وہی ہماری پرانی بیٹھک اور پرانا اڈہ جہاں ہم چند دوست بڑے عرصے سے اکٹھے ہوتے ہیں اور رات گئے تک گپیں لگتی ہیں۔ ارشد شریف ‘ خاور گھمن‘ ضمیر حیدر‘ راجہ عدیل اور علی تو مستقل موجود ہوتے ہیں۔ باقی یار دوست کبھی کبھار وہیں جوائن کرلیتے ہیں ۔ شاہد بھائی کی بھی مہربانی ‘وہاں ویک اینڈ پر محفل جم جاتی ہے۔ان کا دل بڑا اور مہمان نوازی کمال کی ہوتی ہے۔
ارشد شریف سے میں پوچھنے لگا :کیا ہوا وزیراعظم عمران خان تم سے پھر ناراض ہوگئے ہیں کہ اس دفعہ پھر تمہیں صحافیوں سے ہونے والی ملاقات میں نہیں بلایا گیا ؟ ارشد شریف اکثر ایسے سوالات کو اپنی مخصوص پراسرار مسکراہٹ کے لبادے میں چھپا لیتا ہے‘ کہنے لگا: یار تم تو جانتے ہو کہ جب بھی وزیراعظم نے ماضی میں بلایا تو میں نے تو آپ لوگوں کی طرح کبھی کوئی سوال تک نہیں پوچھا ۔ اب مجھے کیا پتہ وہ پھرکیوں ناراض ہوگئے ہیں ۔ میں نے کہا: آج تمہاری روایت کو میں نے نبھایا اور دو گھنٹے کی طویل ملاقات میں چپ کر کے انہیں سنتا رہا اور کوئی سوال نہیں پوچھا ۔ ارشد شریف کہنے لگا: تم نے سوالات کیوں نہیں پوچھے؟ معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور میڈیا ایڈوائزر یوسف بیگ مرزا کی مہربانی کہ دو تین دفعہ مجھے اشارہ کر کے پو چھا ‘کوئی سوال پوچھنا ہے؟ میں نے آنکھوں آنکھوں میں ان کا شکریہ ادا کیا اور دو گھنٹے وزیراعظم کی صحافیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو انجوائے کرنے کو ترجیح دی ۔ میں نے کہا: ویسے بھی میری یہ رائے ہے کہ پچھلے ایک سال میں جب بھی وزیراعظم اور ان کی حکومت کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں تو صحافیوں کو بلا لیا جاتا ہے اور ان سے ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے نام پر مدد مانگ لی جاتی ہے‘ لیکن جونہی وہ مشکل گزر جاتی ہے‘ تو میڈیا کے لیے سخت قوانین اور سزائیں اور لعن طعن شروع ہوجاتی ہے۔
اس دفعہ یہ بات واضح تھی کہ وزیراعظم کا میڈیا کی طرف صبر اور توازن کم ہورہا ہے۔ وہ میڈیا سے ہرٹ محسوس کرتے ہیں اور ان خبروں کا حوالہ دیتے ہیں جو ان کے خلاف میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا: میرے خلاف یہ خبر چلائی گئی کہ چیئرمین سی ڈی اے کو اس لیے ہٹایا گیا کہ وہ ان کے بنی گالہ گھر کو ریگولر کرنے کو تیار نہیں تھے۔ یہ غلط خبر تھی۔ انہوں نے پیمرا کو شکایت کی اور فیصلہ ہوا تو عدالت نے سٹے دے دیا ‘لہٰذا وہ فوری انصاف کے لیے میڈیا ٹریبونل بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف صحافی عمران خان سے دور ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جب عمران خان دن رات خود مخالفیں پر تابڑ توڑ حملے کرتے تھے تو یہی میڈیا براہ راست رپورٹ کرتا تھا۔ ایسی کئی باتیں تھیں‘ جو عمران خان خود کرتے رہے اور وہ یہی میڈیا رپورٹ کرتا رہا۔ اب وہی باتیں عمران خان صاحب کو اچھی نہیں لگتیں‘ جب ان کے وزیروں اور حکومت کے بارے میں میڈیا میں آتی ہیں ۔
دو گھنٹے کی اس طویل ملاقات میں ایک بات طے تھی کہ حکمران کوئی بھی ہو وہ خود کو کبھی غلط نہیں سمجھتا ۔ میں کئی دفعہ ایسی ملاقاتوں میں موجود رہا ہوں جہاں وزیراعظم وہی باتیں کرتے تھے جو اب عمران خان کررہے ہیں۔ عمران خان کو صرف ایک ایڈوانٹیج ہے کہ وہ پہلی دفعہ وزیراعظم بنے ہیں‘ لہٰذا انہیں بہت سا شک کافائدہ مل جاتا ہے۔ پھر وہ باتوں کو ہر اچھے اور سمجھدار سیاستدان اور حکمران کی طرح twist دینا جانتے ہیں۔ انہیں ماضی کا حوالہ دے کر ان کی کوئی بات یاد دلانے کی کوشش کی جائے تو بھی وہ اس کا دفاع کرلیتے ہیں کہ اُن حالات میں وہ بات درست تھی اور موجودہ حالات میں یہ بات درست ہے۔ وہ خود کو اس وقت بھی ٹھیک سمجھتے تھے‘ جب وہ میڈیا کی آزادی کے قائل تھے اور وہ خود کو اس وقت بھی درست سمجھتے ہیں جب وہ میڈیا پر برس رہے ہیں کہ وہ کیوں ان کی حکومت کی غلطیاں‘ نااہلی یا ان کے وزرا کی کرپشن سامنے لارہا ہے؟ دراصل وہ ساری عمر ایک ہیرو کی طرح رہے ہیں اور عمر بھر مداحین ا ور فین کلب سے اپنی تعریف سنتے آئے ہیں۔ پھر اپوزیشن میں رہے تو بھی وہ دوسروں پر تنقید کرتے رہے‘ ان پر تنقید نہیں ہوتی تھی۔ وہ جو چاہتے تھے کہہ دیتے تھے‘ ان پر کوئی ذمہ داری نہیں تھی ۔ اس لیے جب وہ حکومت میں آئے ہیں تو اس بات پر ابھی تک ذہنی طور پر تیار نہیں کہ اب تنقید کا رخ ان کی طرف ہوگا ۔ مجھے یاد ہے بہت سے لوگ ہمیں کہتے تھے کہ آپ لوگ عمران خان پر کیوں اس طرح تنقید نہیں کرتے جیسے آپ وزیراعظم نواز شریف یا شاہد خاقان عباسی پر کرتے ہیں۔ تو اس وقت ان دوستوں کو یہی جواب دیتے تھے کہ اس وقت جو بھی فیصلے ہورہے ہیں ان میں عمران خان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ جو اچھا برا ہورہا ہو اس کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ ہمیشہ حکمران کو ملتا ہے۔ تیل کی قیمت اسحاق ڈار بڑھائیں یا قرضہ لے آئیں تو کیسے کوئی صحافی تنقید عمران خان پر کرنے لگ جائے؟ اب اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ عمران خان ابھی تک اپوزیشن لیڈر کے ذہن کے ساتھ چل رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا ان کے ساتھ بہت فرینڈلی رہا ہے‘ لہٰذا ان بائیس برسوں کی جو انہیں عادت پڑ گئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ اسی طرح ان کے ہر کام کو سراہا جائے۔ میڈیا بھی ان کا فین کلب بن کر رہے۔ وہ کوئی بھی ٹی وی چینل دیکھیں‘ وہاں ان کی اس طرح تعریفیں ہورہی ہوں جیسے ان کے وزیراعظم بننے سے پہلے ہوتی تھیں۔ پھر ان کے نزدیک وہی لوگ ہیں جو پی ٹی آئی سے نہیں ہیں‘ جو ماضی میں حکمرانوں کے طبلچی رہے ہیں اور اب وہ عمران خان کے اردگرد اکٹھے ہیں۔ یہی لوگ تھے جو جنرل مشرف کو بھڑکاتے تھے اور اس کا انجام مشرف کے اقتدار کی تباہی پر منتج ہوا تھا‘ جب انہیں یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ فوری طور پر ایمرجنسی لگا دیں۔ ایک دفعہ مجھے مرحوم جنرل حامد جاوید‘ جو جنرل مشرف کے چیف آف سٹاف تھے‘ نے بتایا تھا کہ جنرل مشرف کو بھی اس طرح کے ہجوم نے گھیر لیاتھا جو میڈیا اورعدالتوں کے خلاف تھا ا ور انہوں نے جنرل مشرف سے وہ فیصلہ کرایا جو ان کی تباہی کا سبب بنا تھا ۔ بقول جنرل حامد جاوید کے وہ اس فیصلے کے خلاف تھے ‘لہٰذا جنرل مشرف نے انہیں خود سے دور کر لیا تھا اور وہ چھٹی لے کر چلے گئے تھے۔ اس وقت بھی سب شکایتیں وزیراعظم شوکت عزیز کو میڈیا اور عدالتوں سے تھیں اور وہ جنرل مشرف کے کان بھر رہے تھے۔
اب بھی آپ دیکھیں تو عمران خان کے گرد اکثر وہی لوگ ہیں جو جنرل مشرف کے ساتھ تھے اور دھیرے دھیرے وہ عمران خان کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ سب خرابی میڈیا میں ہے‘ ورنہ وہ تو بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے صحافیوں سے ملاقات میں کھل کر یہ بات کہہ دی تھی کہ یہاں موجود اگر تین صحافی محمد مالک ‘ عامر متین اور رئوف کلاسرا ان کی حکومت پر تنقیدی خبریں یا دوسرے لفظوں میں سکینڈلز فائل نہ کریں تو ملک کی معیشت بہتر ہوجائے گی۔ پہلے تو ہم سمجھے وہ بات شاید مذاق میں کررہے ہیں‘ لیکن جب چونک کر ان کی طرف میں نے دیکھا تو وہ واقعی یہ بات سنجیدگی سے کہہ رہے تھے۔
مجھے ایک پرانا لطیفہ یاد آیا کہ انگریز دور میں جب برما کے محاذ پر برطانوی فوجیں جنگ لڑ رہی تھیں تو فرنگی سرکار نے ہندوستان میں اپنے وفاداروں سے جنگ لڑنے کے لیے بندے مانگ لیے۔ ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے ایک گائوں میں جا کر وہاںکے نمبردار سے ملاقات کی اور اسے سمجھایا کہ اس وقت سلطنت برطانیہ مشکل کا شکار ہے‘ اسے اپنے وفاداروں اور دوستوں کی مدد درکار ہے۔ اسے گائوں سے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو جاپانی فوجوں سے جا کر لڑیں تاکہ ملکہ برطانیہ کی سلطنت کو بچایا جا سکے۔ گائوں کا نمبردار کافی دیر سنتا رہا اور پھر بولا :آپ کا مطلب ہے اس وقت ملکہ برطانیہ‘ جس کی سلطنت کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا‘ کی عزت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم چاہیں تو ملکہ صاحبہ کی عزت بچا سکتے ہیں ؟ ڈپٹی کمشنر بولا: جی بالکل آپ درست سمجھے ہیں ۔ گائوں کے نمبردار نے ہاتھ باندھ کر کہا: سرکار اگر برطانوی ملکہ کی عزت برقرار رکھنے کی بھاری ذمہ داری اب ہمارے گائوں کے نوجوانوں کے کندھوں پر آن پڑی ہے تو پھر بہتر ہے آپ جاپانی فوجوں سے صلح کر لیں ۔