تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     26-10-2019

اسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے

اگر مجھ سے پوچھیں تو 2014 کا دھرنا عمران خان کی سیاست میں پہلی شکست تھی۔ اس سے پہلے ان کی سیاست میں ناکامیاں ہوتی رہیں لیکن شکست یہ پہلی تھی۔ وہ بے شک تنہا مدتوں اس میدان میں رہے لیکن ان کی بڑی کامیابی یہ تھی کہ ملک کا سنجیدہ اور تبدیلی کا خواہش مند طبقہ ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کی کثیر تعداد ان کے ساتھ تھی۔ لیکن اس مارچ اور اس دھرنے نے وہ کام کیا جو عمران خان کے مخالف نہیں کر سکے تھے۔ ایک بڑا سنجیدہ طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ عمران خان مخالفت میں ہر لائن عبور کر سکتے ہیں خواہ وہ سول نافرمانی ہی کیوں نہ ہو اور خواہ اس کی قیمت ان کی اپنی مقبولیت ہی کیوں نہ ہو۔
2013کے انتخاب کے نتیجے میں عمران خان یہ بات لے کر کھڑے ہوئے تھے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔ نون لیگ نے اپنے روایتی حیلوں بہانوں سے کام لینا شروع کیا۔ اسی میں ایک سال گزر گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ عمران خان نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ الیکشن کمیشن اور دیگر سرکاری ادارے سب مسلم لیگ کے زر خرید ہیں۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سب اندر سے ایک ہیں اور اب میرے پاس سڑکوں پر آنے اور دھرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔
یہ مؤقف کتنا مضبوط یا کمزور تھا‘ یہ الگ بحث ہے‘ لیکن لانگ مارچ اور عوامی تحریک کے ساتھ دھرنے میں اشتراک نے عمران کے مضبوط حامیوں کی جبینوں پر بھی شکنیں ڈال دیں۔ علامہ طاہرالقادری کے ساتھ اشتراک کئی حوالوں سے پی ٹی آئی کے لیے نقصان دہ رہا۔ وہ لوگ جو تبدیلی دیکھنے کے خواہش مند تھے‘ خان صاحب کے دائیں بائیں ان لوگوں کو دیکھ کر مضطرب ہو گئے جن سے چھٹکارا پانے کے لیے انہوں نے خان صاحب کا انتخاب کیا تھا۔ یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ پی ٹی آئی صرف اس امید پر نکل آئی ہے کہ طاقت کے مظاہرے کے بعد حکومت مجبور ہو جائے گی۔ اگر نہ ہوئی تو پھر کیا ہو گا؟ اس کی کوئی تیاری ہی نہیں تھی۔ رہی سہی کسر جاوید ہاشمی کی علیحدگی اور پریس کانفرنسوں نے پوری کر دی۔ یہ پہلا موڑ تھا جس میں ان شبہات نے ذہنوں میں بیج بونے شروع کر دئیے کہ مخالفین کے اتحاد، انتخابی عمل کے نقائص اور زر خرید افسران کے سامنے بے بس ہو کر خان صاحب نادیدہ طاقتوں کی مدد لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ صحیح تھا یا غلط لیکن شک و شبہے کی طاقت اکثر اوقات دلیل کی طاقت سے بے نیاز ہوتی ہے۔ آرمی پبلک سکول کا واقعہ کتنا ہی بھیانک اور افسوسناک سہی لیکن اس نے دھرنے کو ختم کرنے کا ایک اخلاقی جواز فراہم کر دیا جس کی اس وقت پی ٹی آئی کو شدید ضرورت تھی۔ سو دھرنا انجام کو پہنچا۔ لیکن اس طرح کہ وہ پی ٹی آئی کے حامیوں میں کئی دراڑیں ڈال چکا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ پلٹ کر دیکھنے پر تحریک انصاف کے سنجیدہ رہنما اس دھرنے کو اپنے برے فیصلوں میں شمار کریں گے۔ ہم اس وقت بھی یہی کہتے تھے کہ عمران خان کو کے پی کے میں ان کاموں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جن کا وعدہ کیا گیا تھا اور جن کے لیے ان کے پاس پانچ سال ہیں۔ یہ وقت اور یہ توانائی مرکز سے لڑائی میں ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بالکل سامنے کی بات تھی جو ہر سوچنے سمجھنے والے کو نظر آتی تھی لیکن نواز شریف سمیت ہر حکمران کا حال ہم نے یہی دیکھا کہ سامنے کی بات دیکھنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
اور اب جے یو آئی دھرنا کِیا چاہتی ہے۔ انہوں نے انتخابی نتائج پر الزامات لگائے اور عدالت اور الیکشن کمیشن جانے کا تکلف بھی نہیں کیا۔ وہ انتخابی صدمے سے نکل کر سیدھے اسلام آباد جا رہے ہیں۔
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے 
سوال یہ ہے کہ کیوں؟ کیا یہ واضح مطلب نہیں ہے کہ انہیں نہ عدالتوں پر اعتماد ہے نہ الیکشن کمیشن پر۔ یہی بات جب عمران خان کہتے تھے تو ان کا مذاق کس لیے اڑایا جاتا رہا؟ کیسے آرام سے یہ لوگ، اور یہ لوگ کا مطلب ہے یہ سب لوگ، اس مؤقف کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں جس کے دفاع میں سالہا سال کھڑے رہے۔
بوکھلاہٹ کے بعد قدرے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے حکومت نے آئینی حدود میں رہتے ہوئے مارچ کی اجازت دے دی ہے۔ دوسری طرف جے یو آئی کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں۔ لگ بھگ ایک کروڑ روپے روزانہ کا خرچ کون کرے گا۔ یہ بھی بڑے سوالات میں سے ایک ہے۔ کہا جارہا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ اس مارچ میں شریک ہوں گے۔ ایسا ہوگا یا نہیں لیکن فرض کر لیجیے پانچ چھ لاکھ لوگ اسلام آباد میں جمع ہوجاتے ہیں تو پھر؟ شعلہ بیان تقریروں، مزید الزامات، نعروں اور مطالبات سے آگے پھر کیا؟ کیا اس سے حکومت ڈگمگا جائے گی؟ جبکہ حکومت مخالفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ساری مقتدر قوتیں عمران خان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اب کون امپائر ہوگا جو انگلی بلند کرے گا؟ اور اگر فضل الرحمن اپنی طاقت نہ دکھا سکے جیسا کہ مارچ اور دھرنے میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا تھا تو پھر؟ اور یہ سوالیہ نشان بہت بڑا ہے۔ کیا جے یو آئی ایک اور بڑے صدمے سے گزر سکے گی؟
مہنگائی، معاشی بدحالی اور بیروزگاری سے چیخیں مارتے عوام کے حالات اپنی جگہ‘ لیکن اگر مولانا فضل الرحمن یا کوئی اور جماعت اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ محض اس بنیاد پر حکومت کو گرا لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ پی ٹی آئی کی عوامی طاقت بھی بڑی تعداد میں موجود ہے اور ان کا بڑا ووٹ بینک بھی موجود ہے۔ حکومت مخالف پوائنٹس اتنے نہیں ہیں کہ ایک بڑا عوامی احتجاج تشکیل پا سکے۔ بہت سے نکات حکومت کے حق میں بھی ہیں اور رفتہ رفتہ انچ انچ کرکے پی ٹی آئی اس معاشی دلدل سے نکلتی محسوس ہورہی ہے‘ جس میں وہ اس وقت بری طرح دھنسی ہوئی ہے۔ مجھ جیسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیںکہ توقعات تاحال پوری نہ ہونے کے باوجود اس حکومت کو پورا وقت ملنا چاہیے اور کسی ایسی مہم جوئی سے پرہیز کیا جانا چاہیے جس سے حکومت کی بزور تبدیلی ہو۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا تذبذب یہی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوامی تحریک کے لیے ابھی وقت سازگار نہیں۔ وہ تجربے بھی انہیں ڈراتے ہیں جب تحریکوں کے نتیجے میں پوری بساط ہی لپیٹ کر منہ پر مار دی گئی۔ اگرچہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ایسی کسی مہم جوئی کے اندیشے کم سے کم تر ہو چکے ہیں لیکن بندوق کی نالی کا ہمیشہ سے مسئلہ یہی ہے کہ وہ سنگلاخ زمین نہیں ہدف کو سامنے رکھتی ہے؛ چنانچہ یہ دونوں جماعتیں فرائی پین سے نکل کر آگ میں کودنے کے لیے تیار نہیں مگر مولانا کے جوش و خروش کو استعمال کرنے اور حکومتی فصیل میں پہلے ممکنہ شگاف کے فوائد سمیٹنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامیوں کا کہنا یہی ہے کہ اس وقت کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ ملک معاشی شکنجے سے نکل رہا ہے۔ عام آدمی اور ریاست اس سے باہر نکل آئے تو کسی مہم جوئی کے امکانات یکسر ختم ہوجائیں گے۔ یہ تصور ہی مخالفین کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔
ہم جیسوں کی پریشانی یہ ہے کہ خدانخواستہ اسلام آباد کی سڑکوں پر خون گرا تو اس سرخ لکیر کا رخ کس طرف ہوگا۔ یہ سوچ کر ہی دل لرزتا ہے۔ ہم جیسوں کی پریشانیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور ہر جماعت کی کوشش یہی رہتی ہے کہ وہ ہماری پریشانیاں کم نہ ہونے دے۔ ہم نے 2014 میں یہ کہا تھا کہ اگر یہ روایت بن گئی کہ ہر گروہ عدالت، الیکشن کمیشن اور اسمبلی کو نظر انداز کرکے دس لاکھ انسان اسلام آباد کھینچ لائے تو کیا ہر بار حکومت سر جھکا دیا کرے گی۔ یہی کام تحریک لبیک نے کیا اور اب یہی کام جے یو آئی کرنے جارہی ہے۔ ان کے لیے دروازہ کھل چکا ہے۔ اب ایک غلط روایت کا سد باب آسان نہیں ہے خاص طور پر جب آئینی اجازت کی ڈھال بھی میسر ہو۔
لیکن جناب خان صاحب! میں یہ سوچ رہا ہوں کہ آپ کی توانائیاں اپنے دھرنے کے بعد اب مخالفوں کے دھرنے روکنے میں صرف ہوں گی؟
اسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved