اس سائز اور اسلوب کے دو ہی بورڈ میں نے اپنی زندگی میں دیکھے ہیں،ایک جامع مسجد دہلی میں،جس میں ایک اشک بہاتی تحریر نے نہ صرف جگہ جگہ پینٹر کی روغنی روشنائی کے کچھ حرف غائب کر دئیے تھے،بلکہ امام مسجد کے جلالی اسلوبِ خطابت نے ٹین کے اس بورڈ کی کمر میں کچھ بل بھی ڈال دئیے تھے جس پر اس تاریخی مسجد پر اندرا گاندھی کے راج کے مظالم کی روداد لکھی تھی جو جس کے مطابق مسجد کی وقف زمین کی سیڑھیوں سے متصل ایک مارکیٹ بنا کر دینی امور میں مداخلت کی گئی تھی جو تہہ بازاری کی آمدنی پر نیک لوگوں کے اختیار پر براہ راستہ حملہ ہے۔ میں بدقسمتی سے ان لوگوں میں سے ہوں جن کا سینہ بھی چہرے کی طرح ایمان کی روشنی سے محروم ہے اور مولانا منور حسن مد ظلہ کے خیال انگیز ارشاد کی روشنی میں مجھے دیکھیں تودور سے ہی نہیں قریب سے بھی پاکستانی اقلیتوں میں سے دکھائی دیتا ہوں۔ میں نے آس پاس کے لوگوں سے تحقیق کرنا چاہی تو بیشتر نے تہہ بازاری کے جملہ حقوق کرایہ،نذرانہ اور پگڑی کے بارے میں ایسی ہوش ربا کہانیاں سنائیں کہ احساس ہوا کہ جغرافیائی اور سیاسی فاصلے کے باوجود ہم بر صغیر کے مسلمان بلا شبہ ایک ملّت کے مضبوط رشتے اور اوصاف میں گُندھے ہوئے ہیں۔ایسا دوسرا بورڈ میں نے ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے دفتر میں دیکھا تھا،جب قضا و قدر نے اسلامی جمعیت طلبہ کے دو تربیت یافتہ قائدین جناب حسین حقانی اور جناب صدیق الفاروق کو،کوئی چار پانچ برس کے بعد باری باری اس ادارے کا سربراہ بنا کر بعد کے ’فرشتوں‘ کے ہاتھوں زیرِ عقوبت رکھنا تھا،مگر اس بورڈ میں ان سترہ دستاویزات کی تفصیل لکھی تھی جو درخواستِ قرض کے ساتھ منسلک کر دی جائیں تو آپ جہنم کا ایندھن بننے یعنی رشوت دینے سے بچ سکتے ہیں۔آگے کا قصہ بہت درد ناک ہے۔ منظور شدہ نقشہ،فرد ملکیت،عکس شجرہ (اپنا نہیں،زمین کا) نقل انتقال وغیرہ جیسے ہر کاغذ اور ہر مرحلے کے لئے بالآخر جہنم کا ایندھن بننا پڑا؛ حالانکہ ایم ڈی اے سے نقشہ منظور کرانے کے لئے آڈٹ اینڈ اکائونٹس کے ایک شاعر دوست اظہارالحق سے بھی ناکام سفارش کرائی مگر ہمارے اہل کاروں کا ذوق مشتاق احمد یوسفی سے بہت ملتا جلتا ہے کہ انہوں نے بھی پسندیدہ خوشبو کے طور پر نئے کرنسی نوٹوں کی خوشبو ہی کو منتخب کر رکھا ہے۔ان سترہ دستاویزات میں سے ایک کا نام مشکل تھا مگر دل چسپ تھا،این ای سی (نان اینکمبنٹ سرٹیفکیٹ) یعنی یہ سرٹیفکیٹ کہ یہ زمین رہن شدہ نہیں اور یہ دستاویزتحصیل دار عنایت کرتا ہے۔اس زمانے میں میرا ایک شاگرد تحصیل دار تھا جس کی املا کی غلطیوں پر کئی مرتبہ اسے کلاس سے نکال چکا تھا مگر اس کے والدِماجدتحریکِ پاکستان پر اور حکومتِ پاکستان کے روبرو ہر یوم پاکستان پرکوئی نہ کوئی کلیم پیش کرتے رہتے تھے،اس لئے قانون گو بھرتی ہونے والے یہ شاگردِ محترم ہر معطلی کے باوجود نہ صرف بحال ہو جاتے تھے بلکہ پروموٹ بھی ہو جاتے تھے۔بہر طور میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے پوری تحصیل کے اہل کاروں کو اپنے کمرے میں جمع کر لیا اور کہا: ’’آج میں عظمت کے جس مقام پر ہوں، اپنے معمولی دکھائے دینے والے اس استاد کی جوتیوں کے صدقے سے ہوں‘‘۔ ان کے اس مکالمے کے بعد بیشتر لوگوں نے میری جوتیوں کو بغور دیکھنا شروع کیا اور میں ان کے گھسے ہوئے تلوے اپنی گھگھیاہٹ سے چھپانے کی کوشش کرنے لگا۔شاگردِ محترم نے کم و بیش دھمکی کے انداز میں میرے لئے ’گولی والی بوتل‘ منگوائی اور پھر ایک فاتح کی شان سے میری عرضی میں سے املا کی تین چار غلطیاں نکالیں اور یوں بظاہر رشوت دیئے بغیر میں وہ سرٹیفکیٹ لینے میں کامیاب ہوا جس کا نام مجھے ہمیشہ سے بلاغت بھرا محسوس ہوتا ہے۔ ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے دفتر میں جب میں ایک عرضی کے ساتھ یہ سترہ دستاویزات لے کر گیا تو میں نے اسے سب سے اوپر نمایاں کرکے رکھا ہوا تھاتاکہ میں ایک بارسوخ سائل دکھائی دے سکوں۔ افسر مجاز نے (کہ ہمارے ہاں کے سبھی حقیقی افسر ،افسر مجاز کہلاتے ہیں) محدّب شیشہ لگا کر اس سرٹیفکیٹ کی تاریخِ اجرا کو دیکھا اور کہا: ’’مجھے کیسے یقین دِلا سکو گے کہ دو ہفتے پہلے جاری ہونے والے اس سرٹیفکیٹ کے بعد یہ پلاٹ کہیں اورگروی نہیں رکھ دیا گیا؟‘‘ اسے یقین دلانے کے لئے مجھے ایک بار پھر جہنم کا ایندھن بننا پڑا،مگر یقین کیجئے کہ اپنی بیوی کے کہنے پراس گھر کو بنواتے ہوئے جن خانہ سوز مرحلوں سے گزرنا پڑا،ان کے بعد ہماری گھریلو ناچاقی کو چھپانے کے لئے گھر کا موجودہ ’کوَرڈ ایریا‘ ناکافی ہوگیا‘ میری بیوی کو اپنی رہائش کے لئے الگ انتظام کرنا پڑا۔ اصل میں یہ ایک نادان مگر قانون دان دوست کا کیا دھرا ہے جس نے یہ قرض منظور ہوتے ہی میری بیوی کو بتایا تھا کہ بھابھی! ہائوس بلڈنگ کا قرض صرف بیوہ کو معاف ہو جاتا ہے۔ اب اس کی مایوسی بڑھتی گئی اور میں نے بھی اس کے پکائے کھانے کو زوال پذیر مغلوں کی طرح شک سے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ظاہر ہے کہ چینی کا وہ طشت دو بار خریدنا تومیری استطاعت سے باہر تھا جو زہر ملی خوراک کا احساس ہوتے ہی پاش پاش ہو جاتا تھا۔یہ سب باتیں کل ہونے والے قومی انتخاب کے نتائج سے بلوچستان کو قومی منظرنامے سے غائب کرنے اورجنوبی پنجاب کی آواز کو مدہم کرنے سے یاد آگیا۔ اگر ایک آزاد الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہونے والے ان انتخابات کے نتائج کی بھی سترہ قسطوں کو ایک خاص ترتیب دینے والوں کے اختیارات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو پوچھنے کو تو جی چاہتا ہے کہ ووٹرز کو کون یقین دلا سکتا ہے کہ وہ سب کے سب کسی کے پاس رہن رکھے ہوئے نہیں اور نہ پاکستان کے کچھ علاقے کسی کے پاس رہن رکھ دئیے گئے ہیں۔ جو وہاں سے ہارے ہیں یا جیتے ہیں ان کے نتائج ایک منظور شدہ ترتیب میں ہی بتائے جا رہے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ ہر طرح کا مینڈیٹ پانے والے ہم سب کے محبوب لیڈر کی ذہانت اورمیرے دل کی سادگی کی سطح ایک ہی ہے؛ چنانچہ میں نے آج صبح ان کا دل رُبا بیان پڑھا تو جھوم اٹھا کہ ’’میں آج سے سب کو معاف کرتا ہوں اور دعوت دیتا ہوں کہ میرے ساتھ مل کر قومی خدمات انجام دیں‘‘۔ اسی عالمِ سرشاری میں میَں نے میاں نواز شریف کا یہ بیان کٹ اور پیسٹ کے بعد اپنی ناراض بیوی کو بھجوا دیا کہ میں بھی اسے معاف کرنے کے لئے تیار ہوں جس پر اس نے فوراً لکھا ’’پہلے مجھے فیصلہ کرنا ہے کہ میں تمہیں معاف کرتی ہوں یا نہیں‘‘۔ پتا نہیں کیوں مجھے خیال آ رہا ہے کہ عمران خان،میاں صاحب کی طرف سے عام معافی دئیے جانے والے بیان کا ایسا دل شکن جواب نہیں دیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved