مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ جاری ہے اور ابھی تک حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں خلاف توقع ماحول کو گرمانے یا تلخی پیدا کرنے کی بجائے ہلکی پھلکی تنقید پر اکتفا کر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سب سے بڑا اعتراض جو اس آزادی مارچ پر کیا جا رہا ہے، وہ ہے مذہبی کارڈ کا استعمال۔ مذہب کارڈ کا الزام لگانے والے شاید بھول گئے کہ اس ریاست کی بنیاد ہی ایک مذہبی نعرے پر رکھی گئی، پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ ایک اور بات جو حکمران جماعت اور اس کے وزرا بھول رہے ہیں وہ دو ہزار چودہ کا دھرنا ہے جو انہوں نے اپنے سیاسی کزن علامہ طاہرالقادری کے ساتھ مل کر پلان کیا تھا اور پھر فیض آباد دھرنے کی بھی حمایت کی تھی۔ لیگی حکومت کے خلاف ختم نبوت کا ایشو کھڑا کرنے کے بعد کپتان گولڑہ شریف اور دیگر آستانوں پر حاضری دیتے نظر آتے تھے۔ ملکی سیاست میں مذہبی کارڈ کو شدومد کے ساتھ داخل کرنے کا سہرا آمروں کے سر ہے۔ سیاست میں مذہبی کارڈ کے استعمال پر بحث بہت پرانی اور پیچیدہ ہے۔ اقبال نے کہا تھا: ع
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مذہب کو سیاست سے الگ کرنے اور سیکولر ازم کو متعارف کرانے والے اپنے معاشروں میں مذہبی پیشواؤں کی آمریت کے خلاف تھے۔ پاکستان میں مذہب کو سیاست سے الگ رکھنے کی سوچ کے حامل خود اس سوچ پر مکمل یکسو نہیں، اور خود بھی اس سوچ پر عمل نہیں کرتے۔
مدارس کو سیاست سے الگ رکھنے کے خواہش مند اس حقیقت سے نظریں چرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مدارس کے نوے فیصد طلبہ ان غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں ریاست، تعلیم کا بنیادی حق دینے کے قابل نہیں، جن کے والدین کو ریاست کی معاشی پالیسیاں دن رات غربت کی چکی میں پیس کر رکھے ہوئے ہیں۔
مذہب اور مدارس کو سیاست سے الگ رکھنے کے خواہش مندوں کو ترکی کے نظام کا جائزہ لینا ہو گا اور اس نظام کو اپنے ہاں نافذ کرنے کے لیے مذہبی طبقات کے ساتھ مذاکرے کا آغاز کرنا ہو گا۔ ترکی کو بطور ماڈل پیش کرنے والے اس نظام کو سرسری جانتے ہیں۔ سوشل میڈیا پوسٹوں میں ترکی اور ترک صدر کو جدید اسلامی دنیا میں مثال کے طور پر عام شہری ہی نہیں مذہبی رجحان رکھنے والے بھی پیش کرتے رہتے ہیں لیکن اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
جمہوریہ ترکی کی پالیسی سازی میں پوسٹ سیکولر نظریہ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ پوسٹ سیکولر نظریہ فرانس کا ایک تصور ہے جس میں ریاستی اور سرکاری امور میں مذہب کی مداخلت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، خصوصاً ریاست کی پالیسیوں کی تشکیل میں مذہب کے اثر کو شامل کرنے کی نفی کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ مذہبی معاملات میں حکومت کی مداخلت، خصوصاً مذہب کے تعین میں حکومتی مداخلت ناقابل برداشت تصور ہے۔ پوسٹ سیکولر نظریہ میں انفرادی طور پر عقائد رکھنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں۔ بنیادی طور پر یہ تصور چرچ اور ریاست کو الگ کرنے کے لیے پیش کیا گیا۔
ترک سیاست میں اسلام کے کردار کے بارے میں سمجھنے کے لیے ترکی کے ادارے دینیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ دینیات جمہوریہ ترکی کا ایک سیکولر انتظامی یونٹ ہے‘ جس کی بنیاد انیس سو چوبیس میں رکھی گئی۔ یہ ادارہ اسلامی عقائد و تعلیمات پر عمل درآمد کے حوالے سے مساجد اور مذہبی مقامات کے انتظام کے لیے بنایا گیا تھا۔ دینیات کا قیام تیس مارچ انیس سو چوبیس کو ایکٹ چار سو انتیس کی منظوری کے ساتھ عمل میں آیا۔ دینیات کے قیام کے بعد وزارت مذہبی امور اور وزارت اوقاف ختم کر دی گئیں۔ دینیات کے قیام کے تحت مذہبی معاملات کو کابینہ سے نکال کر انتظامیہ کے سپرد کر دیا گیا۔ دینیات کے قیام سے مذہبی معاملات ایک اعتبار سے سیاست سے نکال دیئے گئے؛ اگرچہ دینیات کے سربراہ کا تقرر وزیر اعظم کا اختیار رکھا گیا۔ ایکٹ چار سو انتیس کا آرٹیکل ون واضح کرتا ہے کہ دینیات کا قیام مذہبی معاملات کے انتظامی امور چلانے کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔ ریاست کے باقی تمام امور اور قوانین پارلیمنٹ کے ذریعے طے پائیں گے‘ جن پر عمل درآمد کابینہ کرے گی۔ یہ آرٹیکل مذہبی معاملات اور سیاست کے الگ الگ ہونے کا اعلان ہے۔ ترکی میں دینیات کے بانیوں کا مقصد سیاست اور ریاست کو سیکولر بناتے ہوئے جدید معاشرے کی بنیاد رکھنا تھا۔
پاکستان میں ایک اور نہ ختم ہونے والی بحث مدارس اصلاحات کی صورت میں موجود ہے۔ جس حکومت نے بھی مدارس اصلاحات کا نام لیا اس کے اپنے سیاسی مقاصد تھے۔ ترکی میں مدارس کا مسئلہ بھی دینیات کے قیام سے حل ہو گیا۔ دینیات پچاسی ہزار سے زائد رجسٹرڈ مساجد کا انتظام چلاتا ہے اور ایک لاکھ سترہ ہزار سے زیادہ آئمہ مساجد، مؤذن اور قرآن کے معلم ریگولر سرکاری ملازم ہیں۔ انیس سو بیاسی میں آرٹیکل ایک سو تریسٹھ کی منظوری سے دینیات کے کردار کو وسعت دی گئی۔ اس آرٹیکل میں کہا گیا کہ دینیات سیکولرازم کے فریم ورک میں رہتے ہوئے قومی وحدت و استحکام کے لیے کام کرے گا۔ دینیات کے ادارے کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے لیے انیس سو تراسی کے پولیٹیکل پارٹیز لاء کے آرٹیکل نواسی میں کہا گیا کہ جو بھی جماعت دینیات کے خاتمے کا مطالبہ کرے گی اس پر پابندی لگا دی جائے گی۔
ترکی کا ادارہ دینیات مساجد و مذہبی مقامات کے انتظام میں مذہبی روایات کو بھی ملحوظ رکھتا ہے لیکن جہاں کہیں مسلمہ دینی روایات پر ابہام پیدا کرنے کی کوشش ہو تو دینیات اس پر علما کی رائے اور پختہ دلائل بھی پیش کرتا ہے۔ اس کی مثال مردوں اور خواتین کی گواہی اور جائیداد میں مساوی حصہ نہ ہونے پر ''دینیات‘‘کا فیصلہ ہے۔ دینیات نے خواتین تنظیموں کے احتجاج پر جون دو ہزار تین میں فیصلہ دیا تھا کہ خواتین کی گواہی نصف ہونے کے حوالے سے احادیث اس دور کی ہیں‘ جب خواتین کا معاشی کردار نہ ہونے کے برابر تھا اور خواتین کو معاشرے میں کمزور طبقے کے طور پر رہنا پڑتا تھا۔ اب خاتون اور مرد کی گواہی برابر ہے جبکہ جائیداد میں بہن بھائی کا حصہ برابر نہ ہونے کا فیصلہ برقرار رکھا گیا اور مرد پر معاشی بوجھ کو اس کے زیادہ حصے کے جواز کے طور پر پیش کیا گیا‘ ساتھ ہی ایک اور وضاحت کی گئی کہ مرد خاندان کی کفالت کے علاوہ خاتون کو مہر ادا کرنے کا پابند ہے جبکہ خاتون پر ایسی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اگر جائیداد میں مساوی حصے کا فیصلہ دیا جائے تو توازن بگڑ جائے گا۔ دینیات کی خدمات انیس سو اسی کے بعد بیرون ملک تک پھیلائی گئیں، دینیات تارک وطن ترکوں کے لیے امام بھجواتا ہے اور ترکوں پر دیگر خطوں کی مسلم برادریوں کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ترکی کا سیکولرازم پاکستان کے سیاسی مسائل کا حل ہے یا نہیں؟ اس پر مذاکروں اور مکالمے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مذہب اور سیاست کا رشتہ مذہبی طبقے کے معاشی مسائل سے بھی جڑا ہوا ہے اور معاشی مسائل کے سامنے مذہبی شخصیات بھی بے بس ہو جایا کرتی ہیں‘ جس کی ایک مثال تقسیم بر صغیر سے پہلے کا ایک واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں کرنسی نوٹ جب پہلی بار تصویر کے ساتھ جاری کیے گئے تو اس وقت کے مذہبی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ اس ضمن میں ایک وفد اس دور کے بڑے عالم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا کہ کرنسی پر تصویر کا ہونا صحیح ہے یا غلط؟ محترم عالم دین نے بڑے اطمینان سے جواب دیا، میرے بھائیو! میرے فتویٰ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میرا فتویٰ نہیں چلے گا کرنسی نوٹ چل جائے گا۔
اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں سیاسی معاملات میں مذہب کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے میں سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے انہیں ملک کے معاشی معاملات درست کرنا ہوں گے۔ صحت اور تعلیم کی بنیادی ضروریات ہر شہری تک مفت پہنچانا ہوں گی۔ اس کے بعد ہی اس سلسلے میں آگے بڑھنے کے بارے میں کچھ سوچا جا سکے گا۔