کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو حالیہ انتخابات میں مسلسل دوسری مرتبہ کامیابی کے بعد اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ‘تاہم بہترین نتائج دینے کے باوجود ‘وہ پہلے جیسی اکثریت سے محروم رہے۔ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے ساتھ حکومت بنانے کا بہترین موقع بھی اسی جماعت کے پاس ہے۔ ٹروڈو کی جماعت نے حالیہ انتخابات میں 157 نشستیں حاصل کیں‘جبکہ ان کی حریف کنزرویٹو پارٹی نے 121 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ‘اکثریت اراکین سے محروم ہونے کے بعد اب‘ انہیں کسی بھی قانون سازی کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں ایک اپوزیشن جماعت پر انحصار کرنا پڑے گا۔
کینیڈا کے حالیہ انتخابات میں کانٹے دار مقابلہ دیکھنے میں آیا۔ نتائج جسٹن ٹروڈو کے لیے بہت بڑی کامیابی ہیں‘ کیونکہ انتخابات سے قبل انہیں ماضی کی کچھ تصاویر کے باعث تنازعات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کسی کو بھی ان کو اکثریت ملنے کی توقع نہیں تھی۔ ٹروڈو نے خود کو ناقابل یقین حد تک لچکدار سیاستدان ثابت کیا ‘ تاہم ریس کے اختتام پر قلعی کھل گئی ‘ ایک مہینہ تک جاری رہنے والا ٹروڈو کیخلاف تصاویر کا سلسلہ بھی ان کی مقبولیت میں کمی نہ لا سکا۔یہ صرف اخلاقیات کا سکینڈل نہیں تھا‘ جس نے ان کی اپنی کابینہ کو تقسیم کیا‘ نہ ہی ایک اشتہاری مہم‘ جو کینیڈا کی جدید تاریخ کا سب سے منفی اور مایوس کن پہلو تھا ۔الغرض نتائج برعکس آئے ‘ٹروڈو کی گھر میں مقبولیت میں کمی دیکھی گئی ‘ یورپ میں چند رہنما ؤں نے ان کی کامیابی پر جشن منایا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلے ٹروڈو کو مبارکباد دی۔ ان کے درمیان تعلقات ڈھکے چھپے نہیں ‘ جیسا کہ ٹرمپ نے لکھا ہے ''میں دونوں ممالک کی بہتری کیلئے آپ کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہوں!‘‘دوسری طرف سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے جسٹن ٹرودو کو کھل کر سپورٹ کی ۔وزیراعظم عمران خان نے کینیڈا کے عام انتخابات میں کامیابی پر جسٹن ٹروڈو کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے مستقبل میں مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے‘اسی طرح دنیا بھر سے جسٹن ٹروڈو کیلئے مبارکبادی کا سلسلہ جاری ہے۔
مغربی کینیڈا کے چاروں صوبوں میں ٹروڈو کے لبرلز نے صرف 15 نشستیں حاصل کیں۔ ان کی حمایت میں زیادہ تر حصہ ٹورنٹو اور مانٹریال سے آیا تھا‘ جہاں انہیں واضح برتری ملی۔اب‘ کیا ہوگا ؟کسی کواندازہ نہیں ۔ ٹروڈو گورننگ اکثریت سے 13 نشستیں کم ہیں‘ اس کا مطلب ہے کہ انہیں اقتدار میں رہنے کیلئے دوسری جماعتوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔زیادہ تر پارلیمانی جمہوریتوں میں فریقین حکومتی استحکام کیلئے معاہدوںپر بات چیت کرتے ہیں۔ ایسے معاہدے کینیڈا میں کم ہی دیکھے گئے‘ پارلیمنٹ کے لبرل اراکین‘ جنہوں نے مونٹریال میں اپنی فریق پارٹی سے خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ کسی بھی رسمی معاہدے کا امکان نہیں۔ انتخابی مہم شروع سے اختتام تک سفاکانہ طور پر چلائی گئی۔ لبرلز نے ٹوریوں کو معاشرتی پسماندگی کی حیثیت سے پیش کیا۔ لبرل کا نعرہ مقبول رہا ''آگے کا انتخاب کریں‘‘ یعنی کہ مستقبل کا سوچیں ! ٹوریوں نے لبرلز پر الزامات لگائے کہ وہ کرپٹ ہیں۔رفتہ رفتہ شور کے ساتھ دوسری جماعتیں ابھریں۔ گرینوں نے سیاسی موسم بدلتے ہوئے بے چینی کا فائدہ اٹھایا اور خدشہ ظاہر کیا کہ لبرل حکومت جارحانہ انداز میں مناسب اقدامات نہیں کر رہی ‘سیاست میں ایسے داؤ پیچ ہی کام آتے ہیں‘ تاہم سکندر وہی ٹھہرتا ہے‘ جو انہی مواقع کا بہترین فائدہ اٹھا سکے؛اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ یہ انتخابات غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھ نہیں لگا‘ لیکن ان میں کئی لوگوں نے اپنے آپ کو منوایا ۔انتخابی دن سے قبل ہی انکشاف ہوا تھا کہ کنزرویٹو پارٹی نے اپنے دائیں بازو کے حریفوں‘ کو نیچا دکھانے کیلئے منظم لابنگ کررکھی ہے‘ جس کا رہنما میکسمیم برنیئر تھا‘ جوخود قدامت پسند پارٹی کا سابق دعویدار تھا۔
ممکنہ طور پر کئی جعلی خبروں نے وزیر اعظم کو نشانہ بنایا‘ الزام لگایا کہ انہوں نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں برٹش کولمبیا کے ایک نجی سکول میں پڑھاتے ہوئے قانونی زیادتی کا ارتکاب کیا تھا۔ ان کہانیوں کو باغی میڈیا اور ساؤتھ نارتھ ٹائمز جیسے دائیں بازو کے ذرائع ابلاغ کے نامہ نگاروں نے زندہ رکھا‘ نیز برنیر کی پارٹی پر حملہ کرنے کیلئے رکھی گئی لابنگ فرم کے مالک اور کنزرویٹو پارٹی نے خود ایک سرکاری پریس ریلیز میں ان افواہوں میں روح پھونکی۔ملک کے بنیادی ڈھانچے کا خسارہ کافی ہے اور یہ خدشات موجود ہیں کہ کینیڈا کے بڑے شہروں کے پل اور سرنگوں جیسے اہم انفراسٹرکچر کو تباہ کن ناکامی سے بچنے کیلئے مستقبل قریب میں اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ کینیڈا کے شہروں میں مکانات کی بھی کافی کمی ہے اور عوامی ٹرانزٹ تقریباً تیزی سے تعمیر نہیں کیا جارہا ہے۔ لبرلز نے کینیڈا کے شہروں کی تعمیر کیلئے ایک بہت بڑا سیاسی کھیل پیش کرنے کی کوشش کی ‘ جبکہ بائیں بازو کی جماعتوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا‘اسی طرح صحت ‘امیگریشن ‘تعلیم اور دیگر محکموں کی کارکردگی کو نمایاں طور پر پیش کرتے ہوئے انتخابی مہم کو تقویت بخشی گئی۔
المختصرقیاس آرائیاں جاری ہیں‘ تاہم جسٹن ٹروڈو نئی حکومت تشکیل دینے کیلئے جن چھوٹی پارٹیوں کا سہارا لے سکتے ہیں‘ اُن میں ماحول دوست گرین پارٹی اور نیو ڈیموکریٹک پارٹی نمایاں ہیں۔ نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ جگمیت سنگھ ہیں‘ وہ کینیڈا کے پہلے غیر سفید فام شہری ہیں‘ جو کسی ملکی سطح کی سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ جگمیت سنگھ کی سیاسی جماعت کو 24 سیٹیں ملی ہیں ‘جبکہ نئی پارلیمان میں گرین پارٹی کی ارکان کی تعداد صرف3 ہو گی۔