تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     31-10-2019

فیصلے کا دن

کیا آج فیصلے کا دن ہے؟ کیا آج پنجاب 'آزادی مارچ‘ کے لیے نکلے گا؟ اس کا جواب مولانا فضل الرحمن کے پاس نہیں، ن لیگ کے پاس ہے۔
نون لیگ پر پھبتی کسی جاتی ہے کہ یہ جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جی ٹی روڈ کے قرب میں جو شہر اور قصبات آباد ہیں وہاں ن لیگ کو اکثریت حاصل ہے۔ گویا جو نون لیگ کو ایک ملک گیر جماعت ماننے پر آمادہ نہیں، وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ لاہور سے راولپنڈی تک، نواز شریف عوام کے مقبول ترین راہنما ہیں۔ ن لیگ کو اب اس کا عملی مظاہرہ کرنا ہے۔ جب اس نے 'آزادی مارچ‘ کی تائید کا فیصلہ کیا ہے تو پھر اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنا پورا وزن اس کے پلڑے میں ڈال دے۔ اس کے سیاسی مفاد کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اگر لوگ نہیں نکلتے تو یہ مولانا کی نہیں نون لیگ کی ناکامی ہو گی۔
پیپلز پارٹی کو سندھ میں اپنی اخلاقی ذمہ داری نبھانا تھی۔ وہ سندھ کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ جمعیت علمائے اسلام دیہی سندھ کی دوسری سب سے بڑی جماعت ہے۔ فکری اعتبار سے شاید ملک بھر میں سب سے توانا۔ دیوبند کی سیاسی فکر کے شارحین اور وابستگان یہیں پائے جاتے ہیں۔ سندھ میں تین قوتیں ہیں جو عوامی نمائندگی کا دعویٰ کر سکتی ہیں: پیپلز پارٹی، قوم پرست اور جمعیت علمائے اسلام۔ ان کے علاوہ کوئی منظم سیاسی قوت سندھ کے دیہی علاقوں میں موجود نہیں۔ چند وڈیرے ہیں جو کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو اس کا الگ وجود دکھائی دینے لگتا ہے، ورنہ عوامی سطح پر کوئی قابلِ ذکر اثر و رسوخ کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری طرح نہیں نبھائی۔ اس کی شرکت علامتی رہی۔ جو لوگ آئے، وہ زیادہ تر جمعیت کے وابستگان تھے یا وہ عام آدمی جو مہنگائی کے ہاتھوں پس رہا ہے اور اس حکومت سے تنگ آ چکا ہے۔
جو حیثیت پیپلز پارٹی کی سندھ میں ہے، وہی نون لیگ کی پنجاب میں ہے۔ اگر وہ اپنی پوری قوت مولانا کے پلڑے میں ڈال دے تو صرف پنجاب سے ایک لاکھ، کم و بیش، افراد اسلام آباد بھجوائے جا سکتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام بھی پنجاب میں ایک قابلِ ذکر جماعت ہے۔ پنجاب میں دیو بندی عصبیت بہت قوی ہے۔ انتخابات وغیرہ میں یہ عصبیت کسی انتخابی قوت میں ڈھل نہیں پائی اور اس کے اسباب ہیں، جن کو بیان کیا جا سکتا ہے لیکن یہ اس کا موقع نہیں۔ عام حالات سے یہ صورتِ حال مختلف ہے۔ اس وقت مولانا فضل الرحمن کسی انتخابی معرکے میں نہیں ہیں۔ میرا تاثر ہے کہ پنجاب کے دیو بندی مدرسے کے طالب علم اور استاد سے لے کر مساجد کے خطیبوں تک، لوگ مولانا کے ساتھ ہیں۔ یوں مولانا تنہا بھی ایک قابلِ ذکر تعداد کو متحرک کر سکتے ہیں۔ اگر نون لیگ احتجاج کے ساتھ اپنی پچاس فی صد قوت بھی شامل کر دے تو لاکھ ‘دو لاکھ افراد کا اجتماع ایک قابلِ حصول ہدف ہے۔
پنجاب کے بعد آزادی مارچ کی کامیابی کا بڑا انحصار کے پی کے عوام کی شرکت پر ہے۔ ہزارہ اور پشاور تک کے لوگ بآسانی اسلام آباد پہنچ سکتے ہیں۔ ہزارہ میں نون لیگ ایک بڑی سیاسی قوت ہے۔ کے پی کے دوسرے علاقوں سے بھی جمعیت بڑی تعداد میں افراد کو اسلام آباد تک لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس بنا پر میرا تاثر یہ ہے کہ اگر نون لیگ صمیمِ قلب کے ساتھ اس مارچ میں شریک ہوتی ہے تو ایک بڑا اجتماع جمع کرنا مشکل نہیں رہتا۔ کیا نون لیگ یہ کر پائے گی؟ اس کا فیصلہ آج ہو جائے گا۔
حکومت کی پریشانی ظاہر و باہر ہے۔ سیاست سے معیشت تک اور نواز شریف سے مولانا فضل الرحمن تک، سب کے بارے میں اس کے قائم مقدمے، وقت کے ساتھ ساتھ غلط ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ خان صاحب غالباً نواز شریف کی مزاحمت کا صحیح اندازہ کر سکے اور نہ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی قوت کا۔ خود پسندی کے حصار میں قید حکومت سیاسی حرکیات سے آخری درجے میں بے خبر نظر آتی ہے۔ ہر طبقۂ زندگی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ برسرِ اقتدار گروہ اس کا اندازہ نہیں کر سکا کہ حکومت کا اپنا وجود بھی دوسرے کے وجود کا محتاج ہے۔ جہاں تاجر کا دم گھٹ رہا ہو، جہاں میڈیا کا گلا دبایا جا رہا ہو، جہاں سیاست دان قید کر دیے جائیں، جہاں ہر طبقۂ زندگی کے لیے جینا دوبھر کر دیا جائے۔ وہاں کیسے ممکن ہے کہ صرف حکومت قائم رہ سکے؟
تجارت نہیں ہو گی تو معیشت کمزور ہو گی۔ اس کی کمزوری سے سب سے زیادہ حکومت متاثر ہو گی۔ ٹیکس نہیں جمع ہوں گے تو کوئی حکومتی ادارہ نہیں چل سکتا۔ پارلیمنٹ مفلوج ہو گی تو قانون سازی نہیں ہو گی۔ صدارتی آرڈیننس سے چلنے والی حکومت اپاہج ہو جاتی ہے۔ پارلیمنٹ اسی وقت چل سکتی ہے جب سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت ہو گی۔ یہ سب ریاست کے اعضا ہیں جس طرح حکومت بھی ایک عضو ہے۔ ریاست جسم کی طرح ہوتی ہے۔ ایک عضو ناکارہ ہو جائے تو جسم کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یا دم توڑ دیتا ہے۔ پارلیمنٹ اور معیشت، اعضائے رئیسہ ہیں، یہ معطل ہو جائیں تو حکومت کی جان جا سکتی ہے۔
ملک کو آج یہاں پہنچا دیا گیا ہے کہ کہیں سے خیر کی خبر نہیں آ رہی۔ اضطراب کی لہریں بڑھ رہی ہیں۔ معیشت، سیاست، صحافت... کسی شعبے کو دیکھ لیجیے۔ پہلے اور دوسرے درجے کے لوگ حکومتی تائید سے توبہ کر رہے ہیں، اگر ان میں کچھ، ان کے حامی تھے بھی۔ ورنہ اکثر ابتدا ہی سے اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔ دوسرے اور تیسرے درجے کے لوگوں کی تائید سے کوئی حکومتی اور ریاستی نظم قائم نہیں رہ سکتا۔ آج ہر شعبے اور فن کے اعلیٰ درجے کے لوگ حکومتی تائید سے دست بردار ہو چکے ہیں۔ کوئی اس عاشقی میں عزتِ سادات داؤ پر لگانے کے لیے آمادہ نہیں۔
اس فضا میں نون لیگ کی قیادت اپنے حامیوں کو متحرک نہ کر سکے اور پورے صوبے سے مناسب تعداد میں افراد نہ نکال سکے تو یہ اس کے لیے شرمندگی کا باعث ہو گا۔ اگر شہباز شریف صاحب کو کچھ تحفظات تھے تو انہیں مارچ سے اظہارِ لا تعلقی کر دینا چاہیے تھا۔ اس کے بعد تنقید کا زاویہ کچھ اور ہی ہوتا۔ اب اگر انہوں نے اعلانیہ تائید کر رکھی ہے تو مارچ کی کامیابی، صرف جمعیت علمائے اسلام کی ذمہ داری نہیں رہی۔ نون لیگ اس میں برابر کی شریک ہے۔ پرویز رشید صاحب اس پر فخر کا اظہار کر رہے ہیں کہ آزادی مارچ کے کنٹینر پر سب سے بڑی تصویر نواز شریف کی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے بعد سب سے زیادہ افراد جمع کرنے کی اخلاقی ذمہ داری بھی نون لیگ کی ہے۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ آج کا دن آئندہ چند سال کی سیاست کے لیے فیصلہ کن ہے۔ یہ جب اختتام کو پہنچے گا تو ہم سیاسی اعتبار سے ایک نئے عہد میں داخل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد عمران خان کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا یا پھر مولانا فضل الرحمن کی سیاست دم توڑ دے گی۔ مولانا فضل الرحمن نے جس سطح کا ہیجان پیدا کیا ہے اور جو آخری درجے کا مؤقف اپنایا ہے، اس کے بعد ان کے پاس واپسی کا راستہ نہیں ہو گا۔ آزادی مارچ کی نا کامی کا مطلب ہے موجودہ حکومت کو اگلے چار سال کوئی خطرہ نہیں۔ مہنگائی کا سیلاب ہو یا اداروں کی بربادی، یہ قائم رہے گی۔ بصورتِ دیگر عمران خان صاحب ایک قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔ سیاست میں عروج و زوال کے فیصلے ایک لمحے میں ہوتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کے لیے بعض اوقات مہینے اور کبھی ایک دو سال بھی لگ جاتے ہیں۔ فیصلہ آج ہو جائے گا۔ نتائج کتنے عرصے میں مرتب ہوں گے، شاید ابھی کچھ کہنا مشکل ہو، چند ماہ یا سال۔ آج کا دن، فیصلے کا دن ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved