حکومت نے معیشت کے پلیٹ لیٹس
کم کر دیئے ہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت نے معیشت کے پلیٹ لیٹس کم کر دیئے ہیں‘‘ چنانچہ اگر ان کا علاج کیا جاتا ہے‘ تو معیشت کے دل اور گردوں پر برا اثر پڑتا ہے‘ اس لیے حکومت مطلوبہ پلیٹ لیٹس ہم سے لے کر یہ کمی پوری کر سکتی ہے‘ کیونکہ ہمارا تو بقول مبصرین؛ سارا خون ہی سفید ہو چکا ہے‘ جو سراسر اس محنت کا نتیجہ ہے ‘جو ترقی کے دوران ہم نے کی تھی اور چونکہ یہ محنت بہت زیادہ تھی‘ اس لیے خون بھی اس حساب سے سفید ہوا ہے؛ چنانچہ ہم اب تک اسی سفید خون سے کام چلا رہے ہیں‘ کیونکہ کام کبھی رکنا نہیں چاہیے؛ اگرچہ کام کی نوعیت ضرور تبدیل ہو گئی ہے‘ جبکہ ویسے بھی ہمیں اپنی پڑی ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت اتنا ہی ظلم کرے‘ جتنا برداشت کر سکے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''حکومت اتنا ہی ظلم کرے جتنا برداشت کر سکے‘‘ کیونکہ جو ظلم ہم پر کیا جا رہا ہے‘ وہ اس لیے برداشت سے باہر ہے کہ ہمارے اثاثے اور اکائونٹس بھی ضبط کیے جا رہے ہیں‘ بلکہ حق حلال کی کمائی پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور ہم اس ڈکیتی کے خلاف پرچہ بھی درج کروا سکتے تھے ‘لیکن ہمیں ترس آ گیا کہ حکومت بے چاری پہلے ہی بدحواس ہو کر یہ کارروائیاں کر رہی ہے‘ اسے مزید کیا پریشان کیا جائے اور اسی کارروائی کو کافی سمجھے‘ جو میرے‘ میرے چھوٹے بھائی کی جائیدادوں کے ساتھ کی گئی اورحکام والد صاحب کے ساتھ ایسی گستاخی کے مرتکب نہ ہوں ‘کیونکہ انہوں نے بڑی جانفشانی سے قطرہ قطرہ اکٹھا کر کے یہ چھوٹا سا دریا بنایا ہے‘ جس میں ہم سب نہاتے دھوتے بھی ہیں ‘لیکن یہ حمام سے ذرا مختلف چیز ہے اور اگر اس دریا کو چھیڑا گیا تو اس میں طغیانی بھی آ سکتی ہے۔ آپ اگلے روز پیشی کے بعد عدالت سے باہر میڈیا کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف اور زرداری صاحب کو جلد عوام
کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''نواز شریف اور زرداری صاحب کو جلد عوام کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ اگرچہ ان کی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی‘ لیکن میری صحت کون سا اجازت دے رہی ہے کہ میرا تو بیروزگاری کی وجہ سے پرزہ پرزہ ڈھیلا ہو چکا۔ اب ایک جگہ متوالوں نے حلوے اور نان سے تواضع کی ہے تو طبیعت کچھ بحال ہوئی ہے اور امید ہے کہ آگے تک بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا؛ اگرچہ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے عمران خان کے استعفے کی میری پیش گوئی پوری نہیں ہوئی اور دیکھیے کیسا آدمی ہے‘ ایک وزارت ِعظمیٰ جیسی حقیر چیز کو سینے سے لگائے بیٹھا ہے؛حالانکہ اصولی طور پر آدمی کو بانٹ کر کھانا چاہیے‘ اسے کم از کم نواز برادران اور زرداری سے ہی یہ سلیقہ سیکھ لینا چاہیے تھا‘ لیکن پنجابی محاورے کے مطابق ؛وہ پیٹ ہی پکڑے بیٹھا ہے۔ آپ اگلے روز مارچ کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے۔
مہنگائی سے متوسط طبقہ خون کے آنسو رو رہا ہے: جواد احمد
چیئر مین برابری پارٹی پاکستان جواد احمد نے کہا ہے کہ ''مہنگائی سے متوسط طبقہ خون کے آنسو رو رہا ہے‘‘ حالانکہ اسے اپنا خون جسم کے دیگر حصوں کے لیے بھی بچا کر رکھنا چاہیے؛ چنانچہ وہ اگر چاہتا‘ تو مگر مچھ کے آنسو بھی رو سکتا تھا‘ کیونکہ ہمارے مگر مچھ بہت فیاض واقع ہوئے ہیں اور جتنے آنسو درکار ہوں‘ دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں‘ بے شک آج کل ان پر بڑا سخت وقت آیا ہوا ہے‘ تاہم اس طبقے کو چاہیے کہ آٹھ آٹھ آنسورونے سے اجتناب کرے‘ کیونکہ آہیں بھرنے سے بھی کام چل سکتا ہے ‘جیسا کہ میں آج کل اپنا سارا کام بیان جاری کرنے سے ہی نکال رہا ہوں؛ اگرچہ میرا سراج الحق صاحب سے تو کوئی مقابلہ نہیں ‘کیونکہ ان کا بیان تو ماشاء اللہ بلا ناغہ ہوتا ہے ‘کیونکہ ان کے پاس چلانے کا کوئی اور ذریعہ ہے ہی نہیں‘ اس لیے یہ ان کی مجبوری بھی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ورکرز سے خطاب کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
گزشتہ روز ایک صاحب نے اپنے کالم میں نعت کے دو شعر درج کیے ہیں‘ جن میں سے ایک یہ ہے ؎
میں تصرف کرتے ہوئے اسے
جب شہرِ نبی کے آثار نظر آئے
اس کے دونوں مصرعے غلط اور خارج از وزن ہیں۔ کم از کم نعت کے شعر درج کرتے ہوئے خصوصی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ موصوف کو چاہیے کہ جہاں سے انہوں نے یہ شعر نقل کیا ہے‘ دوبارہ زحمت کریں اور اس غلطی کی تلافی کرتے ہوئے یہ شعر صحیح طور پر درج کریں ‘کیونکہ نعت کا شعر غلط درج کرنے کی گنجائش ہرگز نہیں ہے‘ نیز انہیں چاہیے کہ اس غلطی پر بارگاہِ رسالتؐ سے معافی کے بھی طلبگار ہوں۔
آج کا مقطع
ہے منتظر اک اور زمانہ مرا‘ ظفرؔ
ایک اور ہی طرف کا پکارا ہوا ہوں میں