ممالک اور قوموں کے اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔کوئی بھی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ہر ملک کو اپنے مفادات مقدم ہوتے ہیں۔ خارجہ پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی‘ دوسرے ملکوں سے تعلقات استوار کرنے یا پھر بگاڑنے اورباہمی تجارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کامیاب خارجہ پالیسی کے بہترین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ناقص خارجہ پالیسی کا حامل ملک دنیا بھر سے کٹ کے رہ جاتا ہے۔ دنیا سے الگ تھلگ رہنے کا مطلب ‘آپ نے دنیا سے اپنے تعلقات ہی نہیں گنوائے‘ تجارت بھی گنوا دی ہے۔ برآمدات ہوں یا درآمدات‘ یہ کسی بھی ملک کا وہ واحد شعبہ ہے‘ جس کے ذریعے نا صرف خوشحالی لائی جا سکتی ہے‘ بلکہ یہ اس ملک کو معاشی طورپر بھی مستحکم بھی کرتا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی‘ خوشحالی اور مضبوطی کا انحصار اُس کی خارجہ پالیسی پرہوتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی بات کریں تو لبرل اور قدامت پسند‘ دونوں طرح کے نقادوں کا خیال ہے کہ امریکی صدر نے عالمی اتحاد کے حوالے سے امریکہ کے صفوں کو بے حد نقصان پہنچایا ہے۔خیال کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ نے نیٹو کی ساخت پربھی کئی سوال پیدا کیے ہیں۔ یورپ‘ ایشیاء‘ اور شمالی امریکہ میں جمہوری رہنماؤں کے ساتھ لڑائی لڑی۔ ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اس نقصان کو سدھارنے میں کئی سال لگیں گے۔اس فرد ِجرم کیلئے ضروری ہے کہ عالمی تعلقات اور ان کے اثرات کا مفصل جائزہ لیا جائے۔ امریکہ کا ہر ایک موجودہ وعدہ ایک اہم قومی اثاثہ مانا جاتا ہے اور اس کے تمام حلیف وشراکت دار یکساں طور پر امریکی حمایت کے مستحق ہیں‘ لیکن یقینا ایسا نہیں‘ تمام اتحادی یکساں معیار نہیں رکھتے ‘ وقت کے ساتھ ساتھ کسی بھی عزم کی قدر و قیمت ختم ہوجاتی ہے۔
کچھ حالات میں صحیح اتحادیوں کا ہونا انتہائی قیمتی ثابت ہوسکتا ہے۔ سرد جنگ کے دوران‘ امریکی اتحاد کا نیٹ ورک آبادی‘ مجموعی قومی پیداوار‘ کل فوجی افرادی قوت اور سالانہ دفاعی اخراجات میں سوویت بلاک سے تجاوز کر گیاتھا۔امریکی کی توجہ فی الوقت ایک بڑھتے ہوئے چین کو متوازن بنانے پر مرکوز ہے۔بیجنگ کی صلاحیت کو متعدد ممالک بالخصوص ایشیاء کے ساتھ قریبی اور موثر شراکت داری کے بغیر پوری دنیا میں محدود کرنے کیلئے پالیسیاں ترتیب دی جارہی ہیں‘تاہم کتنی کامیابی مل سکتی ہے ؟اس کا انحصار کیے گئے عہد کی عین نوعیت پر ہے۔ اتحاد نئے فوجی مشن تشکیل دے سکتے ہیں اور کئی دفاعی تقاضوں میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ خاص طور پر اگر اتحادی بہت دور ہے یا ان کا دفاع کرنا مشکل ہے ۔ اتحاد کی ذمہ داریوں سے ملک کی خارجہ پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ‘خود مختاری کو فوقیت دیتے ہوئے‘ دوسرے طریقوں سے عہدہ برأ ہوا ہواجاسکتا ہے۔ مبینہ طور پراوبامہ انتظامیہ یمن میں اپنے طرز عمل میں سعودی عرب کا مقابلہ کرنے سے گریزاںتھی‘ کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے حوالے سے کشیدہ تعلقات کو مزید نقصان پہنچے گا۔ بعض اوقات‘ طویل عرصے سے حامی اتحادی بھی پریشانی کا باعث بن سکتے تھے‘اسی وجہ سے‘ عقلمند ممالک اپنے اتحادیوں کا احتیاط سے انتخاب کرتے ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی مقدس یا ناقابل تسخیر نہیں مانتے ‘چاہے قائدین عوام میں ایسے رشتوں کا کتنے ہی پرجوش انداز میں دفاع کیا جائے۔
بدقسمتی سے‘ امریکی خارجہ پالیسی کے تمام پنڈت اکثر امریکہ کے تقریباًتمام موجودہ شراکت داروں کو اپنی پالیسیوں کے تحت منظم کرتے ہیں۔ نیٹو جیسے باقاعدہ اتحاد اور درجنوں دیگر ممالک کے ساتھ سکیورٹی کے کم انتظامات‘ اس بات کو ظاہرکرتے ہیں کہ ان تعلقات میں کمی امریکی اثر و رسوخ کو ختم کرسکتی ہے۔بہت سے سوالات ہر ذی شعور کے اذہان میں ہیں۔ اچھے اتحادی کیا چیز ہیں یا یہ کیسے بنائے جا سکتے ہیں؟ وہ کون سی خصوصیات ہیں‘ جو غیر ملکی طاقت کو خاص طور پر قیمتی شراکت دار بناتی ہیں اور اس لئے ملکی سلامتی کے عہد کو جواز بناتی ہیں؟ان سوالات پر غور کرنے کیلئے ایک لمبی فہرست موجودہے۔
ایک اچھا اتحادی معاشی طور پر مضبوط اور فوجی صلاحیت رکھتا ہے یا یہ دوسرے سٹرٹیجک اثاثوں جیسے قدرتی وسائل یا کلیدی سٹرٹیجک مقام پر اس کی گرفت مضبوط ہوتی ہے‘ تاکہ اتحاد کی مجموعی طاقت میں معنی خیز شراکت کرسکے۔امریکہ نے سرد جنگ جیت لی ‘کیونکہ اس میں جاپان‘ جرمنی‘ فرانس اور برطانیہ جیسی طاقتور‘ دولت مند اور فوجی طور پر قابل ریاستیں تھیں‘ جبکہ سوویت یونین کو نسبتاًکمزور لوگوں کی مدد حاصل تھی۔
ایک اچھا اتحادی سیاسی طور پر مستحکم ہوتا ہے۔ اس میں بہت زیادہ وقت اور رقم خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ‘ اس بات کا ڈر بھی نہیں ہوتا کہ داخلی سیاست نہ جائے۔ ایک اچھا اتحادی اتنا خطرہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کا دفاع کرنا تقریباً ناممکن ہو جائے۔ ظاہر ہے‘ ایسی ریاست جس کو کسی بیرونی خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے‘ اتحادیوں کی بہت کم ضرورت ہوتی ۔اچھے اتحادی مفادات بھی رکھتے ہیں۔کون نہیں جانتاکہ امریکہ تیل سے مالا مال فارس پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے کیا کیا جتن کر چکا ہے ؛حالانکہ وہاں اس کا کوئی شراکت دار نہیں۔ دونوں ریاستوں کے ایک جیسے مفادات بھی نہیں‘ لیکن جتنا زیادہ مفادات کا رخ موڑاجاتا ہے‘ اتحاد اتنا ہی قیمتی یا قابل عمل ہوتا ہے‘اگر مفادات کو کافی حد تک موڑ دیا جاتا ہے تو اتحاد ایک غیر متعلقہ اور مربی بن جاتا ہے اور یہاں تک کہ ایک شدید دشمنی میں بدل سکتا ہے۔
ایران اور عراق جنگ کے دوران امریکہ نے صدام حسین کی حمایت صرف اس وقت کی جب اس جنگ کا خاتمہ ہوا اور عراق نے کویت کا رخ کرلیا اور صدام حسین خلیج فارس پر غلبہ حاصل کرنے پر تلے ہوئے نظر آئے‘ اسی طرح 1970ء کی دہائی کے دوران امریکہ اور چین سوویت یونین کے خلاف اتحادی تھے‘ لیکن چین کے عروج اور سوویت کے خاتمہ کے بعد چین اور امریکی تناؤ بھی مستقل طور پر عروج پر ہے اور کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔اتحاد شراکت داری میں تعاون کرسکتا ہے ‘جب قلیل مدتی مفادات زیادہ نہ ہوں۔ ایک اچھا اتحادی آپ کی مدد کرے گا‘جب تک کہ آپ اس کے قلیل مدتی مفادات میں براہ راست مداخلت نہ کریں‘ کیونکہ اسے مجموعی تعلقات کی قدر ہوتی ہے یا اس وجہ سے کہ اس کے شہری مشترکہ شناخت کو محسوس کرتے ہیں۔(جاری)