میاں نوازشریف کا ہسپتال میں آج (سوموار کو)ساتواں دن ہے۔ اس دوران ان کی صحت سنبھلتی اور بگڑتی رہی۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب پلیٹ لیٹس2000تک گر گئے۔ یہ موت کے دہانے پر پہنچ جانے والی کیفیت تھی۔ ایک اور مرحلے پر پلیٹ لیٹس اکائونٹ45,000تک پہنچ گیا!یہ اندرون وبیرون ملک کروڑوں پاکستانیوں کے لیے خوشی کی خبر تھی۔ لیکن پھر انہیں25,000تک لانا پڑا کہ پلیٹ لیٹس میں اضافہ دل پر بوجھ بن گیا تھا۔( ڈاکٹروں کے مطابق یہ ہلکا سا ہارٹ اٹیک تھا)
اس سال فروری میں کوٹ لکھپت جیل میں میاں صاحب کی حالت بگڑی تو سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے ان کے علاج معالجے کی نگرانی کے لیے جو چار رکنی ''پارلیمانی‘‘کمیٹی قائم کی‘ اس میں وزیر قانون راجہ بشارت کے ساتھ وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی تھیں(2ارکان مسلم لیگ (ن) سے تھے)تب یاسمین راشد کا کہناتھا وہ سیاستدان بعد میں اور ڈاکٹر پہلے ہیں(وہ میاں صاحب کے لاہو روالے حلقے میں ان کی دیرینہ حریف تھیں)2017ء میں میاں صاحب کی نااہلی کے بعد‘ ضمنی انتخاب میں بیگم کلثوم نواز صاحبہ کے مقابلے میں بھی امید وار تھیں(اس با ر ان کی شکست کا مارجن البتہ کم تھا۔ علالت کے باعث بیگم صاحبہ کی عدم موجودگی میں مریم نواز نے انتخابی مہم چلائی تھی) جولائی2018ء کے الیکشن میں بھی قسمت نے یاوری نہ کی۔ جس کے بعد پارٹی کے لیے دیرینہ خدمات پر پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے حصے میں آنے والی خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے ایک نشست کی مستحق قرار پائیں اور بزدار کابینہ میں وزارتِ صحت کی سزاوار۔وہ پروفیشنل ڈاکٹر ہی نہیں‘ ڈاکٹروں کی تنظیم کی اہم رہنما بھی رہی ہیں‘ لیکن وزیر صحت کے طو رپر ان سے جوامید یںتھیں وہ ان پر پورا اترنے میں کس حد تک کامیاب ہوئیں‘ یہ الگ بحث ہے) البتہ اپنے اس دعوے میں ضرور پورا اتریں کہ وہ سیاستدان بعد میں اور ڈاکٹر پہلے ہیں)۔ منگل(22اکتوبر)سروسز ہسپتال میں میا ںصاحب کا پہلا دن تھا۔ انہوں نے خاصا وقت ہسپتال میں گزارا‘ میاں صاحب کے ڈاکٹروں سے مسلسل مشاورت میں رہیں‘ البتہ مریض کو وزٹ کرنے کا وقت نہ نکال سکیں۔ اسی شام جناب وزیر اعظم نے میاں صاحب کے لیے نیک خواہشات کا ٹویٹ جاری کیا‘ اگلے روز یاسمین راشد صاحبہ خود میاں صاحب کے پاس پہنچیں‘ اپنے علاوہ وزیر اعظم کی طرف سے بھی مزاج پرسی کی۔علاج معالجے کے لیے بہترین سہولتوں کی یقین دہانی کرائی ۔ میاں صاحب کی صحت کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو میں بھی وہ کسی سیاسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ گزشتہ روز بھی ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب کی صحت ٹھیک نہیں‘ دوبار دل کی سرجری ہوچکی ‘ پانچ سٹینٹ بھی ہیں۔ شوگر‘ بلڈ پریشر اور گردوں کا عارضہ بھی ہے۔
یہ جو موت کے دہانے سے مریض کی واپسی ہے‘ تو اس میں یقیناً ملک کے اندر اور باہر کی جانے والی کروڑوں دعائوں کا بھی اثر ہے۔ 21اکتوبر(سوموار اور منگل) کی درمیانی شب ‘ بارہ بجے تھے‘ جب میاں صاحب کی خرابیٔ صحت اور انہیں ہسپتال پہنچانے کی بریکنگ نیوز آئی۔ ڈاکٹر عدنان کا ٹویٹ اسے سوشل میڈیا کی بڑی خبر بنا چکا تھا۔ بہت سے لوگ سوچکے تھے‘ جو جاگ رہے تھے‘ ان کی نیند اڑ گئی تھی‘ ان کے کان اور نظریں ٹی وی سکرینوں پر تھیں اور لبوں پر دعائیں۔ پاکستان سے سعودی عرب دو گھنٹے پیچھے ہے‘ وہاں دس بجے تھے۔ سعودی عرب میں شروع ہی سے پاکستانیوں کا معمول ہے کہ اپنے وطن سے خوشی کی خبر پائیں یا غمی کی‘ حرمین کا رخ کرتے ہیں(جدہ اورطائف والوں کو بھی سعادت حاصل ہے کہ یہاں سے مکہ مکرمہ 40 ‘ 45 منٹ کی ڈرائیو پر ہے) مدینہ منورہ کے مضافات والے بھی حرمِ نبوی پہنچ جاتے ہیں(ایک وقت تھا مسجد نبوی نماز عشا کے بعد بند ہوجاتی تھی اور صبح تہجد کے وقت دوبارہ کھلتی تھی۔ اب یہ ساری رات کھلی رہتی ہے)21اکتوبر کی اس شب ہمیں سعودی عرب سے بے شمار دوستوں کے فون آئے(جیسے ہم میاں صاحب کے ساتھ ہوں)حالانکہ ہمارا ذریعۂ معلومات بھی ٹی وی سکرینوں پر آنے والی لمحہ لمحہ کی خبر تھی۔ سعودی عرب میں گزر بسر اب کافی مہنگی ہوگئی ہے؛ چنانچہ بہت سے احباب نے فیملیز واپس بھجواد ی ہیں‘ جن کی فیملیز وہیں ہیں‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ دعائوں کے لیے فیملیز کے ساتھ حرمین جارہے ہیں۔
بہت سی کالز‘ اپنے ہاں کے اخلاقی انحطاط کے حوالے سے تھیں۔ عنایت علی خاں کا ایک شہرۂ آفاق شعر ہے۔ ؎
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
حادثہ زدگان کے لیے نہ ٹھہرنے کی بے حسی واقعی سانحہ تھی لیکن حادثے پر ٹھہر کر ‘ خود حادثہ زدگان کو طنزواستہزاکا نشانہ بنانے کو کیا عنوان دیا جائے گا؟وہ بات جو خواجہ آصف نے کہی (اور گزشتہ شب اسلام آباد والے ڈاکٹر طارق فضل جس کا اعادہ کررہے تھے)وقت گزرجائے گا ‘لیکن زبان کے زخم تادیر تازہ رہیں گے۔
اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا‘میاں صاحب کے ہسپتال پہنچنے کی خبر کے ساتھ ہی کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی خبر ۔تو دیر تک اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین ہی نہ آیا۔اس سے اگلے روز مریم کا معاملہ۔وہ جج صاحب سے درخواست کررہی ہیں کہ جیل واپس جاتے ہوئے انہیں‘ راستے میں اپنے علیل والد کو دیکھنے کی اجازت دے دی جائے ۔ جج صاحب کا کہنا تھا کہ وہ اس کا اختیار نہیں رکھتے۔ اس شب جیل میں طبیعت کی خرابی پر مریم کو ہسپتال لایا گیا۔ اس بہانے بیٹی کو باپ کو دیکھنے کا موقع مل گیا۔ چیک اپ کے بعد مریم کو بھی ہسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ ٹی وی سکرینوں پر خبر تھی کہ وہ 24گھنٹے ہسپتال میں رہیں گی ۔صبح فجر کے لیے اُٹھے تو ٹی وی سکرین پر ایک اور ناقابل یقین خبر تھی‘ صبح پانچ بجے اسے دوبارہ جیل پہنچا دیا گیاتھا۔ سرکاری ترجمان کا کہناتھا‘ قانون سے کوئی بالا تر نہیں۔ مریم بی بی کو طبیعت کی خرابی پر ہسپتال لایا گیا تھا‘ طبیعت سنبھل گئی تو واپس جیل منتقل کردیا گیا۔ وزیر اعظم صاحب نے مہر بانی فرمائی کہ اگلی شب مریم کو دوبارہ ہسپتال منتقل کرنے کا حکم جاری کردیا کہ وہ اپنے علیل والد کی تیمار داری کرسکیں۔
کہتے ہیں کہ مریض کے علاج میں ادویات اور ڈاکٹروں کے علاوہ‘ اس کے ماحول‘ اس کی ذہنی کیفیت اور اس کی ''وِل پاور‘‘کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ مریض کی ہسپتال منتقلی کے ساتھ ہی ‘ اس کے داماد کی گرفتاری ‘پھر اگلے روز اس کی بیٹی کے ساتھ اس سلوک پر اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوئی ہوگی؟ کہتے ہیں‘ وہ اس سب کچھ سے بالاتر ہوچکا ہے۔ اس کے لیے کوئی صدمہ بھی اب صدمہ نہیں رہا۔ کبھی وہ بہترین کی توقع رکھتا تھا‘ اب وہ بدترین کے لیے بھی تیار ہے اور یہی اس کی طاقت ہے ‘ سودوزیاں کی فکر سے بالا تر ہو جانا۔ باقی رہی ''وِل پاور‘‘ کی بات تو یہ ''وِل پاور‘‘ ہی تھی جو اس نے 21اکتوبر کی شب ہسپتال منتقلی سے انکار کردیا اور اس کے لیے شہباز شریف کو بروئے کار آنا پڑا۔ طبی بنیاد پر عدالتی ریلیف کے لیے بھی وہ درخواست گزار بننے کو تیار نہ ہوا اور یہ فریضہ بھی شہبازشریف ہی نے ادا کیا ۔اور وہ 13جولائی(2018ء) کو‘ موت وزیست کی کشمکش سے دوچار شریکِ حیات کو لندن میں چھوڑ کر‘ اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے جیل جانے کے لیے پاکستان چلے آنا اور پھر 11ستمبر کی شب اس کی موت کی خبر سن کر‘پیرول پر رہائی کی بھیک مانگنے سے انکار (اب بھی یہ درخواست شہبازشریف کی طرف سے تھی)؛ حالانکہ اسے پاکستان سے ''یہ پیغام‘‘ پہنچایا گیا تھا کہ واپس آنے کی ضرورت نہیں‘ بیگم صاحبہ کی تیمار داری کے لیے وہیں ٹھہریں ۔ سنا ہے‘ اب پھر باپ بیٹی کے لیے بیرون ملک جانے کی '' پیش کش‘‘ موجود ہے‘ لیکن اب بھی اس کے لب پر وہی انکار ہے کہ جو پہلے تھا۔کہ اب اس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں‘ وہ اپنے چالیس سالہ سیاسی کیریئر میں دکھ اور سکھ کے تمام ذائقے چکھ چکا۔ وہ جو آزردہ ؔنے کہاتھا ۔؎
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں