حالیہ انتخابی مہم کے دوران پی ٹی آئی نے شہری اور دیہاتی علاقوںسے تعلق رکھنے والے بوڑھوں، جوانوں، لڑکوں اور لڑکیوں کو متاثر کرنے کے لیے کرکٹ کی اصطلاحات استعمال کیں۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ ہم کرکٹ سے محبت کرنے والی قو م ہیں، چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ ایک ٹیم کے لیے کپتان کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ جب میچ کے فیصلہ کن مرحلے میں کپتان کا بلا رنز اگلنے لگے تو وہ اننگ بہت اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے اور چاہے نتائج جو بھی ہوں، مبصرین کہتے ہیں کہ ۔۔۔’’کپتان اگلے قدم پر آ کر دبائو کو اپنے کندھوں پر لیتے ہوئے ٹیم کی قیادت کررہا ہے۔‘‘ عمران خان سیاست کے میدان میں گزشتہ سترہ برس سے ہیں ۔ اس دوران اُنھوںنے ، بغیر سیاسی پس ِ منظر اور کسی قابل ِ ذکر کامیابی کے، کسی بھی سیاست دان سے زیادہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ انتخابی نتائج جو بھی ہیں، اس سے قطع ِ نظر ، اُنھوںنے ’’نیا پاکستان ‘‘ کے نعرے سے پاکستانی سیاست کے پیرائے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا ہے۔ اس نئے پاکستان کا مطلب تبدیلی ہی ہے۔ کالم کی اشاعت تک قارئین کو تمام نتائج کا بخوبی علم ہوچکا ہوگا اور اُن کی آنکھوںکے سامنے سیاسی منظر نامہ واضح ہو چکا ہو گا۔اس وقت میرے پیشِ نظر وہ تین تبدیلیاں ہیں جو عمران کی محنت ، استقامت اور جذبے کی بدولت اس معاشرے میں برپا ہو چکی ہیں۔ انتخابی نتائج، جو یقینا پی ٹی آئی کے لیے بظاہر حوصلہ افزا نہیں ہیں، جو بھی آئیں، کوئی سیاسی جماعت یا رہنما ان تبدیلیوں کے اثرات کو نہیں مٹا سکتا ہے۔ کپتا ن کی لائی گئی سب سے پہلی تبدیلی یہ ہے کہ اُنھوں نے نوجوانوں کو سیاست کے دروبام سے آشنا کر دیا ہے ، خاص طور پر اُن گھرانوں کے نوجوانوںکو جو سیاست کو حرف ِ غلط سمجھتے تھے۔ نوجوانوںکو یہ تحریک دینا کوئی معمولی کارنامہ نہیںہے کیونکہ بھٹو صاحب (1970ء کے انتخابات ) کے بعد سے کوئی سیاست دان ایسا نہیں کر سکا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سحر انگیز شخصیت کی بدولت ایک عوامی تحریک کی قیادت کی، تو وہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان تھے اور کوچہ ٔ سیاست کے دائو پیچ سمجھتے تھے۔ اُن کو اس تجربے کا فائدہ بھی ہوا تھا، تاہم جب عمران نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو وہ (اگرچہ نوجوان نہیںتھے)اس کھیل میں نووارد تھے۔ کرکٹ کے میدان کا تجربہ یہاں کام نہیں دیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اُن کو روایتی خاندانی سیاست دانوں اور عام لوگوں نے درخور ِ اعتنا نہ گردانا، اگرچہ کھیل کے میدان کے وہ ہیرو تھے۔ اُس وقت بہت سے سیاسی ناقدین نے کہا کہ وہ بہت جلد اصغر خان کی طرح سیاست سے آئوٹ ہو جائیں گے کیونکہ ان کا کوئی سیاسی پس ِ منظر نہیںہے۔ تاہم ایسا نہیںہوا، اور آج سترہ سال بعد عمران نے اس قوم کو کسی بھی سیاسی رہنما سے زیادہ متحرک کر دیا ہے۔ اس تحریک کے عملی نتائج تو انتخابی سیاست میں ہی واضح ہوں گے۔ اگر موجودہ انتخابات میں اُن کے زیادہ افراد اسمبلیوں میں نہیں بھی پہنچ سکے لیکن جو اثر وہ نوجوانوں پر چھوڑ رہے ہیں، اُس کے لیے ایک انتخابات کے نتائج کوئی لٹمس ٹیسٹ نہیں ہیں۔ دوسری اہم تبدیلی یہ ہے کہ عمران خان نے نوجوانوں کو تحریک دینے کے ساتھ ساتھ سیاست کو خاندانوں اور برادریوںکے بندھن سے آزاد کرانے کی طرف پیش قدمی کی ہے ، اور یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیںہے۔ درحقیقت عمران کے سیاسی نعرے نے روایتی خاندانی سیاست کو چیلنج کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُسے نوجوانوںکی بھر پور حمایت ملی ہے کیونکہ نوجوان خون اس روایتی طرز ِ سیاست سے بیزار ہے۔ تبدیلی کے اس نعرے نے نوجوانوں کو باور کرا دیا ہے کہ وہ ووٹ کی طاقت سے پاکستان کو تبدیل کر سکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اُنہیں بڑے بڑے خاندانی ناموں کی ضرورت نہیںہے۔ ہو سکتا ہے کہ گیارہ مئی کے نتائج اس تبدیلی کی غمازی نہ کرتے ہوں لیکن یاد رکھیں کہ تبدیلی ایک عمل ، نہ کہ انجام، کا نام ہے۔۔۔ اور ابھی تو اس کا آغاز ہی ہوا ہے۔ تیسری اہم تبدیلی یہ ہے کہ عمران خان نے پاکستانی نوجوان کو باور کرا دیا ہے کہ روایتی سیاست دان بدعنوان اور نااہل ہیں، چنانچہ وہ ملک میںکوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ اُس کا نعرہ ہے کہ پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) پانچ یا چھ باریاں لے چکے ہیں، چنانچہ ان کو آزمانے کا کوئی فائدہ نہیںہے۔ آخر میںسب سے اہم تبدیلی یہ ہے کہ اس مرتبہ ملک کی خاموش اکثریت بھی انتخابی عمل میں شریک ہورہی ہے۔ وہ جس کو بھی ووٹ ڈالیں، اس سے ملکی صورت ِ حال پر مثبت اثرمرتب ہو گا۔ سیاست دان یہ سمجھنے لگ جائیںگے کہ اُن کے افعال و کردار کو بہت سے لوگ دیکھ رہے ہیں اور اگلے انتخابات میں انہیں اُن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ سوچ ایک نئے پاکستان کی طرف پہلا قدم نہیںتو اور کیا ہے ؟اس وقت ہمارے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ انقلاب ِ فرانس اور عرب بیداری سے بہت بہتر ہے۔ اس مثبت تبدیلی کا سہرا یقینا کپتان کے سر جاتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved