طرح کسی پارٹی کے لیے تیاری کی جاتی ہے‘ سوچنے کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے ‘بالکل اُسی طرح آپ کو زندگی کے حوالے سے بھی سوچنے کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا۔ جین سینسیرو کی یہ بات بہت گیرائی اور گہرائی والی ہے۔
کسی بھی پارٹی میں کون کون آئے گا ... اس کا تعین کون کرتا ہے؟ میزبان‘ اور کون؟ تو جناب آپ کی زندگی اگر ایک پارٹی ہے‘ تو آپ ہی کو یہ طے کرنا ہے کہ اس میں کون کون شریک ہوگا؟... پارٹی کیسی ہوگی‘ یہ تجربہ کس نوعیت کا ہوگا... اور اِس میں کون کون سے لوازم رکھے جائیں گے ... یہ سب کچھ بھی آپ ہی کو تو طے کرنا ہے۔ 
ہم سب اس حقیقت کو محض جانتے ہی نہیں ‘بلکہ تسلیم اور قبول بھی کرتے ہیں کہ روئے ارض پر زندگی بسر کرنے کا موقع ایک بار ملتا ہے۔ اس ایک موقع سے ہمیں کس حد تک مستفید ہونا ہے ‘اس کا تعین ہمی کو کرنا ہے۔ یہ کام ہمارے لیے کوئی اور نہیں کرے گا۔ یہ دنیا ہمیں بہت کچھ دینا چاہتی ہے۔ اور ہم سے بہت کچھ لینا بھی چاہتی ہے۔ دنیا لین دین کے اصول کی بنیاد ہی پر قائم ہے۔ اگر کسی کو اس بات کا شکوہ ہے کہ دنیا نے اُسے کچھ نہیں دیا تو اُسے سوچنا چاہیے کہ اُس نے دنیا کو کیا دیا ہے۔ 
جب ہم اپنی زندگی کو پارٹی کی حیثیت سے برتتے ہیں ‘تب غیر معمولی احتیاط کا دامن تھام لیتے ہیں۔ کوئی ہماری زندگی میں کس حد تک کوئی اہم کردار ادا کرسکتا ہے یا مداخلت کرسکتا ہے ‘اس کا مدار اِس بات پر ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں‘ ہم کیا چاہتے ہیں۔ہمارے کیا اہداف ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ 
ہمیں بخشا جانے والا وقت محدود ہے۔ ہماری زندگی کی ایک حد مقرر ہے۔ اُس حد کے پورا ہونے پر ہمیں روئے ارض سے بوریا بستر لپیٹنا پڑتا ہے۔ گنتی کی سانسوں کو بامقصد اور بارآور زندگی میں بدلنا ایک بڑا ہنر ہے‘ جو خاصی محنت اور توجہ سے سیکھنا پڑتا ہے۔ آپ کیا کرسکیں گے اور کیا نہیں کر پائیں گے اس کا مدار اِس بات پر ہے کہ آپ کی زندگی میں کون کون ہوگا؟ اگر آپ اپنی زندگی کو پارٹی سمجھیں گے تو مہمانوں کی فہرست بہت سوچ سمجھ کر مرتب کرنا ہوگی ‘تاکہ ایسے لوگ آپ کی زندگی میں نہ آئیں ‘جو اپنے ساتھ ساتھ آپ کا بھی وقت ضائع کریں اور آپ کو لایعنی سرگرمیوں میں الجھاکر صلاحیت و سکت کے ضیاع کا باعث بنیں۔ یاد رکھیے‘ کسی بھی ماحول میں ایسے ناکارہ لوگوں کی کچھ کمی نہیں۔ 
زندگی کم و بیش ہر گام سنجیدگی چاہتی ہے۔ آپ کو ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔ جو کچھ آپ کماتے ہیں ‘وہ پوری احتیاط سے خرچ کیا جانا چاہیے۔ اور آپ کیا کماسکیں گے‘ اس کا مدار اصلاً اِس بات پر ہے کہ آپ کیا سیکھیں گے اور کس حد تک محنت کریں گے‘ اگر آپ اپنی زندگی کے حوالے سے لاپروائی برتیں گے‘ لااُبالی پن پر مبنی رویہ اختیار کریں گے ‘تو ناکارہ لوگ بڑی تعداد میں قریب آکر آپ کی پارٹی کا بیڑا غرق کردیں گے۔ آپ کو اچھے خاصے غور و خوض کے ساتھ یہ طے کرنا ہے کہ آپ کی زندگی میں نمایاں حد تک کون کون ہوگا اور کس کس سے آپ دامن بچاتے ہوئے چلیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved