تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     26-10-2019

زوم اور ریکارڈنگ

انسان کی سرشت میں ہے کہ وہ شہوات کو دیکھ کر للچا جاتاہے ۔پہلے پہل تو یہ سب چیزیں راز رہتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ دنیا بدلتی چلی گئی ۔ انسان کو فنگر پرنٹس کا علم ہوا۔ دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں ‘ ان کی انگلیوں کے نشانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جب ایک انسان کسی جگہ پر ایک جرم کرتاہے تو وہاں ہتھیار‘ دروازے کے ہینڈل اور گاڑی کے سٹیرنگ وغیرہ پر اس کی انگلیوں کے نشانات رہ جاتے ہیں ۔ 
یورپ اور امریکہ میں بیسویں صدی کے اوائل میں پہلی دفعہ فنگر پرنٹس کو بطور ثبوت استعمال کرتے ہوئے مجرموں کو سزا دینے کا عمل شروع کیا گیا ۔آہستہ آہستہ انسان اس قابل ہو گیا کہ کسی شخص کی آوا ز ریکارڈ کی جا سکے ۔پھر یہ آواز بطور ثبوت پیش کی جانے لگی کہ اس شخص نے فلاں وقت پر فلاں جرم کا اعتراف کیا تھا ۔بے شمار دفعہ ایسا ہو اکہ جب ایک شخص قتل ہوا تو اس کے موبائل فون میں موصول ہونے والی آخری فون کالز کی مدد سے قاتل کا سراغ لگا لیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آوازیں ختم نہیں ہو رہی تھیں بلکہ ایک مستقل ریکارڈ کا حصہ بن رہی تھیں ۔ 
وقت گزرتا گیا۔ انسان نے سلیکان جیسے عناصر استعمال کرتے ہوئے کیمرہ ایجاد کیا۔ تصاویر ثبوت بننے لگیں ۔ پھر وڈیو کا زمانہ شرو ع ہوا ۔ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونا شروع ہوئے ۔ بے شمار مجرم ان سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے پکڑے گئے ۔ رحیم یار خان میں مبینہ طور پر ذہنی معذور ملزم صلاح الدین کی گرفتاری بھی اے ٹی ایم میں نصب کیمرے کی مدد سے ہی ہوئی تھی ۔ بعد ازاں جیسے اسے ماورائے عدالت قتل کیا گیا‘ وہ ایک علیحدہ داستان ہے ۔ 
کیمرہ اور موبائل فون ایجاد ہونے کے بعد دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوئی ہے ۔ ایک زمانہ تھا‘ جب موبائل فون میں کیمرہ نہیں تھا۔ ہم ایک فلم رول خریدتے ‘ اسے کیمرے میں ڈالتے‘ تیس پینتیس تصاویر کھینچتے۔ پھر یہ رول دھلوایا جاتا ‘ اس کے بعد پتہ چلتا کہ تصاویر کیسی ہیں ۔ جب کہ وڈیو بنانے والے کیمروں کی قیمتیں نہ صرف لاکھوں میں تھیں بلکہ انہیں استعمال کرنے کے لیے ٹیکنیکل مہارت بھی درکار تھی ۔آہستہ آہستہ یہ کیمرے سستے ہونا شروع ہوئے‘ان کا استعمال آسان ہوتا چلا گیا۔ اس لیے کہ دنیا بھر میں لاکھوں آئی ٹی ماہرین انہیں آسان سے آسان تر بنانے میں جتے ہوئے تھے ۔ 
پھر وہ دن آیا‘ جب کیمرے والے موبائل فون بننا شروع ہو گئے۔ آہستہ آہستہ ان کی قیمتیں بھی گرتی چلی گئیں حتیٰ کہ غربا بھی یہ موبائل فون خریدنے کے قابل ہو گئے ۔ 
اس کے ساتھ ہی دنیا میں سارے پردے اٹھتے چلے گئے ۔آج اربوں افراد ہاتھ میں کیمرے والے موبائل فون اٹھائے رپورٹر بنے پھر رہے ہیں۔ پرائیویسی ختم ہوچکی ہے ۔ ہر شخص بہت کچھ ریکارڈ کر کے دنیا کو دکھانا چاہتا ہے ؛حتیٰ کہ فضا میں تباہ ہونے والے طیاروں کے اندر سے آخری لمحات کی وڈیوز بھی دنیا دیکھ چکی ہے ۔ 
آج جب آپ کا موبائل فون گم یا چوری ہوتاہے تو آپ کے ذہن میں سب سے پہلا خیال کیا آتا ہے ؟ آپ سب سے پہلے سوچتے ہیں : میرا ڈیٹا ! میرے ڈیٹا کا کیا ہوگا ؟ تصاویر ‘ وڈیوز ‘ موبائل فون نمبرز ۔ ہم نے موبائل فونز پر پاسورڈ لگانا شروع کیے۔ آج ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے ہمارے سارے contactsموبائل فون میں نہیں بلکہ ای میل اکائونٹس میں saveہو رہے ہوتے ہیں ۔ آپ نیا موبائل فون لیں ‘ اس میں اپنے اکائونٹ سے لاگ ان کریں اور ساتھ ہی سارا ڈیٹا نئے موبائل فون میں منتقل ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح چوری شدہ موبائل کا سارا ڈیٹا انٹر نیٹ سے ڈیلیٹ کیاجا سکتاہے ۔ اس کے باوجود بے شمارمشہور شخصیات کی خفیہ وڈیوز سامنے آچکی ہیں ۔ 
ڈیٹا کس طرح دنیا کے سامنے آتا ہے ‘ اگر آپ یہ دیکھناچاہتے ہیں تو ایڈورڈ سنوڈن کی مثال لیں ۔ وہ امریکی خفیہ ایجنسی میں کام کر رہا تھا۔وہ امریکہ سے بھاگ گیا اور اس نے ساری دنیا کو بتا دیا کہ امریکہ عالمی رہنمائوں سمیت اہم لوگوں کا ڈیٹا چوری کر رہا ہے ۔یہی کچھ وکی لیکس میں ہوا ۔ اہم ترین معلومات ‘ دنیا کے طاقتور ممالک جنہیں کسی صورت منظرِ عام پر آنے نہیں دینا چاہتے تھے‘ وہ کھل کر سامنے آیا ۔یہ اپنی نوعیت کی واحد مثال نہیں ۔روزانہ کی بنیاد پر بہت ساری خفیہ معلومات دنیا کے سامنے آتی رہتی ہیں ‘ جنہیں لوگ ہر صورت میں روکنا چاہتے ہیں۔ بڑے بڑے کمپیوٹرز ہیک ہو جاتے ہیں ۔ معلومات چرا لی جاتی ہیں ۔ آج مغرب میں جو چیز سب سے زیادہ نرخ پہ فروخت ہو رہی ہے ‘ وہ ڈیٹا ہے ۔ دنیا بھر میں بڑے بڑے کال سینٹرز اسی ڈیٹا کی بنیاد پر کروڑوں اربوں روپے کما رہے ہیں ۔ اس کے لیے انہیں یہ مہنگا ڈیٹا خریدنا پڑتا ہے ‘ جسے وہ خوشی سے خریدتے ہیں ۔ میں کنسٹرکشن کا کام کرتا ہوں ۔ مجھے کسی طرح مختلف سوسائٹیز میں پلاٹ مالکان کاڈیٹا مل جائے تو اور کیا چاہیے‘ لیکن یاد رکھیں ‘ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے ۔ 
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اربوں انسانوں کے فنگر پرنٹس مختلف کیوں ہیں ؟ یہ فنگر پرنٹس ایک جیسے کیوں نہیں بلکہ فنگر پرنٹس کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ ذرا سا آپ گہرائی میں اتریں ۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ کسی نے بڑے اہتمام سے ہر شخص کے منفرد (unique)فنگر پرنٹس تخلیق کیے اور خدا کہتا بھی یہی ہے۔ سورۃ القیامہ آیت 3‘4۔ کیا انسان یہ گمان کرتاہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کر سکیں گے ۔ ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے نشان دوبارہ ٹھیک کر دیں ۔ 
زمین کے اندر سلیکان اور کاپر جیسے عناصر نہ ہوتے تو انسان کبھی اس قابل نہ ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کی وڈیو اورآواز ریکارڈ کر سکے اور دوسروں کو بطور ثبوت دکھا سکے۔دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک انہیں روشنی کی رفتاری سے بھیج سکے۔ آپ پاکستان سے برطانیہ میں اپنے دوست کو وڈیو میسج بھیجتے ہیں ۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں وہاں پہنچ جاتا ہے ۔ جس ہستی نے یہ عناصر رکھے ہیں ‘ اس نے آپ کو ایک نمونہ دکھایا ہے کہ کیسے کیسے ثبوت اکٹھے ہو رہے ہیں ۔ 
دنیا میں ایسے کیمرے موجود ہیں ‘ جو کہ بہت دور تک زوم کر سکتے ہیں ۔ ان کی مدد سے لوگ ایک دوسرے کی وڈیوز بہت دور سے ریکارڈ کر لیتے ہیں ‘ جہاں کسی کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ سیٹلائٹس میں جو کیمرے نصب ہیں ‘ وہ آپ کی گلیوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے لوگوں کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں ؛حالانکہ وہ کس قدر بلندی پر کرّہ ٔ ارض کے مدار میں گردش کر رہے ہیں ۔ سلیکان جیسے عناصر کو کرّہ ٔ ارض کی مٹی کے نیچے رکھنے کا اس کے سوا اور کوئی مقصد سمجھ نہیں آتا کہ کوئی ذات تھی ‘ جو انسان کو دکھانا چاہتی تھی کہ ریکارڈنگ اور زوم کیا ہوتاہے اور کیسے اسے حشر میں استعمال کیا جائے گا۔ 
مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا کے پاس جو زوم ہے وہ بہت زیادہ طاقتور ہے ‘ ہمارے وہم و گمان سے بھی باہر۔ ہمارے سیٹلائٹس سے بہت زیادہ۔ خد ا جانے اُس کے پاس سلیکان کی جگہ کون کون سے عناصر موجود ہیں ۔ ہمیں تو صرف اپنی کائنات کے 92عناصر کا ہی علم ہے ۔ دوسرا یہ کہ ریکارڈنگ ہمارے اندر بھی ہو رہی ہے ۔ ہماری آنکھیں ساری زندگی جو کچھ دیکھتی رہی ہیں ‘ وہ بھی ریکارڈ ہو رہا ہے اور پیش کیا جائے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved