تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     26-10-2019

ہم غلام نہ تھے بس بیکار نکلے

انگریزوں کا راج چھوڑ کے ہندوستان کے حکمران مسلمان آٹھ سو سال تک رہے لیکن دائمی ریاست نہ بنا سکے۔ قانونِ وراثت مرتب نہیں ہو سکا۔ تقریباً ہر بادشاہ کی وفات کے بعد جنگ و جدل سے وراثت کا فیصلہ ہوتا۔ سلطنت بھی ایک نہ رہی۔ ترک آئے، افغان آئے اور پھر وسطی ایشیاء سے تیموری خاندان کے ظہیر الدین بابر آئے۔ اپنی چھوٹی سی سلطنت فرغانہ اپنے دشمنوں کے ہاتھوں بابر کھو چکے تھے اور ایک نئی سلطنت کی تلاش میں بادشاہِ کابل بن گئے۔ وہاں سے اُن کی نظریں پہلے پنجاب اور پھر ہندوستان پر لگیں۔
تیموری خاندان نے بہت عروج دیکھا۔ بابر سے لے کر اورنگزیب تک چھ شہنشاہ بہت قابل اور طاقتور رہے۔ تیموری سلطنت تب اپنے عروج کو پہنچی۔ لیکن بیماری وہی لاحق رہی کہ سلطنت گو بہت امیر اور طاقتور تھی لیکن دائمی ریاست کی شکل اختیار نہ کر سکی۔ تیموریوں کی ایڈمنسٹریشن مضبوط تھی اور فوج بھی بڑی تھی لیکن ہر بادشاہ کی وفات کے بعد وراثت کے جھگڑے رہے اور وراثت کا فیصلہ تلوار سے ہی ہوا۔ دائمی ادارے تیموری قائم نہ کر سکے۔ بادشاہ طاقتور اور مضبوط ہوتا تو سلطنت چلتی۔ اورنگزیب کے بعد کمزور حکمران آئے تو سلطنت انتشار کا شکار ہوتی گئی۔ پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ اورنگزیب کی وفات کے تقریباً بتیس سال بعد تیموری سلطنت اتنی کمزور ہو گئی کہ ایران کے نادر شاہ نے جب حملہ کیا تو اُسے روکنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ بآسانی دہلی پہ قابض ہو گیا۔ اکبر اور شاہجہان کا اکٹھا کیا ہوا خزانہ نادر شاہ لوٹ کرلے گیا۔ شاہجہان کا تخت، کوہ نورکا ہیرا اور بے شمار تیموری خواتین بھی نادر شاہ کے فاتحانہ کاروان کا حصہ بنیں۔ سو سال سے کچھ زیادہ نام کی تو تیموری سلطنت رہی لیکن اصل میں ختم ہو چکی تھی۔ مسلمانوں نے ہندوستان فتح کیا کیونکہ وہ طاقتور تھے۔ کمزور ہوئے تو اوروں نے ان کی جگہ لے لی۔ جو ترکوں‘ افغانوں اور تیموریوں نے ہندوستان کے ساتھ کیا‘ وہی انگریزوں نے سب سابقہ ادوار کے فاتحین کے ساتھ کیا۔ لہٰذا انگریزوں کا آنا ہندوستان کی تاریخ کے سنہرے اصولوں کے عین مطابق تھا‘ یعنی جس کی تلوار اُسی کی سلطنت۔ 
فرق البتہ بہت گہرا تھا۔ جہاں آٹھ سو سال سے زائد عرصہ تک مسلمان فاتحین دائمی ریاست نہ بنا سکے انگریزوں نے آ کے ایک ایسی سلطنت قائم کی جو فرد واحد کی بجائے اداروں اور قانون کے ایک ڈھانچے پہ قائم تھی۔ انہوں نے پہلے ہندوستان میں امن قائم کیا اور پھر قانون لائے۔ پھر یہ یقینی بنایا کہ اُن کے لائے گئے قوانین کی پاسداری ہو۔ ہندوستان میں قانون کی حکمرانی کا پہلا تصور انگریز لائے۔ وائسرائے ہند کی بڑی شان و شوکت تھی لیکن وہ کسی ترک، افغان یا تیموری بادشاہ کی طرح من پسند یا مرضی کی حکومت نہیں کر سکتا تھا۔ جو بھی قانونی ڈھانچہ تھا وائسرائے ہند بھی اُس کے تابع تھے۔ 
انگریزوں نے اشرافیہ کو ساتھ ملایا۔ ایک نئی اشرافیہ بھی پیدا کی اور اُس کو بھی اپنی حکومت کا معاون بنایا۔ لیکن اُن کی حکومت شخصی حکومت نہ تھی۔ حکم چلتا تھا تو قانون کا۔ ایک اور چیز انہوں نے یہ کی کہ اپنی حکومت کو مذہبی پہلوؤں سے دور رکھا۔ انگریز راج سیکولر راج تھا۔ اسی لیے ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہندو، مسلمان، سکھ اور دوسرے مذاہب کے لوگ انگریز راج کے برابر کے شہری تھے۔ مذہب کی وجہ سے کوئی اونچ نیچ نہ تھی اور ریاستی معاملات میں مذہب کا کوئی دخل نہ تھا۔ 
قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اور بتدریج انگریزوں نے سیاسی اداروں کی ابتدا ہندوستان میں کی۔ انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد کسی ہندوستانی نے نہیں بلکہ ایک انگریز نے رکھی۔ اخبارات کا پہلا اجرا انگریزوں کے زمانے میں ہوا۔ نمائندگی کا تصور بھی انگریزوں سے آیا۔ ہندوستان میں الیکشنوں کے تصور سے کسی کو کیا واسطہ تھا؟ پہلے لوکل کونسل اور ڈسٹرکٹ بورڈ کی بنیاد انگریزوں نے رکھی اور اُس کے بعد نمائندگی کا تصور صوبوں تک گیا۔ 
جو بولنے والے اور سوچ رکھنے والے ہندوستانی پیدا ہوئے چاہے وہ ہندو تھے یا مسلمان وہ سب اُس ماحول کی پیداوار تھے جو انگریزوں نے پیدا کیا۔ بیشتر ہندو اور مسلم لیڈر انگریزی تعلیم سے مستفید ہوئے اور اُن کا سیاسی فلسفہ بھی وہیں سے آیا۔ جو تحریک آزادی یا یوں کہیے زیادہ نمائندگی کی تحریک پیدا ہوئی اُس کے پہلے لیڈر زیادہ تر ہندو تھے۔ اور وہ سارے کے سارے انگریزی تعلیم سے بہرہ ور تھے۔ ہمارے محمد علی جناح، اُن کی تعلیم کیا تھی اور اُن کا سیاسی فلسفہ کیا تھا؟ سارے کا سارا انگریز کے تشکیل شدہ ماحول کی پیداوار تھا۔ 
ہندوستان کا ایک اکائی کی صورت میں نقشہ اکبر اعظم کے دور میں سامنے آیا۔ لیکن جیسا ہم جانتے ہیں‘ تیموری وحدت زیادہ دیر تک نہ رہی اور انتشار کا شکار ہو گئی۔ ہندوستان کااتحاد پھر انگریزوں نے قائم کیا اور چونکہ اُن کی سلطنت اداروں اور قانون پہ قائم ہوئی تھی‘ چنانچہ اُن کا پیدا کردہ اتحاد بھی دیرپا ثابت ہوا۔
ایک اور بات یاد رکھنی چاہیے۔ انگریز نہ آتے تو ہم مسلمان مارے جاتے۔ تیموری سلطنت کے انتشار کے بعد مسلمان ایک زوال پذیر قوم کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ ہر طرف سے پِٹ رہے تھے۔ مرہٹے مضبوط ہو چکے تھے۔ ہندو جاٹ دہلی کے گردونواح میں دندناتے پھرتے تھے۔ پنجاب میں سکھوں نے سلطنت قائم کر لی تھی۔ مسلمان رہ گئے تھے اودھ اور حیدر آباد دکن جیسی چھوٹی بادشاہتوں میں۔ ٹیپو سلطان انگریزوں کے ہاتھوں شکست کھا چکے تھے۔ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی قابل ذکر رکھوالا نہ تھا۔ مسلمانوں کی پوزیشن کو سنبھالا انگریزوں کی آمد نے دیا۔ مسلمانوں کا زوال وہاں رُک گیا کیونکہ پورے ہندوستان میں جو ایک خانہ جنگی کی کیفیت تھی وہ انگریزوں نے آ کر ختم کی اور امنِ عامہ کو یقینی بنایا۔ انگریز نہ ہوتے تو سر سید احمد خان نہ ہو سکتے تھے۔ انگریز نہ ہوتے تو مسلم لیگ کا 1905ء میں ڈھاکہ میں قیام کیسے ممکن ہوتا؟ مسلم لیگ کے اکابرین مطالبات وائسرائے ہند لارڈ منٹو کے سامنے لے کے گئے تھے۔ لارڈ منٹو نہ ہوتا تو ہمارے اکابرین کس کے سامنے فریاد کرتے؟
بحیثیت قوم تاریخ سے ہمیں زیادہ رغبت نہیں۔ ہم تو کہانیاں بنانے والے اور اُن پہ یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ انگریزوں کی اگر مخاصمت کسی سے تھی تو وہ انڈین نیشنل کانگریس کی لیڈرشپ سے تھی۔ اُن کی مخاصمت مسلم لیگ لیڈرشپ سے کبھی نہ رہی۔ یہ صورتحال اس لیے تھی کہ انگریزوں کے خلاف تحریک کانگریس نے شروع کی تھی اور جنگ عظیم دوئم کے دوران جب انگلستان کو ہٹلر کے ہاتھوں مہلک خطرہ درپیش تھا تو تمام کی تمام کانگریس قیادت برطانوی جیلوں میں تھی۔ وہی سال تھے 1940ء سے لے کر 1946ء تک جب مسلم لیگ نے زور پکڑا اور مسلمانانِ ہند کی نمائندہ پارٹی کے طور پہ نمایاں ہوئی۔ یہ درست ہے کہ آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کانگریس اور پنڈت جواہر لال نہرو کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے لیکن تب تک تاریخ کے بڑے فیصلے ہو چکے تھے۔ 
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم پاکستان میں رہنے والے کہانیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ جو ریاست ہماری ہے ہم نے زور بازو سے نہیں جیتی۔ یہ ریاست اُن واقعات کی پیداوار ہے جو انگریزوں کے بر صغیر میں آنے کے بعد رونما ہوئے۔ رنجیت سنگھ کی سلطنت قائم رہتی تو ظاہر ہے پاکستان نہ بنتا۔ مرہٹوں کی حکومت ہوتی تو نریندر مودی یا اُن جیسا کوئی اور سو ڈیڑھ سو سال پہلے پیدا ہو جاتا۔ پاکستان معرضِ وجود میں نہ آتا۔ اور ہماری ریاست میں اگر آئین یا قانون نام کی کوئی چیز ہے تو یہ بھی اُسی دور اور انگریزوں کے حادثے کی پیداوار ہے۔ اگر پاکستان نے کہیں سے Inspiration لینی ہے تو اصل حقائق سے لے نہ کہ فرضی کہانیوں سے۔ یہ بات اچھی لگے یا کڑوی پوری ہندوستانی تاریخ میں دیرپا حکمرانی کا ایک ہی کامیاب تجربہ رہا ہے اور وہ ہے انگریزوں کے حوالے سے۔ 
الہن نیاز ایک نوجوان تاریخ دان ہیں۔ کم عمری میں بہت سی اچھی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ اُن کی نئی کتاب The State During the British Raj ابھی ابھی شائع ہوئی ہے۔ بہت عمدہ کتاب ہے۔ پاکستان کی تاریخ اور اُس کی موجودہ حالت کو سمجھنا ہو تو اِس کتاب کا پڑھنا بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ میں نے ٹوٹے پھوٹے انداز میں اوپر کے واقعات بیان کیے ہیں۔ الہن کی کتاب پڑھنے سے وہ زیادہ واضح ہو جاتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved