تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     01-11-2019

بھارتی پروپیگنڈے پر گہری نظر رکھنا ہو گی!

وطن ِعزیز کے داخلی و خارجی حالات گمبھیر صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ایک جانب ملکی سیاسی منظر نامے میں بھونچال کی سی کیفیت ہے‘ تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر پر مظالم سے توجہ ہٹانے کیلئے ایل او سی پر بھارتی اشتعال انگیزیاں بڑھتی جا رہی ہیں‘ جبکہ افغان سرحد پر بھی وقتاً فوقتا کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔
بھارتی سرکار نے گزشتہ دنوں الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغانوں اور پشتونوں پر مشتمل مبینہ دہشت گرد کشمیر میں داخل کرنے کیلئے بھرتی کر نا شروع کر دیئے ہیں۔ بھارت ‘پاکستان پر ایسے الزامات ہمیشہ سے لگاتا آیا ہے‘ تاہم موجودہ حالات کے تنا ظر میں بھارتی سرکار کے ہر الزام کو انتہائی عمیق نظروں سے دیکھا جانا چاہیے۔ اس کا یہ تازہ جھوٹ پر مبنی الزام اپنے اندر کئی مقاصد لیے ہوئے ہے‘ لیکن زیا دہ تفصیل میں جانے کی بجائے میں اس مضمون میں صرف چند نکات کو موضوع بحث بناؤں گا؛جیسا کہ افغانستان ہمارا برادر مسلم ملک ہے اور اس کے ساتھ ہمارے تعلقات کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔ پاکستان نے اسی تعلق کے پیش نظر ہمیشہ افغان امن و استحکام کیلئے مثبت کردار ادا کیا‘ جس کے نتائج ہمیں بہرطور کچھ منفی اثرات کی صورت بھی جھیلنا پڑے۔ ایسے میں برادر ملک کا رویہ جہاں ناقابل فہم ہے ‘وہیں اس باب میں کابل پر بھارتی اثر و رسوخ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت بارہا سامنے آچکی کہ بھارت ‘افغانستان میں بیٹھ کر اسلام آباد کیخلاف ناصرف تخریبی عناصر کی مدد کر رہا ہے‘ بلکہ افغان عوام کوپاکستان سے بدظن کرنے کے ایجنڈے پر بھی بھرپور طریقے سے عمل پیرا ہے۔ اس لئے ضروری ہوگیا ہے کہ دونوں ممالک ہمسایہ ہونے کے ساتھ مذہب سمیت بہت سی ثقافتی و لسانی قدریں مشترک ہونے کے ناتے اور دشمنوں کے عزائم ناکام بنانے کیلئے باہمی اختلافات اور غلط فہمیوں کو مل بیٹھ کر حل کریں‘ کیونکہ اسی اتحاد و یکجہتی کی تمام مسلم دنیا کو اس وقت ضرورت ہے‘ اسی طرح افغان حکومت کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ برسوں کی بدامنی کے بعد ترقی کی منازل طے کرنے کیلئے افغانستان کا خطے کے ممالک سے سازگار تعلقات کا ہونا ضروری ہے۔علاوہ ازیںوزیر اعظم عمران خان اور پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور گزشتہ دو ماہ سے دنیا بھر کو بتانے کی بھر پورکوششیں کر رہے ہیں کہ پلوامہ اور نئی دہلی پارلیمنٹ جیسے نئے ڈرامے کی آڑ میں پاکستان کے خلاف بھارت کوئی نیا ایڈونچر کرنے جا رہا ہے اور عالمی رائے عامہ کئی دہائیوں کے بعد مودی اور کانگریس کا کھلونا بننے کی بجائے کشمیریوں کیلئے پورے وسائل اور خلوص کے ساتھ دنیا کے ضمیر کو جگا رہی ہے۔ وہ اب بھارتی فریب میں آنے کی بجا ئے کشمیریوں کو 88 دن کے کرفیو کے جبر میں بندھا ہوا دیکھ کر مجبور ہو چکی ہے کہ بھارت کیلئے پہلے جیسا نرم گوشہ ختم کر دے۔ 
مودی سرکار کا مستقبل میں نیا فریب اور ڈرامے کا مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ دونوں ناراض ممالک کوپھر سے اپنے مظلومیت کے جال میں الجھا دیا جائے ۔ پشتونوں اور افغانوں پر مشتمل دستے کشمیر داخل کرنے کا جھوٹ پھیلانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ پلوامہ یا پٹھان کوٹ جیسی دہشت گردی کا ڈراما رچانے کے بعد اس کا تمام ملبہ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر پاکستان پر گرا دیا جائے‘ جس سے دوسرے مقاصد کے علا وہ ایف اے ٹی ایف کی پاکستان کو فروری تک گرے لسٹ میںرکھنے کی جو مہلت دی گئی ہے‘ اس کیخلاف فضا تیار کرتے ہوئے ‘اسے ڈارک یا بلیک لسٹ میں شامل کرا یاجائے۔ افغان حکومت ‘ این ڈی ایس اور افغان آرمی‘ جس قدر بھارت کیلئے دل میں نرمی رکھتی ہیں‘ وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ اشرف غنی سمیت افغان آرمی کے تمام افسران بھارت کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ اس قسم کی صورتحال میں یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ افغان حکومت افغانوں کو بھارت کے خلاف کشمیر مشن میں جانے کی اجا زت یا حوصلہ افزائی کرے‘ جبکہ پاک افغان بارڈر پر آہنی باڑیں نصب ہیں ‘ایک لمحے کیلئے بھارت کے اس پراپیگنڈے کو تسلیم کر لیا جائے ‘تو بھی بھارت نے لائن آف کنٹرول پر انتہائی بلند اور مضبوط آہنی باڑیں لگائی ہوئی ہیں‘ جن میں شام ہونے سے پہلے ہی الیکٹرک کرنٹ چھوڑ دیا جاتا ہے ۔اب‘ بھارت خود ہی بتا دے کہ کیا یہ ممکن ہو سکتاہے کہ لائن آف کنٹرول کی آہنی الیکٹرک باڑیں کراس کرکے کسی کو گروہ یا گروپوں کی شکل میں مقبوضہ کشمیر میں داخل کرا دیا جائے؟جبکہ سرحدوں کے چپے چپے پر بھارت کی بارڈر ملٹری فورس‘ پولیس‘ سینٹرل ریزور پولیس اور بھارتی فوجی گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔
ابھی گزشتہ روز بھی افغان فورسز نے صوبہ کنڑ سے چترال کے گائوں اروند کی شہری آبادی پر فائرنگ کی‘ جس کے نتیجے میں 6فوجی اور ایک خاتون سمیت پانچ شہری زخمی ہوگئے۔ ہماری فورسز کی بروقت اور بھرپور جوابی کارروائی میں مخالف سرحدی پوسٹوں کو شدید نقصان پہنچا۔ جوابی کارروائی میں افغانستان کی متعدد چیک پوسٹیں تباہ ہو گئیں۔ پاکستان اور افغانستان بہترین ہمسائے اور برادر اسلامی ملک ہیں‘ لیکن کچھ شرپسند عناصر دونوں ممالک کے درمیان قائم دوستانہ تعلقات کو خراب کرنے کے درپے ہیں۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے اہلکار بھی بھارتی خفیہ ایجنسی''را ء‘‘کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے تعلقات میں دراڑ ڈالتے ہیں۔ دراصل پاکستانی سرحد سے ملحقہ افغان سرحد پر بھارت نے کالعدم دہشت گردتنظیموں کے ٹریننگ سنٹر قائم کر رکھے ہیں۔ افغان سرزمین سے حالیہ فائرنگ کے واقعہ نے ایک بار پھر دونوں ممالک کے تعلقات کو خراب کر دیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کو حالات کی نزاکت کا جائزہ اور افغان سرزمین کی طرف سے اشتعال انگیز فائرنگ کے واقعات کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔ 
ذہن نشین رہے کہ لندن ‘ کینیڈااور امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں کچھ سکھ حضرات ابھی تک بھارت کے سحر میں مبتلا چلے آ رہے ہیں۔ اس سوچ کے حامل سکھ شاید وہ دن اور راتیں بھول چکے ہیں یا ان کے کان وہ داستانیں سننے سے محروم ہیں‘ جب دہلی سمیت بھارت بھر میں سکھ بوڑھوں بچوں‘ عورتوں اور مردوں کو ہندو غنڈوں نے ان کے گردواروں سمیت راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا‘ سکھ بچیوں کو دہلی کی سڑکوں ‘ گلیوں اور چوکوں پر نیلام کیا گیا تھا ۔ سکھوں کے گھر بارا ور دوکانیں جلا کر خاکستر کر دی گئی تھیں ‘ صرف اس لیے کہ اندرا گاندھی سکھوں کے ہاتھوں قتل ہو گئی تھی۔کیا دو سکھوں کے اس سنگین جرم کا انتقام پوری سکھ قوم سے لینا جائز تھا؟کیا سکھوں کی بھارت میں یہی وقعت ہے؟ کیا ان کی یہی حیثیت ہے کہ بھارت کی کوئی اہم شخصیت کسی سکھ کے ہاتھوں قتل ہو جائے ‘تو اس کا انتقام لینے کیلئے سکھوں پر اس طرح چڑھ دوڑا جائے‘ جیسے کسی محکوم قوم کے ساتھ فاتح فوج کرتی ہے؟ میری ان گزارشات کو ہمارے لبرل قسم کے لوگ ہمیشہ کی طرح مبا لغہ آرائی کا نام دیں گے‘ ایسے بھارت نواز خواتین و حضرات مودی کے گروکا ''Bharat Ratna for a man who justified rape as a weapon of war‘‘کامنشوراور نعرہ پڑھ لیں ۔ یہ نظریہ کسی اور کا نہیں ‘ بلکہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے اس گرو کا ہے‘ جسے وہ بڑے فخر سے اپنا آئیڈیل کہتے نہیں تھکتے اور نریندر مودی سمیت امیت شاہ‘ راج ناتھ اور یوگی ادتیا ناتھ کا بھگوان مودی کا گرو Vinayak Damodar Savarkar ہے۔
الغرض ‘جس حکمران کے آئیڈیل کی سوچ یہ ہو تو ایسے آئیڈیل کے پیرو کاروں کی کشمیر اور بھارت کی مسلمان بہو بیٹیوں کے بارے میں ذہنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے اور یہ اس بھارتیہ جنتا پارٹی کا منشور ہے ‘ جس کا لیڈر گاندھی نہیں ‘بلکہ اسے قتل کرنے والا گوڈسے ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved