تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     31-10-2019

گٹکے نے پھر میدان مار لیا

انسان بھی کیا ہی عجیب مخلوق ہے۔ ہمت سے کام لے تو زمین کا فضائی حصار توڑ کر چاند کو مسخر کرنے کے بعد تاروں کے لب چُھونے کی تیاری کرے اور اگر ناطاقتی کو شعار بنانے پر آئے تو کسی انتہائی معمولی اور مُضِر شے کی لت کے ہاتھوں ذلیل ہو۔ 
گٹکے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اہلِ کراچی کو گٹکے کے نرغے سے نکالنے کی کوشش کوئی پہلی بار نہیں کی گئی۔ اس میدان میں پہلے بھی طالع آزمائی کی جاچکی ہے۔ غالبؔ نے شاید گٹکے کیخلاف صف آراء ہونے والوں ہی کے بارے میں کہا تھا۔ ؎ 
تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے 
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں 
کراچی کو لندن‘ پیرس اور خدا جانے کیا کیا بنانے کی باتیں کرنے والے جب میدان میں آتے ہیں تو سنگلاخ نوعیت کے زمینی حقائق کا سامنا ہوتا ہے۔ گٹکا خوری بھی ایک ایسی ہی سفاک زمینی حقیقت ہے۔ اس ملاکھڑے میں زمینی حقائق بلند عزائم کے حامل افراد کو ایسی آسانی سے پچھاڑ دیتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کراچی میں عدالتی حکم کے تحت گٹکے پر فتح پانے کی کوشش اس بُری طرح ناکام ہوئی ہے کہ معاملات پر ع
یہ عبرت کی جا ہے‘ تماشا نہیں ہے 
کا گماں ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والوں کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ کسی نہ کسی طور گٹکا بنانے اور کھانے کی راہ مسدود کریں۔ معاملہ جب پولیس کے ہاتھ میں تھا تب اقدامات بھی نیم دلانہ ہوتے تھے اور نتائج بھی قابلِ رحم حد تک کمزور رہا کرتے تھے۔ طے کیا گیا کہ رینجرز کو ''زحمتِ کلام‘‘ دی جائے۔ ایک ماہ کے دوران رینجرز نے بہت کوشش کی ہے کہ نئی نسل اس لت کو ترک کرے ‘مگر نتیجہ اب تک ایسا نہیں‘ جسے کسی بھی درجے میں حوصلہ افزاء قرار دیا جاسکے۔ 
پولیس اور رینجرز نے ایک ماہ کے دوران گٹکا کھانے والوں کو قدم قدم پر روک کر تلاشی بھی لی ہے‘ اُن کی ٹھکائی بھی کی ہے‘ شرمندہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ گٹکا کھانے والوں کو پولیس سٹیشن لے جاکر ایف آئی آر بھی نہیں کاٹی جاسکتی ہے۔ قانون کے تحت اس کی گنجائش تو ہے ‘مگر سوال یہ ہے کہ کتنوں کو پکڑا جائے اور کس کس کو عدالت میں پیش کیا جائے؟ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اس طلسمات میں جو گیا ‘وہ واپس نہیں آیا۔ 
گٹکے کی تیاری اور استعمال روکنے سے متعلق انتہائی سخت عدالتی حکم آیا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے متوجہ ہوئے۔ انتظامیہ نے انہیں ذمہ داری سونپی تو شہر بھر میں سنیپ چیکنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ ابتداء میں یوں ہوا کہ جس کی جیب سے ''ماوا‘‘ یعنی گٹکے کی پڑیا نکل آئے اُس کی خیر نہ تھی۔ بہت سے نوجوانوں کی جیب سے نکلنے والی گٹکے کی پڑیا ضبط کرنے کے ساتھ اُنہیں گٹکا تھوکنے اور منہ صاف کرنے کا بھی کہا گیا۔ رینجرز کے اہلکاروں نے بہت سے گٹکا خوروں کے منہ میں سپرے بھی کیا ‘تاکہ وہ گٹکے کے ہاتھوں پیدا ہونے والوں چھالوں کی اذیت زیادہ شدت سے محسوس کریں۔ 
کراچی میں ایک زمانے سے گٹکا کھایا جارہا ہے۔ اجزائے ترکیبی انتہائی خطرناک ہیں‘ مگر پھر بھی گٹکا کھانے والوں کی تعداد گھٹنے کی بجائے بڑھتی ہی رہی ہے۔ کراچی بھر میں لاکھوں افراد گٹکے سے شوق فرمانے کے عادی ہیں۔ لیاری‘ نیو کراچی‘ رنچھوڑ لین‘ رام سوامی‘ کورنگی‘ لالو کھیت‘ اعظم بستی‘ محمود آباد‘ عیسٰی نگری‘ غریب آباد‘ پاک کالونی‘ گولیمار‘ ریکسر لین‘ گارڈن‘ لسبیلہ‘ پٹیل پاڑا‘ موسٰی کالونی‘ مجاہد کالونی‘ اورنگی ٹاؤن‘ بلدیہ ٹاؤن‘ بنارس کالونی اور دوسرے بہت سے پس ماندہ علاقوں کے لاکھوں مکین بالخصوص نوجوان گٹکے کی لت میں اس بری طرح مبتلا ہیں کہ اصلاحِ احوال کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ یہ لت اس قدر پختہ ہوچکی کہ دس پندرہ روپے میں سرعام ملنے والی پڑیا اب 80 روپے میں بیچی جارہی ہے اور خریدار اس بلیک مارکیٹنگ کو بہ سر و چشم قبول و برداشت کر رہے ہیں۔ نیو کراچی‘ رنچھوڑ لین‘ لالو کھیت‘ موسٰی کالونی‘ کورنگی اور دیگر علاقوں میں گٹکا کھانے کے شوقین ‘اِس شوق کی اِتنی منزلیں طے کرچکے ہیں کہ اب اُنہوں نے زبان کو زحمتِ کلام دینا بھی ترک کردیا ہے۔ بات اشاروں سے شروع ہوکر اشاروں پر ختم ہوتی ہے۔ اگر کسی کو گٹکے سے بھرے ہوئے ‘یعنی بند منہ سے بات کرنے کا تماشا دیکھنے کی خواہش ہے تو کراچی آئے...! 
ہمارے احباب میں عمران پرمار سرِفہرست ہیں اور وہ خیر سے گٹکا خوری میں بھی سرِ فہرست ہیں! منہ میں گٹکا بھرا ہو تو کچھ کہنے یا کسی بات کا جواب دینے کے لیے بندے کو منہ کا رخ آسمان کی طرف کرنا پڑتا ہے‘ تاکہ کچھ کہنے کی کوشش میں گٹکا منہ سے نہ گرے! اور منہ بھی صرف پانچ سے دس فیصد تک کھولا جاتا ہے۔ عمران پرمار کو بھی منہ آسمان کی طرف کرکے بات کرنے کی عادت پڑچکی ہے۔ ایسی حالت میں بیشتر الفاظ ہُوں‘ ہاں کی منزل پہ رک کر دم توڑ دیتے ہیں! اب‘ جبکہ گٹکا کم و بیش پانچ گنا مہنگا ہوچکا ہے‘ بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ گٹکا خور گفتگو کے نام پر منہ پانچ دس فیصد کی حد تک بھی نہیں کھولیں گے! ٹی وی چینلز بارہا دکھاچکے ہیں کہ گٹکا سڑی ہوئی‘ پھپھوندی لگی ہوئی اشیاء سے تیار کیا جاتا ہے۔ جہاں یہ تیار کیا جاتا ہے‘ وہ مقامات بھی گندے ہوتے ہیں ‘جس کے نتیجے میں گٹکے کا ''معیار‘‘ اور ''مزا‘‘ دو آتشہ ہو جاتا ہے! شاید یہی سبب ہے کہ ع
چُھٹتا نہیں ہے منہ سے کافر لگا ہوا 
گٹکے کے خلاف جو مہم شروع کی گئی ہے‘ وہ اب تک خاطر خواہ نتائج پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے اور پورے یقین (اور افسوس) کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ناکام ہی رہے گی۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ بعض مقامات پر رینجرز اہلکاروں نے کسی کو گٹکا کھاتے ہوئے پکڑا تو دو تین تھپڑ لگانے کے بعد گزارش بھی کی کہ اللہ کے واسطے باز آجاؤ‘ یہ لعنتی آئٹم کھانا چھوڑ دو! اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ سوال امیج اور ساکھ کا بھی ہے۔ اگر رینجرز اِن کاموں میں الجھ کر رہ گئے تو عوام میں اُن سے متعلق تاثر ایسا بگڑے گا کہ اصلاح کی صورت ڈھونڈنے میں زمانے لگ جائیں گے۔ گٹکے کی روک تھام سے متعلق اقدامات کی ناکامی چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ ایک معاشرے کی حیثیت سے ہم کتنے بے حس اور بے ذہن ہوکر رہ گئے ہیں۔ جو چیز صریحاً صرف نقصان سے دوچار کر رہی ہے‘ اُسے خیرباد کہنے کے بجائے معمولات کے تانے بانے سے مزید جوڑا جارہا ہے۔ 
کراچی میں لاکھوں افراد کی گٹکا خوری اس بات کی مظہر ہے کہ ہم ضبطِ نفس کے معاملے میں افسوس ناک حد تک کمزور ہوچکے ہیں۔ حبابؔ ترمذی نے خوب کہا ہے۔ ؎ 
حبابؔ! ایسی بھی کیا بے اعتمادی 
ڈبو دے گی ہمیں موجِ نَفس کیا؟ 
اس ٹیسٹ کیس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم میں بہت سی منفی عادات کس قدر پختہ ہوچکی ہیں۔ سوال گٹکا خوری کا نہیں‘ سوچ اور رویے کا ہے۔ ایسا ہی معاملہ اور بہت سے چیزوں کا بھی ہے‘ مثلاً :بہت سوں کو ہر ڈیڑھ دو ماہ بعد سیل فون تبدیل کرنے کی عادت پڑچکی ہے۔ نیا فون خریدنے کے لیے موجودہ فون کو خسارے کے ساتھ فروخت کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ اِسی طور چائے کی لت بھی انسان کی جان نہیں چھوڑتی۔ لوگ دن میں دس بارہ کپ چائے پی کر جسم کی مٹی پلید کرتے رہتے ہیں۔ تفنن برطرف‘ ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کب تک قبیح عادات کے غلام رہیں گے۔ اِن اطوار کے ساتھ ہم صحت مند معاشرے میں کبھی تبدیل نہیں ہوسکتے۔ کچھ تو سوچا جائے۔ ع
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved