تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     29-10-2019

جنگ بھڑک اٹھی ہے؟

مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے دوران مسلم لیگ کے سپریم لیڈر نواز شریف کی گرتی ہوئی صحت سے منسوب خبروں نے پورے سیاسی ماحول کو گرفت میں لے لیا ہے۔سوشل میڈیا کے علاوہ قومی دھارے کا وہ میڈیا بھی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا قیدی کے سیاسی کردار کو‘مثالیت میں ڈھال رہا ہے‘جسے نوازشریف کی سیاست سے جڑی خبروں کی اشاعت سے حکماًروک دیا گیا تھا۔ایسا ہونا بھی چاہیے تھا‘مقبول لیڈر اور چوٹی کا سیاستدان ہونے کے ناتے ان کا وجود عوامی جذبات کا مظہر اورملکی مستقبل پہ اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتاہے۔نواز شریف کی بگڑتی صحت کے پیش نظرعدالتوں نے اسے ضمانت پہ رہائی دیکراچھی روایت قائم کی گئی ہے‘مشکل کی گھڑی میں باہم ایک دوسرے کا سہارا بننے کی روش ہی ہمیں دلدل سے نکال سکتی ہے۔
سابق چیف جسٹس افتخارچوہدری کی برطرفی کیخلاف اٹھنے والی وکلاء تحریک سے ہماری سوسائٹی میں ایسی گہری تبدیلیاںرونما ہوئیں‘جو سیاسی جمود کو توڑنے کا سبب بنیں‘ لیکن اسی پہلی مقبول مزاحمت نے ہمارے سماج کو واضح طور پہ پرو اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ گروہوں میں منقسم کرکے نئی جدلیات کی بنیاد رکھی۔آزادی کوئی سیاسی چیز نہیں ‘بلکہ ایسی کیفیت ذہنی ہے ‘جو انسان کو ردّ و قبول کے فطری اختیار کو استعمال کرنے کا حوصلہ دیتی ہے ؛چنانچہ اسی تغیرکی بدولت آج وکلاء برادری ہمارے عدالتی ڈھانچہ کے اندر قانون کی من مانی تشریح یا طریقہ کار کے ہتھکنڈوں کے ذریعے مخالف آوازوں کو دبانے کی ہر کوشش کی راہ روک لیتی ہے۔مشرف آمریت کے دوران اور مابعد سویلین حکومتوں کو شدید دباؤ میں رکھ کے‘ جس نوعیت کی پردہ نشیں آمریت قائم کی گئی‘اسے سوشل میڈیا کی ڈیجیٹل مزاحمت نے بے نقاب کر کے ففتھ جنریشن وار کی شدت بڑھا دی۔کسی فورس کیخلاف اپنے ہی ملک کے عوام جب مزاحمت پہ اتر آئیں یا کوئی قوم اپنی فورسز کی حمایت اور مخالفت میں بٹ جائے ‘تو اسے ففتھ جنریشن وارکہتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ جب نوازشریف کی طاقتور حکومت قائم تھی ‘لوگوں کی امیدوں کا مرکز اور ناراضی کا ہدف بھی یہی سویلین گورنمنٹ بنتی تھی ۔اسی تناظر میں اب اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کی طرف سے حکومت کو پیش کئے گئے چار نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈکی دو شقیں نہایت اہم ہیں۔وزیراعظم کا استعفیٰ اور نئے الیکشن جیسے روایتی مطالبات سے قطع نظر‘اپوزیشن کی طرف سے سویلین بالادستی کا تقاضا اور آئین کی اسلامی شقوں کے تحفظ جیسے حساس نکات پہ اصراربجائے خود ریاست کو تنازعات میں الجھانے کا وسیلہ بنیں گے۔ایک تو ملکی نظام سے ریاستی اداروںکی بالادستی کے خاتمہ کا مطالبہ ریاست اورعوام کے مابین تفریق کو مزید بڑھا دے گا‘دوسرے آئین کی اسلامی شقوں کے خاتمہ کیلئے بڑھتا ہوا بیرونی دباؤ ہماری ریاست کو بتدریج عالمی تنہائی کی طرف دھکیلتا رہے گا۔اس لئے لازم ہے کہ سمجھوتوں اورسودابازیوں کے ذریعے سیاسی نظام کو مزید کرپٹ کرنے کی بجائے ہمارے ارباب بست و کشاد خرابیوں کو ٹھیک کرنے کی خاطر پیچھے ہٹیں اور ایک ایسا نظام حکومت مرتب کرنے کی کوشش کریں‘ جس میں تمام سٹیک ہولڈرز اپنی آئینی حدود میں سمٹ جائیں‘ ورنہ فریقین کے تصادم مملکت کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ خطرناک پیشقدمی ہے ‘جو ریاست کے انتظامی ڈھانچہ کے تارپود بکھیرنے کے علاوہ مسلح مزاحمت کی نئی لہر پیدا کرسکتا ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ حکومت کی ناک کے نیچے‘ جے یو آئی نے انصار السلام جیسی منظم فورس کھڑی کیسے کر لی؟اس وقت ریاست کہاں تھی؟ایک ایسا لشکر جس کی یونیفارم‘ جھنڈا‘ ڈنڈا‘ پلیٹ فارم اور شناخت یکساں ہو‘اسے طاقت کے ذریعے کچلنا مضمرات سے خالی نہیں ہوگا۔بلاشبہ ان حالات میں نوازشریف ہی وہ واحد لیڈر ہیں‘جو ملک میں سماجی رشتوں اورسیاسی نظام میں توازن قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔سلامتی کے ذمہ دار ادارے نواز لیگ کی فعالیت کو اگر مثبت لیتے تویہی توانا آوازیں سندھ‘بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو پنجاب سے جوڑ سکتی تھیں‘مگر ہماری غلط سوچ نے وفاق کی تین چھوٹی اکائیوں کو پنجاب کے سامنے لا کھڑا کیا۔مہذب دنیا میں سیاسی فعالیت اورجمہوری حقوق کی تحریکیں کسی بھی سماج کی زندگی کی علامت اور فکری ارتقاء کا زینہ سمجھی جاتی ہیں‘ تاہم یہاں ایسی تحریکوں کو دشمن سمجھ کے دبانے کی پالیسی ہی نفرت وتشدد کو فروغ دیکر قوم کو تقسیم کرنے کا سبب بنتی رہی۔دوسرا سوال یہ ہے کہ نوازشریف کی مزاحمتی حکمت عملی سیاسی نظام میں توازن لانے کا وسیلہ بن سکے گی؟تو جواب ہاں میں ہو گا۔
کسی زمانہ میں نوازشریف کہتے تھے؛ اگر میڈیا چالیس فیصد سپورٹ دے تو ہم طاقتوروںکو اپنی ڈومین میں پہنچاسکتے ہیں ‘لیکن چاہنے کے باوجود مرکزی دھارے کا میڈیا کسی سیاسی مہم جوئی کا حصہ نہ بن سکا۔خوش قسمتی سے سوشل میڈیا نے ان کی یہ خواہش پوری کر دی‘اس وقت سیاسی جماعتوں کی مزاحمتی جدوجہد کا ہراول دستہ ان کی سوشل میڈیا ٹیمیں ہیں‘بلکہ سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے مرکزی دھارے کے میڈیا پر سے بھی دباؤکم کرانے میں اہم رول ادا کیا۔بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ نواز لیگ کی خاموش مزاحمت نے قومی سیاست میں استقامت کی نئی تاریخ رقم کی‘پچھلے چھ سال پہ محیط جبریت کے باوجود مقتدرہ نواز لیگ کے کسی ایک کارکن‘رہنما یا ممبر اسمبلی کو توڑ سکی‘ نہ ان کی قیادت کا اعتماد متزلزل ہوا۔اس کشمکش کے دوران جماعت کے ہررکن پارلیمنٹ‘رہنما اور کارکن نے مقدور بھرکوشش کر کے سویلین بالادستی کی تحریک کو اس مقام تک پہنچایا ‘جہاں سے منزل صاف دیکھائی دیتی ہے۔بظاہر یہی لگتا ہے‘ہماری ملکی سیاست کوئی اہم موڑ مڑنے والی ہے اوراس نازک مرحلہ کی تکمیل کیلئے تقدیر نے نوازشریف کے کردار کو اہم بنا دیا۔بیشک‘انسانی زندگی فطرت کا انمول تحفہ سہی اور‘ہماری جبلتوں کی اساس بقاء نفس کے لافانی اصول پہ رکھی گئی؛چنانچہ شریف خاندان کی طرح ملک کا ہر شہری نوازشریف کی صحتیابی کیلئے دعا گو ہے‘ لیکن زندگی کی اہمیت اس لئے نہیں کہ وہ انسان کو جینے کا داعیہ مہیا کرتی ہے‘ بلکہ انسان اپنے جینے کے انداز سے خود زندگی کو اہم بناتے ہیں۔پچھلی دو دہائیوں میں انفارمشن ٹیکنالوجی کے فروغ سے سماجی ابلاغ کو وسعت ملی تو باہمی روابط کی سہولت ذہن انسانی کے تیز تر ارتقاء کا سبب بنی‘ یوںسوشل میڈیا نے سماج کو باہم مربوط کر کے زندگی کو نئے معنی عطا کئے۔
دنیا ‘جس تیزی سے ذہنی طور پہ مربوط ہوتی گئی‘اسی رفتار سے زندگی کا جمود اورجہالت کی تاریکی چھٹتی چلی گئی۔اب ہم ایک ایسے سماج کے رکن ہیں‘ جو سوچ کی وسعتوں سے بہرور اورزندگی کی توانائی سے مرتعش رہنے والا فعال دھار ہے‘جس میں طاقت کی پرستش کی روایت دم توڑ رہی ہے‘نئی نسلیں دلیل کے ذریعے زندگی کی تفہیم میں لذت محسوس کرنے لگی ہیں‘اسی رجحان نے قومی سیاست میں کارفرما سیاسی کارکنوں اور قومی قیادت کو عزت نفس کے احساس دیا‘ تو ہمارے سماج کا اجتماعی ماحول بدل گیا۔اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ سیاستدان زیادہ دیر تک اپنی حقیر حیثیت پہ قانع نہیں رہ پائیں گے اور نوازشریف نے ثابت بھی کر دیا کہ نہتے سیاستدان طاقت کے سامنے سرنگوں ہونے کی بجائے موت کو ترجیح دیکر عزت کما سکتے ہیں۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved