نیویارک کی گلیوں اور وال سٹریٹ کے قرب و جوار میں جب ٹھٹھرتی ہوتی سردی میں لوگ کتوں کے گلے میں اس تحریر کی کئی تختیاں لٹکائے بیٹھے تھے کہ ’’ ہم ننانوے فیصد ہیں اور ہم پر ایک فیصد کی حکمرانی ہے ‘‘ تو اسی لمحے اس ایک فیصد حکمران طبقے کی سود اور کاغذ کے نوٹوں کی مصنوعی دولت سے چلنے والا میڈیا دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک کو جمہوریت کا درس دے رہا تھا۔عرب دنیا میں آمرانہ حکومتیں گررہی تھیں اور عوام کی اکثریت کی حکمرانی کے خواب سچ ثابت کیے جا رہے تھے۔وہ جنہوں نے پوری دنیا کے وسائل کو بنکوں کے چھاپہ خانوں میں چھپنے والے کاغذ کے ٹکڑوں کے عوض خریدا تھااور پوری دنیا کے غریب لیکن وسائل سے مالا مال ممالک کو محکوم بنایا تھا ، مسکرا رہے تھے ۔انہیں بخوبی علم تھا کہ یہ عوامی سیلاب کیا ہوتا ہے اور اس سے جنم لینے والی حکومتیں سسٹم کی کس قدر غلام ہوتی ہیں۔ یہ دنیا پر مسلط کیے گیے عالمی معاشی شکنجے میں اس قدر جکڑی ہوتی ہیں کہ ان میں سے سو فیصد اکثریت لے کر بھی اگر کوئی پارلیمنٹ میں آجائے تو اس سودی نظام اور کاغذ کے نوٹوں کو نہیں للکارے گا۔کوئی للکار کر دیکھے تو سہی ، ہم اس کو کس طرح آمر، رجعت پسند ، جمہوریت دشمن اور دہشت گردوں کا سرپرست بنادیں گے اور چوبیس گھنٹے ہر گھر میں راگ الاپنے والا میڈیا اس کا جینا مشکل کردے گا۔اگر یہ سودی نظام ووٹ کی طاقت سے بدل سکتا تو اللہ کبھی قرآن حکیم میں اسے ختم کرنے کے لیے ’’ حرب‘‘ کا لفظ استعمال نہ فرماتا ۔حرب اس جنگ کو کہتے ہیں جو تیر و تلوار کے ساتھ کی جاتی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ سود کھانے والے اس نظام کو سہارا دینے والوں کے خلاف حرب کے اعلان کے لیے اس امت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ وہی الفاظ جو قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ ؑکے حوالے سے بیان کیے گیے… ’’کون ہے جو اللہ کے راستے میں میرا مدد گار ہو‘‘،پکارے جا رہے ہیں،اور ہم یہ کہتے ہیں کہ اس جنگ میں بعد میں شریک ہوں گے‘ پہلے ہم لوگوں سے پوچھ تو لیں کہ کیا وہ ہمیں اس قابل سمجھتے ہیں کہ ہم اس جنگ میں شامل ہوں۔ چلو یہ عقدہ بھی حل ہوا ، یہ معاملہ بھی طے ہوا۔وہ جو ساٹھ سال سے اس بات پر یقین کیے ہوئے تھے کہ اللہ کے راستے پر چلنے ، اس کے باغیوں سے علیحدہ ہونے اور اس دین کے فریضے یعنی نیکی کی طرف بلانے اور برائی سے روکنے پر عمل کرنے کے لیے اکثریت کی حمایت کی ضرورت ہے ،انہیں اب ان کا ادراک ہوجانا چاہیے کہ اللہ اپنے احکامات کے نفاذ کا مقدمہ عوام کی عدالت میں نہیں لے جاتا۔عوام بھی وہ مسلمان جنہوں نے اس کے آئین اور اس کے دستور پر کلمہ طیبہ پڑھ کر حلف اٹھایا ہو، اس کا دستور اور اس کا آئین صرف قرآن ہے۔چلو مان لیا اسے نافذ کرنے کے لیے تو تمہیں قوت نافذہ کی ضرورت تھی، وہ آپ کے پاس نہیں تھی، نہ عوام آپ کو پسند کرتے تھے اور نہ ہی کوئی کیل کانٹے سے لیس فوج آپ کی ہمنواتھی‘ لیکن آپ اس کے لیے جوابدہ ضرور ہوں گے کہ آپ نے اکثریت کی حمایت کو اللہ کی شریعت سے مشروط کردیا ۔آپ تو سرمایہ دارانہ اور سودی معیشت پر پلنے والے جمہوری نظام کی بیساکھیاں تھے۔آپ نے موقع فراہم کیا کہ مغربی سرمایہ دار پوری دنیا میں یہ پرپیگنڈہ کرسکیں کہ یہ دیکھو جمہوریت کا حسن ، مذہبی جماعتیں ووٹ لے کر اسمبلی میں آتی ہیں‘ وزارتیں بناتی ہیں ۔کیا کمال ہے کہ روز رات کو خوش الحانی کے ساتھ دعائے قنوت میں اللہ سے ایک وعدہ کرتی ہیں ’’اے اللہ ہم ان سے بائیکاٹ کرتے ہیں جو تیرے منکر ہیں‘‘ اور صبح ان کے ساتھ بغل گیر ہوتی ہیں۔ کیسی کیسی دلیلیں ڈھونڈ کر لائی جاتی ہیں اپنے اس عمل کے لیے اور میرے پیارے رسولﷺ کی سنت کو میثاقِ مدینہ کے حوالے سے جواز بنایا جاتا ہے۔ میں میثاقِ مدینہ کے ابتدائی کلمات تحریر کر رہا ہوں ’’یہ نوشتہ یا دستاویز محمدﷺ کی طرف سے ہے جو نبی ہیں قریش اور اہلِ یثرب میں سے‘ ایمانداروں اور اطاعت گزاروں نیز ان لوگوں کے درمیان جو ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کے ہمراہ جہاد میں حصہ لیں‘‘۔ باقی سب معاملات کو چھوڑ دیں‘ شریعت کا نفاذ‘ امریکہ سے جنگ‘ طاغوت سے لڑائی‘ فحاشی و عریانی کا خاتمہ… کیا یہ تمام دینی‘ مذہبی اورگروہی جماعتیں دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتی ہیں کہ وہ اگر سود کے خلاف آواز اٹھائیں گی تو ان میں سے کوئی ایک بھی ان کے ساتھ شریک نہ ہوگا۔ پورے عالم اسلام کے ایک ارب ستر کروڑ مسلمان… شیعہ‘ سنی‘ حنفی‘ مالکی‘ شافعی‘ حنبلی‘ بریلوی‘ دیوبندی اور دیگر گروہوں میں تقسیم ہیں لیکن پورے عالمِ اسلام میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو سود کو جائز قرار دیتا ہو۔ کوئی ایک عالم‘ مبتدی ‘ پیر اور صاحبِ فتویٰ ایسا نہیں جو سود کی حرمت کا قائل نہ ہو۔کیا اس امت کے علماء عملاً اس بات پر کبھی متفق ہوئے؟ کیا انہوں نے سوچا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ تلوار سونتے سود کے خلاف انہیں بلا رہے ہیںکہ آئو ان کے ساتھ کھڑے ہو جائو‘ لیکن یہ علمائے حق اکثریت کے فیصلے کا انتظار کرتے رہے۔ ان سے اللہ کو نہ ماننے والے‘ کارل مارکس کی عظمت کے سامنے سجدہ ریز کمیونسٹ بہتر تھے جنہوں نے یقین کر لیا تھا کہ اس دنیا پر قابض سودی سرمایہ دار غریب مزدور اور کسان کی جمہوری حکومت نہیں بننے دے گا۔ وہ اس کاغذ کی جعلی دولت سے بنائی گئی فوجی طاقت سے بھی لڑے اور اس دولت سے خریدی گئی رائے عامہ سے بھی۔ چین‘ روس‘ ویت نام‘ کوریا‘ کیوبا‘ کہاں کہاں میدان جنگ نہ بنا۔ ان کو مزدور کی جدوجہد پر اس قدر ایمان و یقین تھا کہ انہوں نے لاکھوں گردنیں کٹوا دیں۔ اپنا نظام نافذ کر کے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ نظام انسان کا بنایا ہوا تھا‘ پچھتر سال بعد فیل ہو گیا‘ لیکن آج بھی ان میں کسی کو اپنی جدوجہد پر شرمندگی نہیں۔ انہوں نے سرمایہ دارانہ سودی معیشت اور جمہوریت کے خلاف جنگ کی اور اس میں کسی ملک کی سرحدوں کا کوئی احترام نہ کیا۔ وہ مزدور کو’’ امتِ واحد ‘‘سمجھتے تھے۔ چیہ گویرا بولیویا سے اٹھا اور کیوبا میں جا کر لڑا‘ سارتر فرانس سے الجزائر جا کر لڑا‘ آج یہ سب لوگ احترام کی بلندیوں پر سمجھے جاتے ہیں۔ کوئی چیہ گویرا کو اسامہ بن لادن کہتا ہے، فرانس کے اس سرمایہ دار کو، جس نے مکھی کی جنگ (War of the flea)لکھی تھی اور ویت نام جا کر لڑا تھا،ایمن الظواہری کا لقب دیا جاتا ہے ، ہرگز نہیں۔ یہ سب انسانیت کے ہیرو ہیں‘ امریکہ سے لڑنے والے‘ سودی سرمایہ دارانہ معیشت سے جنگ کرنے والے‘ کسی میں جرأت ہے کہ ان کو دہشت گرد کہے۔ کاش ہم میں اتنا بھی ایمان ہوتا۔ کاش ہم اس ایک نکتے پر جمع ہو جاتے جس پر پوری امت میں کسی ایک کو بھی اختلاف نہیں۔ کاش ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کی جانب ہوتے۔ لیکن پتہ نہیں کیوں یہ احساس مجھے خوف میں مبتلا کرتا ہے کہ پورا امریکہ اور مغرب سود کے نظام اور کاغذ کے نوٹوں کے خلاف مستقل جنگ میں مصروف ہے۔ قبرص اور یونان کے معرکے سامنے ہیں۔ یہ تو اتمام حجت ہے ہمارے علماء کے لیے‘ ورنہ اللہ کا عذاب تو ہے ہی کہ ’’تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے تمہیں ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا دیں‘‘ (الانعام 65)۔ جن کے سینے پر اللہ نے حق کھول دیا ہو اور وہ اس پر اکٹھے نہ ہوں تو پھر یہی ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved