تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     28-10-2019

کشمیر ڈپلومیسی

کشمیر پر ڈپلومیسی عالمی سیاست کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اب ایک چیلنج سے بھرپور ذمہ داری بن چکی ہے۔ ایشوز اور مسائل سے نمٹنے کے پرانے طریقے تبدیل ہو گئے ہیں کیونکہ عالمی نظام میں طاقت کے اور کئی مراکز منصۂ شہود پر آ چکے ہیں جو دوسرے عوامل کی بجائے مضبوط اور موثر ڈپلومیسی پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ واضح ہو چکا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح غیر ریاستی عسکریت پسند گروپ ہی کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں مدد نہیں کر سکتے۔ عالمی سیاست کی حرکیات نے ایسے طریقوں کی اہمیت کم کر دی ہے اور عالمی سطح پر ڈپلومیسی اور اشتراک عمل کی اہمیت کو زیادہ اجاگر کر دیا ہے۔ اس امر نے معاشی تعلقات، تجارت اور سرمایہ کاری کی وساطت سے کسی بھی ملک کو مثبت رشتوں کی ذریعے عالمی نظام کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
جدید ذرائع مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نئی جہتوں نے نئے امکانات اور چیلنج پیدا کر دیئے ہیں۔ ان امکانات کی بدولت اب جغرافیائی سرحدوں سے باہر بھی باہمی تعامل آسان ہو گیا ہے اور ہم انٹرنیٹ ایپلیکیشنز کو کسی تحریک کی لابنگ کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ عہد حاضر میں ملک اور قومیں زیادہ باخبر ہوئی ہیں۔ نئی ایجادات نے جو چیلنج پیدا کئے ہیں اس میں کسی علاقے میں داخلی کشیدگی یا بغاوت پیدا کرنے اور جھوٹی خبریں پھیلانے کیلئے پروپیگنڈا کا استعمال بھی شامل ہے۔
عالمی ڈپلومیسی تقاضا کرتی ہے کہ جدید انفارمیشن اور مواصلاتی آلات کا موثر استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے منفی اثرات کا تدارک بھی کیا جائے۔ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرتے ہوئے اور بھارت کے کشمیر کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچانے اور پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں حالات بگاڑنے کے ضمن میں الزام تراشی کا توڑ کرنے کیلئے ان عوامل کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔
ایک مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اب عالمی سطح پر اس بات کو تسلیم کیا جارہا ہے کہ کشمیر ایک تنازع ہے اور یہ پاکستان اور بھارت کو جنگ کے دھانے پر لے جا سکتا ہے‘ جس کے نتائج دیگر ممالک پر بھی ہولناک اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ اگر عالمی برادری مسئلہ کشمیر کو 1948-49ء کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کیلئے پاکستان کی مدد نہیں کرتی تو بھارت کے اس سرکاری موقف کو بھی مسترد کرتی ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ وہ اس استدلال کو بھی قبول نہیں کرتی کہ کشمیر کے آئینی اور سیاسی سٹیٹس کو تبدیل کرنا بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔
عالمی میڈیا خصوصاً امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی ممالک کے پریس نے کشمیر میں کرفیو کے نفاذ اور کشمیری عوام کے بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزی کی بھارتی پالیسی پر شدید تنقید کی ہے۔ بھارت کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس فورسز کی بھاری تعداد میں تعیناتی سے اس جمہوریت کی نفی ہوتی ہے‘ جسے بھارت اپنی سب سے بڑی قوت قرار دیتا ہے۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے روبرو حال ہی میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک سماعت ہوئی جس میں بھارت پر کرفیو اٹھا کر حالات کو معمول پر لانے پر زور دیا گیا۔ عالمی برادری نے کشمیر میں بھارت کی اس سخت گیر پالیسی پر کھل کر اپنی ناپسندیدگی اور ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ وہ بھارت کے اس موقف کو قبول نہیں کرتی کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں شورش پیدا کرنے کیلئے عسکریت پسندوں کو سرحد پار بھیجتا ہے۔ جولائی 2016ء کے بعد سے کشمیر میں بھارتی حکومت کی مزاحمت کی تحریک طلباء کے ہاتھ میں ہے جن کا فوجی تربیت کیلئے پاکستان جانا تو دور کی بات وہ کبھی کسی پاکستانی سے ملے تک نہیں ۔ کشمیریوںکی نئی نسل بھارت سے مکمل لاتعلق ہے اور اس کی سیاسی بالادستی سے مکمل آزادی چاہتی ہے۔ ان سب باتوں سے باخبر ہونے کے باوجود مغربی ممالک کشمیر میں بھارت کی پالیسی کو انسانی دائرہ کار میں لانے اور کشمیری عوام کو اپنے سیاسی مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دینے کیلئے بھارت پر کسی قسم کا سفارتی اور معاشی دبائو ڈالنے کو تیار نہیں ہیں۔
پہلے مرحلے پر ہم کشمیر پر مغربی ممالک کے رویے میں ایک تبدیلی محسوس کرتے ہیں۔ مغربی میڈیا انسانی حقوق کیلئے کام کرنیوالے گروپ اور ارکان پارلیمنٹ کشمیر میں بھارت کی جابرانہ پالیسیوں کیخلاف ایک تشویش محسوس کر رہے ہیں؛ چنانچہ وہاں کی حکومتیں کشمیر پر اپنے روایتی موقف پر نظر ثانی کیلئے تیار ہو گئی ہیں۔ اس کا دوسرا مرحلہ تب آئے گا جب مغربی حکومتیں کشمیر کی تحریک آزادی کی حمایت میں آگے بڑھیں گی اور کشمیر میں انسانی وقار‘ انسانی حقوق کی بحالی اور خود مختاری کے مطالبات کو دبانے کی بھارتی پالیسی کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنائیں گی۔ مسئلہ کشمیر مغربی ممالک کی طرف سے حمایت ملنے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے اگر پاکستان اس کیلئے ایک مستقل اور مضبوط ڈپلومیسی پر عمل پیرا ہو۔ ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر پر مغربی ممالک کی حمایت حاصل کرنے کیلئے وہاں کے عوام کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ پاکستان کشمیر کاز کی حمایت کیلئے وہاں کے سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں کے ساتھ مل کر مستقل بنیادوں پر لابنگ کرے۔ پاکستان کو دنیا کو بتانا چاہئے کہ اس وقت کشمیر میں کیا ہو رہا ہے اور ان ممالک کو کشمیر پر کیوں ایک متحرک اور پرجوش پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی اور کشمیری شہریوں کی حوصلہ افزائی کرے کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں میڈیا اور ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ مل کر انہیں متحرک کریں۔ اگر اس طرح دبائو ڈالا گیا تو یقینا مغربی ممالک کشمیر پر اپنی پالیسی پر نظرثانی پر مجبور ہو جائیں گے۔ پاکستان کوچاہئے کہ کشمیر ایشو کو اٹھانے کیلئے تمام عالمی فورمز اور اجلاسوں کو استعمال میں لائے اور تمام سفارتی چینلز استعمال کرنے کے علاوہ بھی اس مسئلے پر حمایت حاصل کرنیکی کوشش کرے۔ پاکستان کو چاہئے کہ اپنے میڈیا اور دانشوروں کی حوصلہ افزائی کرے کہ وہ مغربی ممالک کے میڈیا اور دانشور حلقوں کو آواز بلند کرنے پر قائل کرے۔ میڈیا سے میڈیا اور دانشوروں سے دانشوروں تک روابط میں بہتری آگئی تو پاکستان کو کشمیر کاز کیلئے مغربی ممالک سے مزید حمایت بھی مل سکتی ہے۔
جب تک پاکستان بیرونی دنیا میں اپنا ایک ایسا تاثر پیدا نہیںکرتا کہ وہ باقی دنیا کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھنے کا خواہش مند ہے نیز یہ کہ پاکستان ایک ایسی تاریخ اور تہذیب کاحامل ہے جو صدیوں پر محیط ہے‘ اس وقت تک سفارتی میدان میں کامیابی ممکن نہیں۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنا وادیٔ سندھ سے وابستہ ماضی اجاگرکرے۔ تاریخی تسلسل اور ثقافتی تنوع کو اجاگر کرنے کیلئے بدھ مت اور سکھ مذہب کے اہم مقامات کو ہائی لائٹ کیا جائے‘ بتایا جائے کہ پاکستان نے کس طرح تاریخی ورثے کو محفوظ کر رکھا ہے۔ اسی طرح مغلیہ عہد کے آرٹ اور فن تعمیر کو بھی بیرون ملک پاکستان کا امیج بہتر بنانے کیلئے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ سکھوں کیلئے کرتارپور راہداری کھولنا اس جانب ایک مثبت سفارتی اقدام ہے۔
اکتوبر کے آخری ہفتے میں یو این سیکرٹری جنرل اور امریکی حکومت کے ترجمانوں نے کشمیر کی صورتحال پر خاصی تشویش کا اظہار کیا اورپاک بھارت مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اگر بھارت کشمیر سے کرفیو ہٹا کر وہاں حالات کو معمول پر لانے کیلئے تیار ہو جاتا ہے تو اس سے پاکستان کو بھارت کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ بحال کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اس طرح نومبر 2003ء کی ایل او سی سیزفائر مفاہمت کو پھر سے بروئے کار لانے کاموقع پیدا ہوگا۔ اس طرح عالمی برادری کو یہ یاددہانی کرانے کا موقع بھی مل جائے گاکہ جب بھارت نے پاکستان میں قائم مبینہ دہشت گردی کے کیمپوں پر حملہ کرنے کا جھوٹادعویٰ کیا تھا تو پاکستان اسلام آباد میں مقیم سفیروں اور صحافیوں کو لائن آف کنٹرول کے دورے پر لے گیا تھا۔ اس سے بھارت کے دعوے کی قلعی کھل گئی تھی۔ دنیا کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان عالمی میڈیا کوآزاد کشمیر کا دورہ کرانے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ پاکستان کو کشمیر ایشو پر ایک موثر اور سوچی سمجھی سفارتی تحریک ی چلانی چاہئے۔ یہ تحریک سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں کی مشترکہ کوشش ہونی چاہئے کیونکہ ایک کامیاب ڈپلومیسی سماجی ذرائع کی جانب سے موثرکوششوں اور کارکردگی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں جو ایک خلا محسوس ہوتا ہے وہ اپوزیشن جماعتوںکی حمایت کا فقدان ہے۔ وہ زبانی حد تک کشمیرکاز کی حمایت کرتی ہیں مگر داخلی صورتحال کے تناظر میں مسلسل باہمی محاذ آرائی کی وجہ سے وہ حکومتی پالیسی کو سپورٹ نہیں کرتیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved