تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     28-10-2019

ایک جُبّہ تو گیا آپ کے چھڑوانے میں

جاڑا آتے ہی لنڈے کے مال کی بِکری شروع ہو گئی۔ تکلیف کی چھوٹی سی بَھٹی، ریلیف کی بڑی فائونڈری میں تبدیل ہو گئی۔ سیاست کے بازارِ حصص میں مفادات کے سریا ساجن اور سودا بازی کے جنگلہ جندال کی آمد آمد ہے۔ ہرکارہ جو مرضی آوازیں لگائے، بِکری بِکری ہوتی ہے۔ اُسے سیل (sale) کہیں، لُوٹ سیل، معجزات یا سوغات۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 
جاتے ہیں روز کوچۂ دل دار کی طرف
لاتے ہیں سوئے یار سے سوغات دل پذیر
چلئے، کم از کم ایک بحث تو ختم ہوئی۔ ایک سوال Dispose off ہوا۔ یہی کہ این آر او کس سے مانگا جا رہا ہے، این آر او مانگ کون رہا ہے۔ کمرشل بیانیے کا بزنس ترک ہوا۔ 
دیکھ! ترکِ تعلقات کے سُکھ،
سب سوال و جواب ختم ہوئے 
ہر طرف گنتی شروع ہے۔ کہیں گھنٹوں کی، کہیں سفید خلیوں کی، اور کہیں سفید خون کی۔ ''بے چاری بیانیہ‘‘ ہمیشہ کی طرح رُو سیاہی کو میک اپ کے نُور میں بدلنے کیلئے پھر سے استعمال ہو رہی ہے۔ مگر اس سب سے 48 گھنٹے پہلے میں نے وکالت نامے میں جو لکھا، وہ اسی اکتوبر کی 25 تاریخ کو جمعہ کے دن انہی سطور میں شائع ہوا۔ کالم کے آخری جملے یوں تھے ''شہر اقتدار کی بہت بڑی خبر تو میرے پاس ہے۔ اگر نثر میں لکھی تو بے رحم کہلائوں گا۔ اس لیے چند دن صبر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے سمجھنے والوں کیلئے یہ قطعہ کافی اور شافی ہے۔
اب نہ طفلاں کو خبر ہے کسی دیوانے کی
اور نہ آواز کہ ''او چاک گریباں والے‘‘ 
نہ کسی ہاتھ میں پتھّر نہ کسی ہاتھ میں پھول
کر گئے کُوچ کہاں کوچۂ جاناں والے ‘‘
اب بھی نثر لکھنا بر محل نہیں لگ رہا۔ ہاں مگر، ہمارے ایک وکیل دوست جن کی صاحب زادی کا سسرال میرا گائوں ہوتھلہ ہے ڈاکٹر طاہرالقادری نے خون اور بارود کے درد میں ڈوبا ہوا کرب ناک جملہ کہا ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق وہ کہتے ہیں ''پاکستان کے قانونی، عدالتی، سیاسی اور ریاستی نظام نے جتنا خیال ایک انسانی جان کا رکھا ہے۔ کاش، یہ نظام اُتنا ہی خیال ماڈل ٹائون کے سانحہ میں شہید کی جانے والی 14 جانوں کا بھی رکھتا...کاش، غریب جان کا اور امیر جان کا، دونوں کے لئے قانون اور انصاف کا پیمانہ اس نظام کے تحت ایک ہوتا۔ افسوس‘‘۔
کبھی کبھی میرے دل میں سوال آتا ہے، ''معجزے‘‘ غریب ہم وطنوں کے لئے برپا کیوں نہیں ہوتے؟ ایک وفاقی سیکرٹری، احتساب کی حوالات میں برسوں پہلے ریمانڈ کے دوران مر گیا۔ نہ پوسٹ مارٹم، نہ بورڈ، نہ جوڈیشل کمیشن، نہ فرانزک ٹیسٹ، نہ ماتمی دستے، نہ کالم‘ نہ بلاگ، نہ مرثیے، نہ راگ، نہ سوال نہ جواب۔
جواب نامہ سیاہی کا، اپنی ہے وہ زُلف
کسو نے حشر میں، ہم سے اگر سوال کیا
دو سال پہلے ووٹ کو عزت دینے کی مہم سڑکوں پہ تھی۔ گجرات کی ایک نادار ماں کا معصوم بچہ اس عزت دار مہم کے سرخیل کی گاڑی کے ٹائر تلے ٹماٹرکی طرح کچلا گیا۔ نہ گاڑی رُکی، نہ جمہوریت مضبوط کرنے کی مہم۔ نہ ہی ''مجھے کیوں نکالا‘‘ کے نعرے اور نہ غریبوں کے بچوں کو گھر سے باہر نکل کر ووٹ کی عزت بحال کروانے کے لئے مارے جانے والے دعوتی للکارے۔ عام ٹریفک ایکسیڈنٹ ہو جائے تب بھی نمائشی سہی، دفعہ 320 تعزیراتِ پاکستان کے تحت پرچہ درج ہوتا ہے۔ نام کی سہی، تفتیش ہوتی ہے۔ جرم قابلِ ضمانت ہو بھی تو ملزم کو مچلکہ جمع کروانے تھانے یا کچہری جانا پڑتا ہے۔ اسی عزت دار دور میں ایک ''غریب دا بال‘‘ احتساب کے الزام میں گرفتار۔ ہاں یاد آیا سزا یافتہ نہیں تھا۔ جیل میں 3 دن ایمبولینس، پیرامیڈیکس یا کارڈیالوجسٹ کا انتظار کرتے کرتے سچے سائیں کے حکم پر لبیک کہہ گیا۔ 
بات چلی تھی، بحث ختم ہو جانے سے، نثر لکھی نہیں جا رہی۔ اس لئے نظم کا سہارا لیے بِنا چارا نہیں۔
حضرتِ شیخ جو پکڑے گئے مے خانے میں
وردِ لا حول تھا تسبیح کے ہر دانے میں
جام ہو دستِ حنائی میں، تو فتویٰ یہ ہے
تھام لو ہاتھ، مگر ہاتھ ہو دستانے میں
زُہد و تقویٰ کی یہ دستار، سنبھالیں قبلہ!
ایک جُبّہ تو گیا آپ کے چھڑوانے میں
میڈیا اس وقت رنگ برنگی خبروں سے بھرا ہوا ہے۔ کچھ خبریں، کچھ زیادہ ہی رنگ دار ہیں، اتنی رنگ دار کہ نیوز بزنس کے بڑے بڑے جغادری اور نیوز بریکر بھی اِن خبروں سے ہاتھ رنگنے سے لرزاں ہیں۔ بہتر ہو گا، بے رنگی خبروں سے ہی کام چلایا جائے۔ رنگ دار خبروں سے اُلٹے سیدھے سوال پیدا ہو جاتے ہیں۔ ویسے ہی سوال، جیسے گامے موچی کے بھتیجے نے اپنے پنڈ کی پنچایت کے سر پنچ سے پوچھ لیے تھے۔ اُن میں سے پہلا سوال نا قابلِ اشاعت ہے۔ لہٰذا self censorship سکیم سے فائدہ اٹھانا جمہوریت بچانے کے لئے ضروری ہو گا۔ 
دراصل ہوا یوں کہ کسی گائوں میں سرپنچ کا بیٹا ایسے جرم کا مرتکب ہوا جس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جا سکتی۔ اس کے خلاف واحد گواہ گامے موچی کا بھتیجا تھا۔ گواہی سے پہلے گامے موچی کے بھتیجے کی دھلائی کی گئی‘ جس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ اُس کے software کو update کرنا تھا۔ پھر پنچایت بیٹھی۔ وکیلِ استغاثہ، وکیلِ صفائی اور فیصلہ ساز خود سرپنچ ہی تھا۔ جو بوڑھ کے درخت کے نیچے رانگلے پلنگ پر براجمان ہوا۔ سر پنچ کے سامنے گامے موچی کے بھتیجے کو زمین پر بٹھایا گیا۔ ملزم نے سر پنچ کے ساتھ والے موڑھے پہ تشریف رکھی۔
کارروائی شروع ہوئی۔ سر پنچ نے کہا کہ تم قرآن کی قسم کھا کر کہو، جو کچھ کہو گے، سچ کہو گے۔ گامے موچی کے بھتیجے کا software پھرmalfunction کر گیا۔ کہنے لگا: پہلے تم اور تمہارا بیٹا قرآن کی قسم کھا کر کہو کہ اس نے وہ جرم نہیں کیا جس کا حلف تم مجھ سے لے رہے ہو۔ 
آج اتوار کا دن ہے،27 اکتوبر کی تاریخ۔ اسی 27 اکتوبر کے روز، سال 1947 میں انڈین آرمی نے بھارتی مقبوضہ کشمیر پر دھاوا بولا تھا۔ آج ہمارے قومی منظر نامے پر یہ کوئی خبر ہی نہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے 8 ملین لوگ، 9 لاکھ فوجیوں کے نرغے میں 80 دنوں سے زیادہ عرصے سے بڑی جیل میں پڑے ہیں۔ پہلے 55 دن، ان مظلوم کشمیریوں کی حالتِ زار پاکستان میں ہر قسم کے میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ رہی۔ لیکن آج کی اصل خبر یہ ہے کہ اُن کی آزادی کے لئے مُلا اپنے ہی وفاقی دارالحکومت کی طرف مارچ کر رہے ہیں۔ یہی جمہوریت بچانے کا ''اصلی تے وڈا نسخہ‘‘ ہے۔ ریلیف کی بڑی فائونڈری کا دوسرا Beneficiary مودی ہے۔ تیسرا، اجیت ڈوول اور سب سے بڑا بپن روات۔
قومے فروختند، و چہ ارزاں فروختند
یہ فیصلہ کرے گا خداوندِ دیر گیر
پوٹھوہار کے ایک بڑے وکیل معمول کے چیک اپ کے دوران شدید بیمار پائے گئے۔ علاج شروع ہوا۔ 4/5 مہینوں بعد دوبارہ ٹیسٹ ہوئے تو پتہ چلا، اُن کی بلڈ ٹیسٹ رپورٹ کسی اور کے نام چلی گئی اور کمپیوٹر والے نے ایک خطرناک بیماری والے بلڈ ٹیسٹ پر ان کا نام ٹائپ کر دیا۔
کیا شوق کی باتوں کی، تحریر ہوئی مشکل 
تھے جمع قلم کاغذ، لکھا نہ کچھ گیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved