اکتوبر 25کو شائع ہونے والے کالم ''بدلتی سیاسی صورت حال اور دھرنا‘‘کا اختتام خوبصورت شاعرہ پروین شاکر کے پُر مغز اور معنی خیز شعر؎
بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تْم کنارہ دیکھنا
پر ہوا تھا۔سلسلہ کلام وہیں سے شروع کرتے ہیں‘ میں نے عرض کیا تھا ''اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سامنے حکومت ایک قدم اور پیچھے ہٹ گئی ہے اورحکومت نے اپوزیشن کومشروط شرائط پر آزادی مارچ کی پیشکش کردی ہے۔مذاکرات کیلئے ساز گار ماحول کی خاطر اعتماد سازی کے اقدامات شروع کردئیے گئے ہیں۔قیدی جیلوں سے ہسپتال پہنچ چکے ہیں۔شہباز شریف اسلام آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں۔ان کی درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد آج سروسز ہسپتال کے حکام کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا گیا ہے۔حالات تبدیل اور اقدامات برق رفتاری سے اٹھائے جارہے ہیں‘ عمران خان ٹوئٹ کے ذریعے نوازشریف کی صحت یابی کی دعا کرچکے ہیں۔ ایئر ایمبولینس تیار کھڑی ہے۔زرداری صاحب کی طبیعت بھی تسلی بخش نہیں ہے۔مولانا سکھر میں بتا چکے ہیں کہ ان کا احتجاج ہو گا اور ضرور ہوگا۔مولانا کی آرمی چیف سے ملاقات کْچھ اچھی نہیں رہی‘‘۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں‘ تمام قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں‘ دھرنے اور آزادی مارچ کے عمل پذیر نہ ہونے کے سیا سی اور غیر سیاسی دعویداروں کے اندازے غلط ثابت ہوچکے۔جے یو آئی کی مقامی قیادت نے ڈیڈ لاک ختم کرتے ہوئے اسلام آباد انتظامیہ سے کامیابی سے ایک ہومیو پیتھک معاہدہ کیا اور آزادی مارچ کی اسلام آباد آمد تک تمام رکاوٹیں دور کروائیں ۔معاہدے کے تحت اب حکومت آزادی مارچ کو اسلام آبا د میں متعین کردہ جگہ پر پہنچنے تک کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ مولانا فضل الرحمن نے کراچی سے آزادی مارچ کا آغاز کردیا ہے‘ حیدرآباد‘ لاڑکانہ اور سکھر سے ہوتا ہوا صادق آباد اور رحیم یار خان کے راستے پاکستان تحریک انصاف کی راجدھانی پنجاب میں داخل ہو چکا ہے۔اگر راستے میں انہیں روکا نہ گیا اور حکومتی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو پی ٹی آئی کے سیاسی بُرجوں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار‘وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے علاقوں سے گزرتے ہوئے سیاسی تحریکوں کے گڑھ لاہور پہنچے گا۔ وہاں سے مسلم لیگ( ن) سے سیاسی کمک حاصل کرنے کے بعد جی ٹی روڈ کے راستے گوجرانوالہ‘ گجرات اور راولپنڈی سے ہوتا ہوا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پڑاؤ ڈالے گا۔دیکھنا یہ ہے کہ منتشرالخیال مسلم لیگ( ن) کی قیادت مولانا کو کتنی افرادی قوت فراہم کرتی ہے؟کیونکہ (ن) لیگ اس وقت سیاسی سفر کے دوراہے پر نہیں‘ بلکہ چوراہے پر کھڑی ہے۔اس کا ہر قدم اور لیگی قیادت کے منہ سے نکلا ایک ایک لفظ مسلم لیگ( ن) کے سیاسی مستقبل کا تعین کرے گا۔
دوسرا جلوس خیبر پختونخوا سے اٹک اور چکوال کے دو مختلف راستوں سے راولپنڈی سے گزر کر اسلام آباد میں داخل ہوگا۔ سندھ میں پیپلزپارٹی نے آزادی مارچ کا بھرپور سواگت کیا اور بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ باقی مرکزی رہنما مولانا کے ساتھ ان کے کنٹینر پر نظر آئے۔مختلف مقامات پر مولانا نے جتنے بھی خطاب کئے ان میں ان کا مرکزی مطالبہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ اور نئے انتخابات کا فوری انعقاد ہے۔مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی مولانا کے اس یک نکاتی ایجنڈے پر اس کی مکمل طور پر ہمنوا نظر آتی ہے‘لیکن عمران خان ان مطالبات کو ماننا تو دور کی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں‘بلکہ انہوں نے تو واضح کردیا ہے کہ جب تک وہ زندہ ہیں این آراو نہیں مل سکتا۔عمران خان یہ لڑائی فرنٹ فْٹ پر کھیلنا چاہتے ہیں۔دوسری جانب آصف زرداری جو واقعی بیمار ہیں‘ بڑی حسرت اور صبر کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ پورا نظام شریفین پر اتنا فریفتہ کیوں ہے؟زرداری کی خاموشی ٹوٹنے سے پہلے ان پر بھی توجہ دیں ‘ورنہ ان سے گلہ کرنا نہیں بنتا۔
وفاقی دارالحکومت میں یہ خبر زبان زدِ عام ہے کہ ہسپتالوں میں جو کْچھ ہورہا ہے یہ بے سبب نہیں ‘ بلکہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے کے مصداق ڈیل ڈھیل این آر او کے تذکرے خواہ مخواہ نہیں ہیں۔ دراصل یہ کمبل اتنا بھاری ہو چکا ہے کہ کوئی اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔اور ہر کسی کی خواہش ہے کہ یہ کمبل کسی دوسرے پر ڈال دیا جائے یا کسی اکیلے کو اٹھانے پر مجبور کردیا جائے۔جنرل پرویز مشرف کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ جو علاج کی غرض سے ایک عدالتی حکم کے سہارے بیرون ملک گئے اور آج تک نہیں واپس آئے۔اور سارا ملبہ عدالت پر ڈال دیا گیا۔اب کوئی بھی ادارہ خاص طور پر عدلیہ ایسا کْچھ کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی۔
سیاسی درجہ حرارت کو بڑھانے کیلئے سابق سینیٹر حافظ حمداللہ کو غیرملکی قرار دے دیا گیا ہے اور مفتی کفایت اللہ کو گرفتار کیا چکا ہے۔میڈیا پر انوکھی اور غیر منطقی قسم کی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔اس دوران نواز شریف اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر عبوری ضمانت پر رہائی حاصل کرچکے ہیں؛البتہ احتساب عدالت کی سزا معطلی کے بارے میں ان کی اپیل کی آج سماعت ہوگی‘جس میں وزیراعلیٰ پنجاب کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا ہے۔نواز شریف کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے آبزرویشن دی اور سوال پوچھا '' یہ معاملہ حکومت کا ہے یا کہ پاکستان کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898ء کے مطابق مجرم کی سزا معطل کرنے کا اختیار حکومت کو ہوتا ہے۔طبی بنیادوں پر سزا معطل ہونے کا کیس عدالت میں آنا ہی نہیں چاہئے‘‘۔ یہ آبزرویشن دیتے ہوئے معزز عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب کو ذاتی طور پر آج طلب کر رکھا ہے اور وزیراعلیٰ نے عدالت میں حاضر ہونے کی حامی بھرلی ہے۔پاکستان کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898ء کا سیکشن401قیدیوں کی سزا معطلی اور معافی کے اختیار سے متعلق ہے‘جس میں کہا گیا ہے ''جب کوئی شخص ایک جرم میں سزایافتہ ہوتا ہے تو صوبائی حکومت کسی بھی وقت بغیرشرائط یا بعض شرائط کے ساتھ ‘ جو ‘سزایافتہ شخص قبول کرلیتا ہے‘ سزایافتہ شخص کی سزا پر عمل معطل کرسکتی ہے یا اس شخص کو ملنے والی سزا یا اس کا کوئی حصہ معاف کرسکتی ہے اور یہ کہ جب صوبائی حکومت کے پاس سزا کی معطلی یا معافی کی درخواست آتی ہے تو صوبائی حکومت اسے سزا سنانے والی عدالت کے پریزائیڈنگ جج کے پاس پیش کرے گی اور رائے لے گی کہ درخواست کو منظور کیا جانا چاہئے یا مسترد کیاجانا چاہئے۔ اور معزز جج اپنی رائے کی وجہ بھی تحریر کریں گے‘‘۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ سوال کیوں اٹھایا؟ اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان صحافیوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ نواز شریف کا معاملہ عدالت‘ نیب اور قانون کے سامنے ہے‘ عدالتیں جو بھی فیصلہ کریں گی حکومت اس پر عمل کرے گی۔اس کے بعد وفاقی وزرا اور حکومتی ترجمان نے بھی یہ گردان اس تواتر سے کی کہ دنیا بھر میں یہ تاثر ابھرا کہ شاید کوئی ڈیل ہوچکی ہے اور خدانخواستہ عدالتی نظام بھی اس کا حصہ ہے ۔اس لیے اس غلط تاثر کو زائل کرنے کیلئے معزز عدالت نے اینکرز کو بھی طلب کیا اور خبردار کیا کہ جوڈیشل این آر او کی باتیں کرنے سے گریز کریں۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ اعلیٰ عدالتیں فیصلے دستیاب شواہد اور فریقین کے پیش کئے گئے دلائل اور موقف پر کرتی ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اب وزیراعلیٰ پنجاب کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اپنی ایگزیکٹو اتھارٹی کے عدم استعمال کی رائے دیں گے۔عدلیہ ایسے کسی عمل کا حصہ بننا تو درکنار ایسے کسی تاثر کو بھی قائم نہیں ہونے دینا چاہتی کہ وہ آؤٹ آف کورٹ کسی سیاسی و غیر سیاسی سیٹلمنٹ کی فریق یا حصہ دار ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی چند روز قبل نئے عدالتی سال کے آغاز پر خبردار کیا تھا کہ ''ابھرتا ہوا یہ تاثر کہ احتساب کا جاری عمل سیاسی انجینئر نگ کیلئے استعمال ہورہا ہے‘ خطرناک ہے اور اگر یہ تاثر درست ہے‘ تو اسے ختم ہونا چاہیے‘‘سیاست کی چومْکھی بساط بچھائی جاچکی‘ دیکھئے کون مات کھاتا ہے۔